Meeting of Ali congress
LATE YASA RIZVI
LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
Sunday, August 22, 2010
Ali Congress wants Kalbe Jawwad out of Asfi Masjid Pulpit
Submitted by admin4 on 4 July 2009 - 12:51pm.
Indian Muslim
By Mumtaz Alam Falahi, TwoCircles.net,
New Delhi: The Lucknow-based Ali Congress has sought removal of Shia cleric Kalbe Jawwad from the pulpit of the historic Asfi Masjid in the city as he, the group alleged, is speaking lies from the pulpit, and thus has lost eligibility to lead prayers.
During Juma sermon in Asfi Masjid on May 22, Ali Congress alleged in a statement, Kalbe Jawwad made baseless allegations against the organization regarding its alleged anti-Shia activities in connivance with Nadwatul Ulema and Saudi Arab Embassy in Delhi. The group said the cleric did not provide any proof to substantiate his claim.
On the other hand Ali Congress has alleged that wakf properties are being looted and encroached upon under the patronship of Kalbe Jawwad. The group also alleged that some people of Jawwad tried to disturb its program on June 13.
“Because Kalbe Jawwad has gone astray by doing wrong activities and helping looters of wakf properties, to offer prayers behind him will not be right. Ali Congress declares that either Kalbe Jawwad comes up with proofs to support his allegation against Ali Congress or stop leading Juma prayer in Asfi Masjid,” the statement reads. Otherwise, the group threatened, separate Juma Prayer will be held near Asfi Masjid.
Why Kalbe Jawwad made allegation against Ali Cong?
Jawed Murtaza, advisor to Ali Congress, told TwoCircles.net: “Our organization works for social welfare, we bring out a magazine Payame Nau wherein we criticize wrong customs and traditions crept into the Muslim society. We distribute the magazine after Juma Prayer. We are doing it since 1986. We have also been exposing lies delivered from the pulpit. This has angered some people and Shia leaders. Recently we also raised the issue of some Ulema taking money from a politician in Lok Sabha elections for endorsing support. This has further angered them. So they have come out to malign us.”
How long is the enmity between Ali Congress and Kalbe Jawwad? Jawed Murtaza said: “Earlier they kept quite but when they saw their ground is shrinking, they have come out in open. We have never named individuals in our campaigns but when allegations were made directly against us we had to answer in the same coin.”
The web site of the organization says: “Ali congress is an Islamic Organization set up to fight social inequalities and discrimination.
It endeavors:
1. To promote unity among Muslims (ittehad-bain-al-muslimeen).
2. To eradicate communalism particularly Hindu-Muslim enmity.
3. To propagate monotheism and to oppose polytheism and idolatory
This organization was initially set up in 1977 for making concerted efforts for removal of illegal ban on Azadari Processions in Lucknow imposed by the Government.
Ali Congress organized various protests in this respect and ultimately succeeded in getting the ban on Azadari Processions lifted.
Link: http://www.alicongress.in/
Friday, August 20, 2010
PRESSNOTE 16.8.2010
ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............ Date............
برائے اشاعت
قرآن کریم ایک انقلابی کتاب ہے۔تنظیم علی کانگریس
