Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Wednesday, October 27, 2010

PRESS NOTE 23.10.2010


ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.

Ref.No............                  Date............ 
برائے اشاعت
جاوید مرتضی کی برسی کی تیاریاں شروع
 تجدید عہد کا دو روزہ پروگرام چھوٹے امام باڑہ میں: تنظیم علی کانگریس

لکھنو 23 اکتوبر:تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست زیر صدارت مرزا ارشاد حسین شاہ منعقد ہوئی، جس میںمیں پچھلے ہفتے کے حالات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ تنظیم کے مرحوم قاعد،تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز و رہبر الحاج جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کی پہلی برسی کے سلسلے سے یومِ تجدیدِعہد کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ انشااللہ 30 اکتوبر کو بعد نماز مغربین امامباڑہ محمد علی شاہ المعروف بہ چھوٹا امامباڑ ہ میں مجلس دیسہ ہوگی۔ اور 31 اکتوبر کو انشاللہ اسی جگہ اور اسی وقت روبینہ جاوید مرتضیٰ کی کتاب حیات جاوید کا اجراءجاوید صاحب مرحوم کے والد ماجد عزت مآب جسٹس مرتضیٰ حسین کریں گے۔ 
اپنی کتاب حیاتِ جاوید کے سلسلہ میں علی کانگریس کی نائب صدر اور دخترانِ زینبی کی صدر روبینہ جاوید مرتضیٰ نے بتایا کہ انکے والد ایک تاریخ ساز شخصیت (legend) تھے جنکا بچپن سے لے کر انتقال تک کا وقفہ صدق مقال اوررزق حلال پر مبنی تھا اور جنہوں نے اپنی ساری زندگی پیامِ امام حسین علیہ السلام کو عوام تک پہونچانے میںنچھاور کر دی۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے واالدِ مرحوم کی روح سے انہوں نے اللہ کے سامنے یہ عہد کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی انکی تاسی میں اہلیبیت علیہم السلام کے اصل پیغام کی نشر و اشاعت پر صرف کرنے کے لئے وقف کر رہی ہیں ۔ تنظیم کے سکریٹری اصغر مہدی صاحب نے بتاےا کہ مجلس انشااللہ تنظیم کے نائب صدر مسعود اظہر رضوی پڑھیں گے اور مجلس اور رسمِ اجراءکے دعوت نامے شہر میں تمام علمائ، دانشوروں اور دیگر افرادکو دئے جا چکے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ تمام محبانِ اہلیبت علیہم السلام وہ لوگ جو قومی حالات میں بہتری کی فکر رکھتے ہیں ان جلسوں میں شامل ہوں گے۔جعفر رضا صاحب ایڈوکیٹ نے اطلاع دی کہ وکلاء اور ماہرین قانون کے دعوت نامے تقسیم کئے جا چکے ہیں ۔ حسن اعجاز صاحب نے اخبارات اور میڈیا سے رابطے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس سلسلہ میں تفصیلی نشریہ حسب ضرورت پھر جاری کیا جائے گا۔
 آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔
جاری کردہ
لائق علی

Tuesday, October 12, 2010

PRESSNOTE OF 10.10.2010

 
ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............                                                                    Date............
برائے اشاعت
 ایمان فروش” پوتر پاپی دھرم مافیاو ¿ں“ کو روٹیاں سےنکنے نہ دی جائےں: تنظیم علی کانگریس

