Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Friday, November 26, 2010

PRESS NOTE OF 21.11.2010

ALI CONGRESS  
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............                                                                                                                                                           Date............ 
            
برائے اشاعت          
اللہ کے انصاف میں دیر ہے اندھیر نہیں ہے : تنظیم علی کانگریس

لکھنو 21 نومبرتنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میںحالات حاضرہ کا جائزہ لےا گیا۔ کہپچھلے اتوار کو جو شیعہ قوم کی رسوائی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کی گئی اسکی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ خود ساختہ قائد نے اپنے اقتدار کی ہوس اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے اپنے بھائی کے ذریعہ جو کم عمر لڑکوں کا استعمال کرتے ہوئے شہر میں ہنگامہ آرائی کرائی اس سے پوری دنیامیں شیعوں کی بڑی ذلت ہوئی اور جب ان نا سمجھ ،بھولے بھالے جذباتی کم عمرلڑکوں پر قانونی کار روائی ہو رہی ہے تو یہ لوگ اپناپلہ جھاڑتے ہوئے انکو پریشانیوںمیں پھنسا کر غریب شیعوں کو یک و تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ خود ساختہ قائد کا بھائی کہیں دبک گیا ہے اور نام نہاد حسینی ٹائگرس کے مٹھی بھر کارکنان اپنے لیڈر کی تلاش کر ہے ہیں مگر وہ کسی خفیہ جگہ بیٹھ کر اپنی کارستانیوں کو انجام دے رہا ہے۔نام نہاد حسینی ٹائگرس کے بعض اراکین کو یہ ڈر ہے کہ خود ساختہ قائد کے گھر والے تو سیاسی چالوں سے اپنے کو بچا لیں گے مگر قوم کے چند کم عمر لڑکے قربانی کا بکرا بنائے جا سکتے ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری املاک کی تباہی و بربادی کے جو منظر ۴۱ نومبر کو پیش کئے گئے ان پر ابھی تک کوئی موثر کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی ہے عام شہریوں کو ڈر ہے کہ فساد برپا کرنے والے کہیں دوبارہ شہر کا امن برباد نہ کردیں۔
مقررین نے نماز جمعہ کے خطبوں کو ذاتی لڑائی کے لئے استعمال کئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ جو باتیں علی کانگریس نے بہت پہلے کہی تھیںوہ آج لوگوں کی سمجھ میں آنے لگی ہیں کہ جمعہ کے خطبے میں مسلسل جھوٹ اور دروغ گوئی کی جا رہی ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب وقف مسجد شاہدرا کی آراضی کے بارے میں،امامباڑہ غفرانماب میں ہو رہی خرد برد و اسپتال کو زمین دئے جانے کے بارے میں،قرق ہوئی مسجدوں کی واگزاری کے سلسلہ میں،وقف رانی سلطنت کے سودے بازی کے بارے میں ِ، وقف امام باڑہ سجادیہ کی زمین کو فروخت کر کے لاکھوں روپیہ کے بارے میں اور شیعہ وقف بورڈ کی بد عنوانیوں پرسوالات کئے جاتے ہیں تو خود ساختہ قیادت مکمل خاموشی اختیار کر لیتی ہے اور سراج مہدی کی بیٹی کے نکاح پڑھائے جانے پر اتنی صفائیاں اور جھوٹی باتیں محراب سے کرکے قوم کو ایک بار پھر فریب دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔مقررین نے کہا کہ اللہ کے انصاف میںدیر ہے اندھیر نہیں ہے ہر ظالم کو سزا ضرور ملتی ہے۔ دوسروں پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر رسواکرنے کی ناکام کوشش کرنے والوں کو اللہ ایک نہ ایک دن ذلیل و رسوا ضرور کرتا ہے۔جو بھی دوسروں کے لئے گڈھا کھود تا ہے وہ ایک دن خود ہی اس گڈھے میں گرتا ہے۔حق کی بالا دستی ہوتی ہے۔مقررین نے عوام سے اپیل کی کہ وہ آپس میں اتحاد اور بھائی چارہ بنائے رکھیں اور کسی مولوی کے بہکاوے میں نہ آئیں۔آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔
جاری کردہ لائق علی

Tuesday, November 02, 2010

BOOK RELEASE "HAYAT-E-JAVED" BY JUSTICE MURTUZA WRITTEN BY RUBINA MURTUZA

ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............                                        Date............
برائے اشاعت