لکھنو 15 اگست تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں مسلمانوں کو ماہ رمضان کی مبارک باد پیش کی اورقرآن کریم کی فضیلتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مقررین نے کہا کہ قرآن کریم ایک انقلابی کتاب ہے جو ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے اور قابل اعتماد کتاب ہے جس نے اپنے نزول سے لے کر آج تک ہر خطہ اور وقت میںلوگوں کی ہدائت اور رہبری کی ہے اور انشا ¿ اللہ کرتی رہے گی۔ یہ ایک پریکٹل ہدائت نامہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے خوف اور پریشانیوں میں اضافہ کا ذریعہ بنتا رہا ہے اور بنتا رہے گا جو عوام کو بیوقوف بنا کر ان کا استحصال کرتے رہنا چاہتے ہیں۔امریکہ یوروپ و دیگر مغربی ممالک میں اسلام کا بڑھتا ہوا اثر و نفوز قرآن کریم کے زندگی بخش ہونے کی علامت ہے ۔اسلام تمام بنی نوع انسانی کو ایک خدائے واحد کی پرستش اور یوم آخرت پر ایمان کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون اور پُر امن بقائے باہم کی دعوت دیتا ہے۔ بعض مغربی لوگوں کی قرآن کے بارے میںغلط فہمیوں کی بڑی وجہ خود مسلمانوں میں ایسے افراد کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازیاں ہیں کہ جو دین کی متعصبانہ توجیہات کرتے ہیں اور خلقِ خدا کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔اس کی افسوسناک مثال شیعوں کو کافر قرار دیاجانا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے سبھی فرقے بشمول شیعہ مسلمانوں کے، اللہ، روز آخرت اور رسالت حضرت محمّد پر ایمان رکھتے ہیں اور ان میںکسی کو بھی از روئے قرآن کافر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ قرآن کریم آغاز کلام میں ہی لوگوں کونام سے نہیں بلکہ صفات کے لحاظ سے مومن، کافر ، اور منافق تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہے اور ان کی الگ الگ خصوصیات بیان کر دیتا ہے۔اب یہ ہر شخص کے انفرادی نظریات اور اعمال ہیں کہ جو طے کریں گے کہ وہ واقعی کس گروہ سے تعلق رکھتاہے۔انہوں نے کہا کہ یہ مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ عالم دین کے لباس میں ایسے لوگ ان کے امور پر مسلط ہو گئے ہیں کہ جو اصل دین کے عالم نہ ہو کر ان اختلافات اور تفرقوں کے ماہر ہوتے ہیں کہ جو رسول اکرم کی آنکھ بند ہونے کے بعد رُو نما ہوئے اور کیونکہ یہ لوگ تفرقوں میں مہارت حاصل کرتے ہیں لہٰذا یہ لوگ آپسی تفرقہ بڑھانے میں اپنی تمام مہارت ثابت کر کے ملّت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے ہر فرقہ اور جماعت میں ایسے سمجھداار افراد آگے آئیں جو دین کو قرآن کریم اور عقل و فکر کی بنیاد پر اخذ کریں اور اپنے سماج میں پھیلی برائیوں اور تفرقوںکو دور کرنے میں مصروف جہاد ہوںاور اپنے پیش نظر اس حقیقت کوہمیشہ رکھیں کہ جن لوگوں نے دین میں تفرقہ کیا ہے اور گروہوں میں منتشر ہو گئے ہیں ان سے رسول اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
مسجد نور محل کے سلسلہ میں ضلع انتظامیہ کے رویہ کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بڑے شرم کی بات ہے کہ اللہ کے گھر سے ایک ناجائز قبضہ ہٹانے میں ضلع انتظامیہ اور خود ساختہ قیادت نا اہل ثابت ہو رہی ہے تو پھر ضلع انتظامیہ بابری مسجد کے سلسلہ میں عدالت کے فیصلے کو نافض کیسے کر پائےگا؟ضلع انتظامیہ کی اسی روش اور قوم کی خود ساختہ قیادت کی ٹال مٹول اور ذاتی مفاد کی خاطر آج تک قرق ہوئی مسجدیں واگذار نہیں ہو سکیںاور مسجد شہدرا کی آراضی بھی خطرہ میں ہے۔آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے تفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔
جاری کردہ
لائق علی
Monday, August 09, 2010
PRESSNOTE OF 8.8.2010
ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............ Date8.8.2010....
راجہ محمودآباد کی املاک کو قرق کرنے کی جلدی اور مسجد کے مقدہ میں جیت کے باوجود قبضہ دلانے میں تساہلی؟
مسجد شہدرہ اور امامباڑہ سبطین آباد کے مسائل کیوں حل نہیں کئے جا رہے ہیں:تنظیم علی کانگریس
