ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............ Date............
برائے اشاعت
ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آستھا نہیں بلکہ ملکی قانون کی بنیاد پر ہوگا:تنظیم علی کانگریس
لکھنو 03اکتوبرتنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میںحالات حاضرہ کا جائزہ لےتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بہت عمدہ بات ہے کہ فرقہ پرست فسطائی قوتوں کے حوصلے عوامی بیداری کے بڑھنے کی وجہ سے 1992 کیے مقابلہ اب تک کافی پست ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد معاملہ مین کورٹ کے فیصلے کے پس منظر میں فرقہ واریت نہیں بھڑکی۔یہ الگ بات ہے کہ موجودہ فیصلہ ایسا نہ ہو سکا جس سے سبھی فریق مطمئن ہو جاتے اور ایسے میںسپریم کورٹ میں اپیل کیا جانا آینی حق بھی ہے اور ایک جمہوری فریضہ بھی۔ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جانی چاہئے در اصل اس عدالتی فیصلے کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیںجس میں خود یہ پراویژن ہے کہ اسے وقت معینہ کے اندر سپریم کورٹ میں چیلینج کیا جا سکتا ہے۔اسکے علاوہ اُنکا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ملک کے عدالتی نظام سے مایوس ہو چکے ہیں جو کہ بے انتہا بری بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ کسی طرح بھی 6 دسمبر 1992 کی فسطائی دہشت گردی کا جواز نہیں بن سکتا جو کہ الگ معاملہ ہے اور جسکے مجرم ہر حال میں مجرم ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ ثابت کر دیا جانا ضروری ہے کہ قوت کا مظاہرہ کر کے کسی کمزور کی عبادت گاہ یا کسی عام ملکیت پر بھی قبضہ کر لیا جانا درست اور جائز نہیں قرار دیا جا سکتا اور ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ سے یہ انصاف ضرور ملے گا اور عدل اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی۔ ملک کے تمام انصاف پسندوں کو چاہئے کہ بلا تفریق مذہب و ملت وہ بہترین وکلا کی مدد سے ملکی قانون کے مطابق ملک کی اعلی ترین عدالت میں اس فیصلہ پر نظر ثانی کئے جانے کو یقینی بنانے میں ہر ممکن تعاون کریں۔ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آستھا نہیں بلکہ ملکی قانون کی بنیاد پر ہوگا اور ہمارے ملک میں قانون انصاف عدل کی بنیادوں پر بنایا گیا ہے۔
تنظیم علی کانگریس ان افراد اور خود ساختہ لیڈروں کی سخت مذمت کرتی جو یہ رائے دے رہے ہیں کہ ہائی کورٹ کے ذریعے ایودھیا فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہ کریں۔حقیقت یہ ہے کہ ان ا فراد کا جمہوریت پر سے یقین اٹھ چکا ہے۔علی کانگریس نے ان عناصر کی بھی مذمت کرتی ہے جو اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کےلئے پندرہ لاکھ روپئے چندے کا اعلان کرکے واہ واہی لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔در اصل ان عناصر کو یہ شاید نہیں معلوم کہ آقائے شریعت جناب مولانا سید کلب عابد صاحب مرحوم و مغفور کی زندگی کا آخری دور بابری مسجد کی بازیابی کے لئے جد وجہد سے پُر تھا اور مرحوم نے ایک ایسا ماحول تشکیل کیا تھا جس نے اتحاد بین المسلمین کو اولیت دی تھی۔مرحوم نے نہ صرف بڑے بڑے احتجاجی جلسوں کی قیادت کی تھی بلکہ حقیقی معنی میں مسجد کی واگزاری کےلئے جو حکمت عملی اختیار کی تھی اس نے مسلمانوں کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا عمل شروع ہوا تھا۔افسوس ہے کہ آج اسی شریت کدے سے مندر کی تعمیر کے لئے پندرہ لاکھ روپئے چندہ دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ تضاد اور دہرے رویہ سے مسلمانوںمیں بے چینی کس کے اشارے پر بڑھائی جا رہی ہے تحقیقات کی ضرورت ہے۔یہ بھی مزحکہ خیز ہے کہ قبل اول کی بازیابی کےلئے امریکہ اور اسرائیل کا جھنڈا جلانے والوں نے اپنی ہی مسجد میں مندر بنانے کے ئے چندے کی پیشکش کی ہے۔جبکہ مولانا کلب جواد نے بھی ہائی کورٹ میں بابری مسجد کے حق میں گواہی دی تھی جو کہ رکارڈ پر موجود ہے ۔علی کانگریس اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ یہ عناصر اپنے سیاسی ،کاروباری اورذاتی مفادات کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان مفاد پرست اور چاپلوسوں سے قوم ہوشیار رہے ۔شہدرہ کی مسجد کی آراضی اور دیگر قرق مسجدوں کی واگزاری کے سلسلے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والوں کاتنظیم علی کانگریس بھنڈا پھوڑ کرے گی اور قوم کو بتا دیا جائےگا کہ جن پر وہ تکیہ کیا جا رہا ہے وہی پتے ہوا دینے لگے۔
جہاں تک مسلمان قوم کے لئے لائحہ عمل کا سوال ہے اس سلسلہ میں علی کانگریس آج بھی 24 جنوری 1993 کے جلسہ میں بتائے گئے اپنے مرحوم قائد جاوید مرتضیٰ صاحب کے موقف پر قائم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم سورہ رعد کی آئت 11-17 سے ہدائت لیں:
”وہی خدا ہے جو تمہیں ڈرانے اور لالچ دینے کے لئے بجلیاں دکھاتا ہے اور پانی سے لدے ہوئے بادل ایجاد کرتا ہے(۱۱)۔۔۔۔۔۔اُس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدرِ ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کرجھاگ آ گیا اور اُس دھات سے بھی جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لئے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پرودگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہونچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے(۷۱)
ان آیاتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ باقی وہی رہتا جو تمام انسانوں کے لئے مفید ہو اس لئے مسلمانوں کو اپنے کو تمام لوگوںکے لئے مفید ثابت کرنا ہوگا۔جس کی پہلی صورت یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں تمام مستضعفیں دلتوں اور دبے کچلے لوگوں کی نجات اور فلاح کے لئے کام کرتے رہنا چاہئے۔ اسی کی بنیاد پر جاوید صاحب مرحوم نے سہ نکاتی پروگرام طے کیا تھا جو حسب ذیل ہے:
1۔ اتحاد بینالمسلمین کو فروغ دینا ،2 ۔ ہندو مسلم منافرت نہ پھیلنے دینیا اور3۔توحید کی تبلیغ اور شرک و بت پرستی کو پھیلنے سے روکنا۔
بہ نظر غائر دیکھا جائے تو مسجد کی بازیابی کی جنگ symbolic ہے اور اصل کامیابی ملک میں بلکہ دنیا میں اپنی افادیت ثابت کر کے ایک مثالی قوم بننا ہے جس کی پیروی دوسرے کرنے میں فخر محسوس کریں۔
جاری کردہ لائق علی
No comments:
Post a Comment