مرزا جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کی سوانح حیات کا رسم اجرا
جسٹس مرتضیٰ حسین نے روبینہ مرتضیٰ کی کتاب جاری کی


لکھنو30 اکتوبر تنظیم علی کانگریس اور تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے رہبر مرزا جاوید مرتضیٰ ایڈوکیٹ کی پہلی برسی کے موقع پر امام باڑہ محمد علی شاہ المعروف چھوٹا امامباڑہ میں مرحوم کی حیات اور دینی و ملی کارناموں پر مبنی کتاب کا رسم اجرا انکے والد جسٹس مرتضیٰ حسین نے کیا۔
تقریب کی شروعات تلاوت کلام پاک سے ہوئی اور جناب راجیش ورما ایڈوکیٹ نے افتتاحی تقریر میں مرحوم کو جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جاوید صاحب ایک مثالی کردار کے مالک تھے جو بھی ان سے ایک بار مل لیتا تھا انسے متاثر ہو جاتا تھا ۔
جاوید مرتضیٰ مرحوم کی بیٹی روبینہ مرتضیٰ کی تحریر کردہ کتاب " حیات جاوید" کے رسم اجرا کے موقع پر تنظیم کے جنرل سیکریٹری حسین عباس ایڈوکیٹ نے کہا کہ عزاداری کی تحریک کے دوران جاوید مرتضیٰ متعدد با ر جیل گئے مگر کبھی قید و بند کی پریشابیوں کے شکوے شکایت کرتے نہیں دیکھے گئے جبکہ نامور علماءنے قید سے رہائی کے بعد جیل کی پریشانیوں کا ذکر تے نہیں تھکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ جاوید مرتضیٰ کی زندگی پیغمبرانہ تھی ۔
تنظیم کے سیکریٹری اصغر مہدی نے کہا کہ جاوید صاحب عزاداری کی تحریکوں کے دوران جب جیل سے انکو کچہری پیشی پر ہتھکڑی لگا کرلائے جانے سے قوم میں شدید غم و غصہ کو دیکھ کر غفرانماب کی مجلس میں مولانا کلب عابد صاحب نے کہا تھا کہ امام زین العابدین کو ہتھکڑی اور بیڑی پہنائی گئی تھی شکر ہے خدا کا کہ جاویدکو بھی مولا کی تاسی کرنے کا موقع ضلع انتظامیہ نے دے دیا۔انہوں نے کہا کہ مرحوم کو انکے انتقال سے قبل بہت ذہنی ازیتیں دی گئیں لیکن انہوں نے ہمیشہ حق بات کہی کبھی دھمکیوں سے نہیں گھبرائے ۔
مشہورشاعر اہلبیتؑ اور خطیب پیام اعظمی صاحب نے کہا کہ آج لوگوں کو دینی شعور عطا جائے ۔جاوید صاحب منبرپر اداکاری کے مخالفت کی کیونکہ منبر کے غلط استعمال سے قوم اور معاشرہ کو ہورہے نقصان کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا۔جاوید مرتضیٰ عالم دین تھے صرف نام کے نہیں۔انکی بیش قیمتی قومی و ملی خدمات وقت کے گزرنے کے ساتھ محسوس کی جائیں گی۔
جسٹس مرتضیٰ نے اپنی مختصر صدارتی تقریر میں کہا کہ جاوید کا کام تھا ذہنو کا صاف رکھنا ۔انکے کاموں کو جاری رکھنا چاہئے۔ روبینہ مرتضیٰ قابل مبارک باد ہیں جنہوں نے اپنے والد کے حالات زندگی قلم بند کئے۔مجھے احساس ہے کہ جاوید کے ساتھیوں کو ان سے کتنی محبت ہے۔
پروگرام میں جناب منصور مرتضیٰ،جناب عباس نگار،جناب صابر علی عمرانی،دہلی سے آئے طاہر نقوی و دیگر معزز شحصیتوں نے خطاب کیا اور نظامت کے فرائض مسعود اظہر نے انجام دئے۔آخر میں مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے صورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی اور تنظیم کے منبرران نے راہ حق پر چلتے رہنے کا عہد کیا۔اختتام دعاءوحدت پر ہوا۔
جاری کردہ لائق علی