لکھنو8 اگست تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہاگیا کہ محمودآباد کی جائداد سے متعلق آرڈینینس میں مسٹر چدمبرم کے رول پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ مان لیا جانا محال ہے کہ وزیر اعظم اس سلسلے میں پہلے سے نہ جانتے ہوں۔ مرکزی حکومت اگر اس سلسلہ میں اپنا کردار صاف کرنا چاہتی ہو تو فوری طور پر اس آرڈینینس کو واپس لے۔ آردینینس کے لیپَس (Lapse)ہونے کا انتظار کرنا حکومت کی بد نیتی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس سے قبل کانگریس حکومت مختلف مواقعہ پر اقلیتی معاملات میںدھوکے دے چکی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس سارے معاملے کی تحقیق کر کے قرطاسِ ابیض(White Paper) جاری کرے۔
اس سنجیدہ موقعہ پر بھی قوم کے ساتھ ایک پرانی مصیبت لگی رہی اور وہ ہے جاہل انسانوں کا عالم کی شکل میں قوم کی وکالت کرنا جس سے قوم کی مزید تضحیک ہوتی ہے۔ حد ہے کہ بیان میں ایسا جاہلانہ تبصرہ کیا گیا کہ علامہ اقبال پاکستان چلے گئے تھے۔ جن لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ علامہ اقبال کی رحلت ۸۳۹۱ میں ہوئی تھی جب کہ پاکستان ۴۱ اگست ۷۴۹۱ کو بنا تھااور جس شخص کوخود اپنے ملک کی ۳۶ سالہ پُرانی تاریخ صحیح نہ معلوم ہو اسے عرب میں ہونے والے واقعات کے بارے میں جو چودہ سو سال پہلے واقعہ ہوئے تھے کیا معلوم ہو گا۔ سچ پوچھا جائے تو یہ بیماری بے تکان منبر سے جھوٹ بولنے کی عادت کی وجہ سے پیدہ ہوئی اور اگر قوم نے اس چیز پر لگام نہ لگائی تو ایسی ہی رسوائیاں برابر ہوتی رہیں گی۔ساتھ ہی آخر قوم کو یہ کیوں نہیں بتایا جا رہا ہے کہ سبطین آباد کی صحنچیوںکا کیا معاملہ چل رہا ہے اور خصوصاً مکان نمبر بارہ کی پئے در پئے سودے بازی کے سلسلہ میں کیا ہو رہا ہے۔ شہدرہ کی مسجد پر مقدمہ جیتنے کے باوجود آج تک صوبائی حکومت قبضہ نہیں دلواپائی لیکن محمودآباد کی پراپرٹی پر قبضہ کرنے میں اتنی عجلت دکھانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اسکے پیچھے کوئی بہت گہری سازش ہے۔قوم کے قائد بننے اور زیادہ سے زیادہ اداروں و تنظیموں پر قبضہ کرنے کے شوقین حضرات مسجد شہدرہ اورامام باڑہ سبطین آباد کی صحنچیوںکے بارے میں اپنی پوزیشن کیوں نہیں صاف کر رہے ہیں۔تنظیم علی کانگریس کا واضح موقف ہے کہ غیر ملکی مسائل اور دیگر معاملات سے زیادہ دلچسپی مقامی مسائل کو حل کرنے میں لینا چاہیئے۔شہر اور ریاست کی متعدد مسجدوں پر ناجائز قبضے ہیں مگر شیعہ وقف بورڈ کے ممبران باہمی اختلافات کا محوربن چکا ہے۔ چیرمین اور ممبروں کے بیچ کی سرد اور گرم جنگ اوقاف کی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔نئے نئے ادارے بنا کر سرکار اور ضلع انتظامیہ کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا جا رہاہے ۔قوم ان تمام اوقاف کے حساب و کتاب کا مطالبہ کرتی ہے جو قائدین کے زیر تسلط ہیں اور بد عنوانیوں کا مرکز بن چکے ہیں۔قبروں کی کالا بازاری اور اوقاف کی مسلسل بربادی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اس پر ارباب قوم کو دباو ¿ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔اگر اتنا سب کچھ دیکھنے اورسمجھنے کے باوجود ہم خاموش تماشائی بنے رہے تو پھر روز محشر شہزادی کو کیا منھ دکھائیں گے لہٰذا ہمکو سیرت و تعلیمات امام مظلوم کی پیروی کرتے ہوئے ظلم کے خلاف ہمیشہ صدائے احتجاج بلند کرتے اور اوقاف کی املاک کی حفاظت کی جدوجہد مسلسل کرتے رہنا چاہئے۔
اگر خود ساختہ قیادت کا اتنا ہی اثر ہے تو پھر وہ مسجد شہدرا کی آراضی ،امامباڑہ سبطین آباد کی سہنچیاں،مسجد کشور جہاں،مسجدنورمحل اور نرحئی والی کربلا اب تک واگذار کیوں نہیں ہو سکیں؟
آخر میں تحریک عزاداری و تحریک تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز مرزا جاوید مرتضیٰ و الیسع رضوی طاب ثراہ کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے احد کیا گیا کہ انشااللہ تنظیم علی کانگریس ہمیشہ حق کی آواز بلند کرتی رہےگی اور دعا کی گئی کہ اللہ ہم سبکو تعلیمات اہلبیتؑ کی پیروی کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جاری کردہ : لائق علی
Monday, August 02, 2010
PRESSNOTE OF 1.8.2010
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............ Date25-72010....