لکھنو ¿10اکتوبر تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں کہا گیا کہ بابری مسجد کے مقدمہ میں ہائی کورٹ کا فیصلہ بدقسمتی سے کسی ایک بھی فریق کو مطمئن نہ کر سکا اور تینوں فریق بالآخرسپریم کورٹ سے رجوع کرنا ضروری سمجھ رہے ہیں۔ یہ ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ میں شائد ایسا پہلا واقعہ ہو جس میں تمام فریقوں کوخوش کرنے میں کوئی بھی مطمئن نہ ہوا۔ اور یہ دکھاتا ہے کہ عدلیہ کے لئے ضروری ہے کہ بالکال صاف اور واضح طور پر انصاف کے قیام کی اپنی ذمہ داری نبھائے۔ اسی طرح حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہر قیمت پر کمزوروں کے حقوق کی طاقتوروں سے حفاظت کرے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بابری مسجد پر ناجائزقبضہ کی پوری تاریخ میں حکومتیں اپنے فوری مصالح کی بنیاد پر بار بار طاقت کی بالا دستی کے ننگے ناچ کو پروان چڑھاتی رہیں یہاں تک کہ ہندوستانی تاریخ میں دہشت گردی کی بدترین واردات۶ دسمبر 1992 میں بھگوا بریگیڈ کے ہاتھوں انجام پا گئی۔ اس صورت میں جب کہ ملک کے تمام انصاف پسند افراد عدالتی فیصلے پر انگشت بدنداں تھے اور بڑے بڑے قانون داں تبصرے کے لئے فیصلے کے پورے متن کا انتظار کر رہے تھے کچھ” مکرو فریب میں ڈوبے ہوئے لوگ “اور ©”دھرما فیاو ¿ں ©“ کے ”سگے © ©“ جنہیں دنیا و مافیہا کی خبر نہیں حسب عادت تمام قوم اور تمام انصاف پسند برادران وطن کے دلوں میں لگی آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے پھاند پڑے۔ اور جب ساری دنیا سے ان پر نفرین کی بارش ہونے لگی تو” تھالی کے بیگنوں“ کی طرح پلٹ پڑے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ قوم ایسے ایمان فروشوں اور کسی ”پوتر پاپی “کے سگوں کو اپنی روٹیاں سینکنے نہ دے اور اسی کے ساتھ نوٹوں ووٹوں کی لین دین کرنے والے سیاسی سوداگروںکو بھی ہوشیار رہنا چاہئے کہ ایسے لوگوں سے قربت خود انکے سیاسی کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ جن سیاسی پارٹیوں سے وابستہ سمجھے جاتے ہیںانہیں چاہئے کہ یا تو ان سے دست برداری کا اعلان کریں یا انکے غیر منصفانہ ایمان فروش بیان پر اپنا موقف ظاہر کریں۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ سے ایک واضح فیصلہ ہو جانا ضروری ہے کیوں کہ اسی پر ہندوستانی عدلیہ پر عوام کے اعتبار کا انحصار ہے۔ تنظیم برادرِ مومن کوثر حسین عابدی صاحب کے انتقال پر انکے پسماندگان کو تعزیت پیش کرتی ہے اور انکے اعلیٰ مدارج کی دعا کرتی ہے۔ آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔جاری کردہلائق علی

Monday, October 04, 2010

PRESSNOTE AFTER THE AYODHYA VERDICT


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                           Date............

برائے اشاعت

ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آستھا نہیں بلکہ ملکی قانون کی بنیاد پر ہوگا:تنظیم علی کانگریس



لکھنو 03اکتوبرتنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میںحالات حاضرہ کا جائزہ لےتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بہت عمدہ بات ہے کہ فرقہ پرست فسطائی قوتوں کے حوصلے عوامی بیداری کے بڑھنے کی وجہ سے 1992 کیے مقابلہ اب تک کافی پست ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد معاملہ مین کورٹ کے فیصلے کے پس منظر میں فرقہ واریت نہیں بھڑکی۔یہ الگ بات ہے کہ موجودہ فیصلہ ایسا نہ ہو سکا جس سے سبھی فریق مطمئن ہو جاتے اور ایسے میںسپریم کورٹ میں اپیل کیا جانا آینی حق بھی ہے اور ایک جمہوری فریضہ بھی۔ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جانی چاہئے در اصل اس عدالتی فیصلے کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیںجس میں خود یہ پراویژن ہے کہ اسے وقت معینہ کے اندر سپریم کورٹ میں چیلینج کیا جا سکتا ہے۔اسکے علاوہ اُنکا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ملک کے عدالتی نظام سے مایوس ہو چکے ہیں جو کہ بے انتہا بری بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ کسی طرح بھی 6 دسمبر 1992 کی فسطائی دہشت گردی کا جواز نہیں بن سکتا جو کہ الگ معاملہ ہے اور جسکے مجرم ہر حال میں مجرم ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ ثابت کر دیا جانا ضروری ہے کہ قوت کا مظاہرہ کر کے کسی کمزور کی عبادت گاہ یا کسی عام ملکیت پر بھی قبضہ کر لیا جانا درست اور جائز نہیں قرار دیا جا سکتا اور ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ سے یہ انصاف ضرور ملے گا اور عدل اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی۔ ملک کے تمام انصاف پسندوں کو چاہئے کہ بلا تفریق مذہب و ملت وہ بہترین وکلا کی مدد سے ملکی قانون کے مطابق ملک کی اعلی ترین عدالت میں اس فیصلہ پر نظر ثانی کئے جانے کو یقینی بنانے میں ہر ممکن تعاون کریں۔ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آستھا نہیں بلکہ ملکی قانون کی بنیاد پر ہوگا اور ہمارے ملک میں قانون انصاف عدل کی بنیادوں پر بنایا گیا ہے۔