STATEMENT OF JAFAR RAZA ADVOCATE AT THE TIME OF FIRST DEATH ANNIVERSARY OF LATE JAVED MURTUZA

ALI LAWYERS ASSOCIATION
501,Arif Ashiyana,Chowk,Lucknow.
President: S.JAFAR RAZA (Advocate)       General Sec.; S.M.HUSAIN RIZVI(advocate)
Ref.No.............                     Date...........
برائے اشاعت

حیات ِجاوید

(جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کی سوانحِ حیات ”حیات جاوید“ کی رسم اجراءپر )
جعفر رضا ایڈوکیٹ
صدر علی لایرس ایسوی ایشن

توحید کے علمبردار، عزاءحسینؑ کے محافظ، پابندِ احترامِ منبر، علمائِ حق کے پاسدار، قوم کے محسن ، غریبوں کے مددگار، علمائِ سو، جھوٹے ذاکروں،بے عمل مولویوں، اوقاف کے لٹیروں اور شیعت کے نام پر سیاست کرنے والوں کی مخالفت کرنے والے قابل و با عمل قاعد جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ جنہوں نے 10-11-2009 کو معبودِ حقیقی کی رحمت کی طرف انتقال کیا اپنی زندگی کے 27 برسوں کا سفر کچھ اس طرح سے راہِ حق میں طے کیا جسے یاد کر کے اس شجاع، سچ کی تفسیر، قلم کے مالک، شریعت کے محافظ ، حافظ حدیث، تاریخ اسلام پر عبور رکھنے والے، قرانی آیات کے فلسفی، با عمل زندگی کے پیکر کی منظم تحریک و تنظیم کی کہانی سے تسکین و تسلّی ملتی ہے۔
دسمبر 1982میں میں جاوید مرتضیٰ صاحب نے تنظیم علی کانگریس کے جنرل سکریٹری کا عہدہ سنبھالتے ہی عزا داری پر پابندی کا ذمہ دار اُس وقت کی ضلع انتظامیہ کو ٹہھرایااور کہا کہ ہماری اصل لڑائی انتظامیہ سے ہے اہل سنّت سے نہیں کیونکہ یہ نا اہل انتظامیہ والے ارام طلب ہیں اور یہ اپنے مُخبروں کے ذریعہ شیعہ سنّی دنگے کراتے ہیں تا کہ law and order کا بہانہ بنا رہے اور محرّم میں دفعہ 144 CRPC لگا کر شیعوں کے آئینی حق(constitutional right) کی پامالی کی جاتی رہے۔ انتظامیہ پر دباو ¿بنانے کے لئے جاوید صاحب نے ایک نئی حکمت عملی کے تحت پیشگی اطلاع کے بغیر مختلف جگہوںاورمحلّوں سے ایک ساتھ احتجاج کرنا شروع کر دیا اور اُن کی ایک آواز پر قوم کے جوان اور بزرگ لبّیک کہتے ہوئے جیل جانے لگے۔ انتظامیہ کے ہاتھ پاو ¿ں پھول گئے ، قوم میں انتظامیہ کے مخبروں کی ساکھ انکے آقاو ¿ں کی نظروں میں گرنے لگ گئی۔ انتظامیہ نے جاوید صاحب کو مختلف لالچ دئے لیکن ہمارے جاوید بھائی صارطِ مستقیم پر مضبوتی سے ڈٹے رہے اور اپنی لائن آف ایکشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اُس دواران کئی سرکاری وظیفہ خوار مولوی بھی جاویڈ بھائی کو احتجاج بند کر دینے کا مشورہ دیتے رہے لیکن مرحوم جلوسہائے عزاءاٹھوا کر ہی دم لینے کا عزم مستحکم کر چکے تھے۔
اُس وقت شیعہ قوم کا کوئی اخبار لکھنو ¿ میں شایع نہیں ہوتا تھا۔آپ نے شیعت کی آوازائیمہئِ طاہرینؑ کی تعلیم کے مطابق عوام تک پہونچانے کے لئے پیامِ نو نکالنا شروع کر دیا۔مرحوم مولانا کلبِ عابد صاحب اخبار پیامِ نو پڑھتے تھے اور جاوید صاحب کی ستائش میں رطب اللسان رہتے تھے۔ کئی بار مولانا موصوف مرحم نے علی کانگریس کو اپنی قوتِ بازو سے تشبیہ دیا۔جاوید مرتضیٰ مرحوم نے عزاداری کی بحالی کی تحریک کے لئے سڑکوں پر جم کے مظاہرے کئے اور جیل جاتے رہے۔ وقت کی انتظامیہ کے وفادار مولویوں، مخبروںاور وقف خوروں نے جا وید مرتضیٰ صاحب کے خلاف مورچے کھول دئے کیونکہ مرحوم ایک طرف عزائِ حسین ؑ کی بحالی کے لئے مظاہرے کر رہے تھے دوسری ہر اتوا ر کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے ایمان متولّیوں کے خلاف ہلہ بول رہے تھے۔بے عمل ، جھوٹے مولوی ،حضرت امام حسینؑ کے نام پر قوم کے ساتھ ٹھگی کر رہے تھے، نماز پڑھانے اور مجلس پڑھنے کی اجرت لے کر اپنے بے دین ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔مرحوم نے نماز و ذکرِ حسینؑ کی اجرت لینے کو ائیمہ ؑ کی تعلیم کے خلاف بتا کر حرام قرار دیا۔انکی تحریروں سے متاثّر ہو کر با شعور، پڑھے لکھے، سنجیدہ افراد اُنسے جڑنے لگے تھے۔