قومی و وقفی مسائل پر گہری خاموشی کسی گہری سازش کی طرف اشارہ ہے
امریکہ و اسرائیل قابل مذمت مگر وقف خوروں کی سرپرستی بھی ناقابل برداشت:علی کانگریس
لکھنو1 اگست تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار تجزیاتی میٹنگ میں قوم کے تازہ حالات کا جائزہ لیا گیا۔ علی کانگریس نے ان عناصر کی مذمت کی جو مقامی معالات بالخصوص مساجد،کربلاو ¿ں،امامباڑوں اور قبرستانوں کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں۔تنظیم علی کانگریس کا واضح موقف ہے کہ امریکہ،اسرائیل وغیرہ کی مذمت اسی صورت میں ہونا چاہئے جب ہمارے مقامی و ملکی مسائل کو ھل کرنے میں مبینہ قائدین دلچسپی کا مظاہرہ کریں۔میٹنگ میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل کے خلاف احتجاج اخباری بیان سے بھی کیا جاسکتا ہے مگر قوم کے بیش قیمت اثاثوں کی بربادی سے جان بوجھ کر منھ پھیر لینے کی حرکت کو معاف نہیں کیا جائےگا۔ علی کانگریس نے قوم کو یادد لایا کہ امام باڑہ سبطین آباد، مسجد شہدرہ ،مسجد کشور جہاں، مسجد جعفر حسین و مسجد نور محل کے علاوہ سیکڑوں عبادتگاہوں پر قبضوں کے معاملے میں مبینہ قائدین کی خاموشی اور شیعہ وقف بورڈ کی نا اہلی شخصیات کو مشکوک بناتی ہے۔علی کانگریس نے مولویوںکے اس غول کی مذمت کی جو گمراہ کر تے ہوئے مقامی معاملات کے بجائے امریکہ اور اسرائیل کی باتیں کر رہا ہے۔ علی کانگریس کا قدیمی موقف ہے کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی وجہ مغربی طاقتیں ہیں اور دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی توہین و تضحیک کی بھی ذمہ دار ہیں۔تنظیم نے غیرملکی معاملات میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ اور مقامی مسائل سے جان بوجھ کر چشم پوشی اشارہ کرتی ہے کہ سیاسی لیڈروں سے ساز باز ہو چکی ہے۔علی کانگریس نے سخت الفاط میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پورے اتر پردیش میں اوقاف کی جائداد برباد ہو رہی ہے اور شیعہ وقف بورڈ اور اسکے سرپرست کو مقامی معاملات کے بجائے بیرونی معالات میں دلچسپی ہے۔امریکہ اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کی دہلی میں جنتر منتر پر ناکامی اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ قوم دوہری سیاست کو سمجھنے لگی ہے۔علی کانگریس کا موقف ہے کہ ایک طرف اسرائیل کی مزمت اور احتجاج اور دوسری طرف قائدین کے رشتہ داروںکی اسرائیل یاتراقول و فعل کے تضاد کو واضح کرتی ہے۔علی کانگریس نے مبینہ قائد کے بھائی کی اسرائیل یاترا کے لئے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس گناہ عظیم پر دین و قوم سے معافی مانگی جائے مگر ہوا یہ کہ اس یاترا کے لئے جمعہ کے خطبوں میں صفائی دی گئی۔تنظیم علی کانگریس نے حسین آباد ٹرسٹ کے سیکریٹری اور ضلع انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ مسجد آصفی کی پشت میں حسین آباد ٹرسٹ کی زمین پرتعمیر ہو رہے نئے مندر کو فورََ روکے کیونکہ یہ سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
تنطیم علی کانگریس قوم کو بار بار متنبہ کرتی ہے کہ مولویوں اور سیاسی پارٹیوں میں شیعہ لیڈروں پر دباو ¿ قائم کریں کہ وہ سیاست کے بجائے قومی مسائل کو سلجھانے میں سرگرم ہوں۔ بر سر اقتدار اور دوسری سیاسی پارٹیوں سے ساز باز کے بجائے اللہ، رسول ﷺ و اہلیبیت سے وفاداری کا ثبوت دیں۔دینی و مذہبی مسائل بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور مولویوں کے غول شیعہ کالج اور اسرائیل و امریکہ کے معاملات میں الجھانے کی سازش رچ رہے ہیں۔بے اصولی مولویوں کے گروہ جد و جہد کرنے سے گریز کر رہا ہے اور بربادی کا سبب بن چکا ہے۔قوم اس گہری سازش و ساز باز کو سمجھے اور غور کرے کہ آخر ان خاموشیوں اور نا اہلی کے پس پشت کیا کیا لالچ کار فرما ہے؟
۔ علی کانگریس نے امریکہ کے اس پادری کی سخت الفاظ میں مذمت کی جس نے آئندہ ۱۱ ستمبر کو قران مجید کو نذر آتش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسکو برداشت نہیںکیا جائےگا۔علی کانگریس نے تحریک عزاداری اور تحفظ اوقاف کے دو سپاہیون جناب جاوید مرتضی اور جناب الیسع رضوی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں شخصیتوںنے بہت پہلے سمجھ لیا تھا کہ احتجاجات اور مظاہروں کے تیور اور پہلو تبدیل کئے جا چکے ہیںاور قائدین سیاسی سودے بازیوں کا محور بنتے جا رہے ہیں۔
جاری کردہ لائق علی
Subscribe to:
Posts (Atom)