تنظیم علی کانگریس ان افراد اور خود ساختہ لیڈروں کی سخت مذمت کرتی جو یہ رائے دے رہے ہیں کہ ہائی کورٹ کے ذریعے ایودھیا فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہ کریں۔حقیقت یہ ہے کہ ان ا فراد کا جمہوریت پر سے یقین اٹھ چکا ہے۔علی کانگریس نے ان عناصر کی بھی مذمت کرتی ہے جو اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کےلئے پندرہ لاکھ روپئے چندے کا اعلان کرکے واہ واہی لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔در اصل ان عناصر کو یہ شاید نہیں معلوم کہ آقائے شریعت جناب مولانا سید کلب عابد صاحب مرحوم و مغفور کی زندگی کا آخری دور بابری مسجد کی بازیابی کے لئے جد وجہد سے پُر تھا اور مرحوم نے ایک ایسا ماحول تشکیل کیا تھا جس نے اتحاد بین المسلمین کو اولیت دی تھی۔مرحوم نے نہ صرف بڑے بڑے احتجاجی جلسوں کی قیادت کی تھی بلکہ حقیقی معنی میں مسجد کی واگزاری کےلئے جو حکمت عملی اختیار کی تھی اس نے مسلمانوں کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا عمل شروع ہوا تھا۔افسوس ہے کہ آج اسی شریت کدے سے مندر کی تعمیر کے لئے پندرہ لاکھ روپئے چندہ دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ تضاد اور دہرے رویہ سے مسلمانوںمیں بے چینی کس کے اشارے پر بڑھائی جا رہی ہے تحقیقات کی ضرورت ہے۔یہ بھی مزحکہ خیز ہے کہ قبل اول کی بازیابی کےلئے امریکہ اور اسرائیل کا جھنڈا جلانے والوں نے اپنی ہی مسجد میں مندر بنانے کے ئے چندے کی پیشکش کی ہے۔جبکہ مولانا کلب جواد نے بھی ہائی کورٹ میں بابری مسجد کے حق میں گواہی دی تھی جو کہ رکارڈ پر موجود ہے ۔علی کانگریس اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ یہ عناصر اپنے سیاسی ،کاروباری اورذاتی مفادات کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان مفاد پرست اور چاپلوسوں سے قوم ہوشیار رہے ۔شہدرہ کی مسجد کی آراضی اور دیگر قرق مسجدوں کی واگزاری کے سلسلے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والوں کاتنظیم علی کانگریس بھنڈا پھوڑ کرے گی اور قوم کو بتا دیا جائےگا کہ جن پر وہ تکیہ کیا جا رہا ہے وہی پتے ہوا دینے لگے۔

جہاں تک مسلمان قوم کے لئے لائحہ عمل کا سوال ہے اس سلسلہ میں علی کانگریس آج بھی 24 جنوری 1993 کے جلسہ میں بتائے گئے اپنے مرحوم قائد جاوید مرتضیٰ صاحب کے موقف پر قائم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم سورہ رعد کی آئت 11-17 سے ہدائت لیں:

”وہی خدا ہے جو تمہیں ڈرانے اور لالچ دینے کے لئے بجلیاں دکھاتا ہے اور پانی سے لدے ہوئے بادل ایجاد کرتا ہے(۱۱)۔۔۔۔۔۔اُس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدرِ ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کرجھاگ آ گیا اور اُس دھات سے بھی جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لئے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پرودگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہونچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے(۷۱)

ان آیاتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ باقی وہی رہتا جو تمام انسانوں کے لئے مفید ہو اس لئے مسلمانوں کو اپنے کو تمام لوگوںکے لئے مفید ثابت کرنا ہوگا۔جس کی پہلی صورت یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں تمام مستضعفیں دلتوں اور دبے کچلے لوگوں کی نجات اور فلاح کے لئے کام کرتے رہنا چاہئے۔ اسی کی بنیاد پر جاوید صاحب مرحوم نے سہ نکاتی پروگرام طے کیا تھا جو حسب ذیل ہے:

1۔ اتحاد بینالمسلمین کو فروغ دینا ،2 ۔ ہندو مسلم منافرت نہ پھیلنے دینیا اور3۔توحید کی تبلیغ اور شرک و بت پرستی کو پھیلنے سے روکنا۔

بہ نظر غائر دیکھا جائے تو مسجد کی بازیابی کی جنگ symbolic ہے اور اصل کامیابی ملک میں بلکہ دنیا میں اپنی افادیت ثابت کر کے ایک مثالی قوم بننا ہے جس کی پیروی دوسرے کرنے میں فخر محسوس کریں۔

جاری کردہ لائق علی