مقصدِ عزاداری کو سمجھانے اور مقصدِ اما م حسینؑ کی تبلیغ کے لئے جاوید بھائی نے 09.10.1986 سے پیامِ نو اخبار میں دین فہمی کے نام سے ایک کالم کی شروعات کی، جس سے پیشہ ور مولویوں اور ذاکروں کے ہوش اُڑ گئے۔ ذکرِ حسین سے پیسہ کما کر عیش کرنے والے مولوی جاوید مرتضیٰ صاحب کے خلاف لام بند ہو گئے اور قوم کو مجلسوں میں جاوید مرتضیٰ صاحب کے خلاف ورغلانے لگے۔ نتیجے میں 1987 میں 20 رمضان کی رات ایک وقف خور غنڈے نے جاوید صاحب پرقاتلانہ حملہ کر دیا۔ مگر جاوید صاحب نے اتقامت کے ساتھ وقف خور بدمعاشوںاور پیشہ ور مولویوںسے مورچہ لیااور کبھی اصلاحی میدان سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس حملے سے جاوید مرتضیٰ کا دینی جذبہی اور عقیدہ اور مستحکم ہو گیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ ”دین کی تبلیغ کرنے اور تعلیماتِ اَیمہ پہونچانے والوں پر ہمیشہ ظلم ہو ¿ے ہیں ہمیں ان مظالم پر صبر کرکے وحدہ ¾ لاشریک کی قربت اور خوشنودی کے لئے حسینیؑ مذہب کی سیرت پر عمل کرنا چاہئے۔“
جب 6-12-1992کو بابری مسجد شہید کر دی گئی امت مسلمہ پُر آشوب دور میں گرفتار تھی، لوگ غمگین اور خوفزدہ تھے، اور پیشہ ور مولوی ڈر کے مارے شتر مرغ کی مانند ریت میں گردنیں چھپائے تھے ایسے ماحول،میں جب دو گھنٹوں کے لئے کرفیو میں ڈھیل دی گئی تو توحید کے علمبردارمردِ آہن جاوید مرتضیٰ صاحب نے 27-12-1992 تمام فرزندانِ توحید کو کلمہ لا لٰہ الّااللہ پر امامباڑہ میر زین العابدین خاں میں اکٹّھا کر لیااور اُسوقت کی حکومت کی پروردہ دہشت گردی کے خلاف ملک میں پہلا پُر امن جمہوری احتجاج وجود میں آیا۔اسکے بعد جاوید صاحب نے ہندوستانی آئن کے معمار بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راو ¿ امبیڈکر جی کی کتاب کے ایک باب کا ہندی ترجمہ اور اسی کے ساتھ اسلام کے متعلق اپنا ایک مظمون ”رام اور اسلام“ کے نام سے شایع کیا۔ انکا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک اس ملک پر حکومت کی مگر اصل دین کی تبلیغ سے غفلت برتی اور یہاں کے طبقاتی نظام میں دلتوں کو جنہیں اسلامی اصطلاح مین” مستضعف“ کہتے ہیں روایتی ظلم اور نابرابری سے چھٹکارا دلانے کے اپنے فریضہ سے غافل رہے۔ اگرمسلمان حکمرانوں نے توحید کی تبلیغ اورتمام بندگان خدا کو برابری کا درجہ دینے کے اپنے فریضہ کو ادا کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔ اُس وقت کی حکومت نے جاوید بھائی پر کافی دباو ¿ بنایا کہ یہ کتاب مارکیٹ میں نہ آنے پا ئے اور انتظامیہ کے حوالے کر دی جائے لیکن جاوید صاحب نے صاف انکار کر دیا۔ حکومت وقت نے جاوید صاحب کو میسا (MISA) میں گرفتار کر لینے اور جیل میں سڑا دینے کی دھمکی د ی مگر انکے میثمی کردار میں کوئی فرق نہ آیا۔ پھرانہوں نے چوبیس جنوری 1993 کو ایک جلسہ بڑے امامباڑہ میں فسادات کے مقتولین کے ایصالِ ثواب کے عنوان سے کیا جس میں قران کریم کے سورہ ¿ رعد کی سترہویں آیت کے مطابق عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے آپ کو تمام انسانیت کے لئے مفید ثابت کرنے کی تعلیم دی اور ساتھ ہی ایک سہ نکاتی فارمولا پیش کیا جسکا پہلا نکتہ اتحاد بین المسلمین، دوسرا ہندو مسلم منافرت نہ پھلنے دینا، اور تیسرا توحید کی تبلیغ اور شرک و بت پرستی کی مخالفت تھا۔انکا کہنا تھا کہ نظریہ توحید صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب میں توحید کے پرستار موجود ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم توحید کا پیغام عام کرنے کے لئے ان سب سے اشتراک کریں۔بعد میں اسی دعوتِ فکر پر مبنی ایک مضمون انہوں نے اس وقت کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان مسٹر مرلی منوہر جوشی جی کو بھی لکھا اور دلت وائس بنگلور کے ایڈیٹر مسٹر راج شیکر کو لکھنو ¿ مدعو کرکے چھوٹے امامباڑہ کے ٹرسٹی ہال میں ایک سیمینار کیا جسکا عنوان تھا ” اسلام اور مستضعفین“۔
1993 کے محرم میں جو کہ جون مہینہ میں پڑنے کی وجہ سے سمر وکیشن میں پڑا تھا انہوں نے ہائی کورٹ میں جسٹس تلہری کی عدالت ایک رِٹ پٹیشن داخل کی ۔ جسٹس تلہری کی بنچ ہی دسمبر 1992 میں ایودھیا میں رام للا وراجمان کے درشن کی اجازت دے چکی تھی۔ جاوید صاحب نے عدالت میں اپنی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جب ایودھیا میں کرفیو کے دوران درشن کے لئے آرڈر پاس ہو سکتے ہیں تو لکھنو ¿ میں شیعوں کے تاریخی مذہبی جلوسوں کے انکے آئینی حق کے لئے آرڈر پاس ہونے چاہئے۔ ہائی کورٹ نے اس دلیل کی بنیاد پر رِٹ الاو ¿(allow)کر دی اور کلیکٹر کو ڈائرکشن دیا کہ شیعہ سنّی فریقوں کو بلا کر معاملات طے کرا دئے جائں۔ سنّی لیڈروں نے جلوسِ مدح صحابہ کی معاملہ اُٹھایا جس پر جاوید صاحب نے ڈی ایم سے کہا کہ آپ ہائی کورٹ کے احکام کی توہین کر رہے ہیں اور انتظامیہ کے خلاف contempt writ فائل کر دی۔ اسکے خلاف جاوید صاحب مستقل ہائی کورٹ اور ڈی ایم کے کورٹ مین دفعہ 144CRPC کے خلاف لڑتے رہے جسِ سے سرکار پریشان ہو گئی اور مجبوراً جلوس نکلوانے پڑے۔
تاریخ بشر اس بات کی گواہ ہے کہ جب کوئی ریفارمر اپنے دور کی برائیوں کو روکنے اور دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس دور کے حکمراں اور فرضی مذہبی ٹھیکےدار، با اقتدار لوگ اور نا واقف ہجوم اسے چین سے جینے نہیں دیتا۔ لوگ اس سے جڑنے نہ پائں اس غرض سے اس ریفارمر پر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں۔ ا ی ¿مہ طاہرینؑ اہلیبت اطہارؑ کو بھی انہی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اسی شہر میں میر انیس کو بھی یہی شکوہ تھاکہ
برگشتہ زمانہ ہے مد د کیجئے مولا
نا قدروں کے احساں سے بچا لیجئے مولا
علّامہ اقبال کو ایسی ہی ذہنیت والوں نے کافر و مشرک کہااور سر سید کو بھی۔ جسٹس سید کرامت حسین صاحب کو بھی کافر و مشرک کہا اور امامباڑہ میں دفن نہیں ہونے دیا۔
شیعہ قوم کو رحیم و کریم خالقِ کائنات نے بطور جاوید مرتضیٰ ایک نعمت عطا کی تھی،جسے قوم کے جاہل بے دین بے عمل پیشہ ور ٹھیکہ داروں نے فراموش کر کے اسکی نا قدری کی۔ اور انہیں ذہنی اور جسمانی اذیتیں پہونچائں۔ اللہ نے اس نعمت انکی ناقدری کی وجہ سے واپس اپنی آغوشِ رحمت میں بلا لیا۔اللہ کا فلسفہ یہی ہے کہ جب اسکی دی ہوئی نعمت کا لوگ کفران کرتے ہیں تب وہ نعمت واپس لے لیتا ہے۔
جاری کردہ ذاکر حسین

MAJLIS-E-DESA OF LATE JAVED MUTUZA

زمین میں باقی رہنے کے لئے انسانوں کے لئے سود مند ہونا ضروری:
جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کی مجلس دیسہ کا پیغام


آج بعد مغربیں تحریک عزاداری و تحریک تحفظ اوقاف کے علم بردارجاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کی پہلی برسی کی مجلس کو خطاب کرتے ہوئے علی کانگریس کے نائب صدر مسعود اظہر رضوی نے کہا کہ اگر زمین میں باقی رہنا ہے تو قوم کو انسانوں کے لئے مفید ہونا پڑے گا کیونکہ قران نے سورہ رعد کی سترہویں آیت میں حق و باطل کا فرق بتاتے ہوئے یہی اصول مرتب کیا ہے۔ حق کی مثال مفید پانی کی ہے اور باطل کی مثال اس جھاگ کی جو اس پر بظاہر وقتی طور پر غالب دکھائی دیتا ہے مگر بالآخر خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور حق باقی رہ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ قران کے مطابق انسانوں کے لئے فائدہ مند کیا ہے اور ایسا کرنے پرسورہ اعلیٰ کی نویں آیت تابارہویں آیت اور سورہ ذاریات کی پچپنویں آیت سے ہدایت ملے گی جس میں واضح کر دیا گیا کہ فائدہ پہونچانے کا ذریعہ تذکیر اور نصیحت ہے لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قوم کے زمین میں باقی رہ جانے کے لئے ضروری ہے اگر یہ نہ ہوا تو قوم جھاگ کے ساتھ فنا ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تذکیر کے لئے اللہ تعالیٰ نے قران کو آسان کر دیا ہے اور اس بات کو سورہ قمر میں چار بار دہرائا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ آپ مصور سے تو محبت جتائیں مگر اسکی تصویر کو بگاڑیں لہٰذا مسلمان پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ خلق خدا سے محبت کرے اور اسکی حفاظت کی خاطر کوئی بھی قربانی دےنے سے گریز نہ کرے جیسا کربلا کے شہیدوںؑنے کر دکھایا۔ یہی اصول بتاتا ہے کہ اسلام میں جہد لالبقاstruggle for existenceکے نتیجے میں survival of the fittestکے بجائے survival of the beneficial کا اصول مانا جاتا ہے اور اسی بات کی تبلیغ جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ اپنی حیات میں کرتے رہے۔مصائب اہلبیتؑ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ سے راہ حق پر چلتے رہنے کی دعا کی۔
مجلس چھوٹے امامباڑے میں جاوید صاحب کے والد عزت مآب جسٹس مرتضیٰ حسین صاحب نے منعقد کی تھی اور اس میں بہت سارے معززین شہر کے علاوہ تنظیم علی کانگریس، دخترانِ زینبی، یوتھ علی کانگریس، اور علی لائرس اسوسی ایشن کے ممبران کے علاوہ کثیر تعداد میں مومنین نے شرکت کی۔
کل ۱۳ اکتوبر کو اسی وقت اسی جگہ جاوید صاحب کی صاحبزادی روبینہ جاوید مرتضیٰ کی کتاب حیات جاوید کی رسم اجراء انشاللہ جسٹس مرتضیٰ حسین صاحب کے ہاتھوں انجام پائے گی۔ اور علی کانگریس اور اُسکی ہمنوا تنظیمیں حمایت حق اور مخالفت باطل کے اپنے عہد کی تجدید کریں گی۔
جاری کردہ روبینہ جاوید مرتضیٰ