ALI LAWYERS ASSOCIATION
501,Arif Ashiyana,Chowk,Lucknow.
President: S.JAFAR RAZA (Advocate) General Sec.; S.M.HUSAIN RIZVI(advocate)
Ref.No............. Date...........
برائے اشاعت
حیات ِجاوید
(جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کی سوانحِ حیات ”حیات جاوید“ کی رسم اجراءپر )
جعفر رضا ایڈوکیٹ
صدر علی لایرس ایسوی ایشن
501,Arif Ashiyana,Chowk,Lucknow.
President: S.JAFAR RAZA (Advocate) General Sec.; S.M.HUSAIN RIZVI(advocate)
Ref.No.............
برائے اشاعت
حیات ِجاوید
(جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کی سوانحِ حیات ”حیات جاوید“ کی رسم اجراءپر )
جعفر رضا ایڈوکیٹ
صدر علی لایرس ایسوی ایشن
توحید کے علمبردار، عزاءحسینؑ کے محافظ، پابندِ احترامِ منبر، علمائِ حق کے پاسدار، قوم کے محسن ، غریبوں کے مددگار، علمائِ سو، جھوٹے ذاکروں،بے عمل مولویوں، اوقاف کے لٹیروں اور شیعت کے نام پر سیاست کرنے والوں کی مخالفت کرنے والے قابل و با عمل قاعد جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ جنہوں نے 10-11-2009 کو معبودِ حقیقی کی رحمت کی طرف انتقال کیا اپنی زندگی کے 27 برسوں کا سفر کچھ اس طرح سے راہِ حق میں طے کیا جسے یاد کر کے اس شجاع، سچ کی تفسیر، قلم کے مالک، شریعت کے محافظ ، حافظ حدیث، تاریخ اسلام پر عبور رکھنے والے، قرانی آیات کے فلسفی، با عمل زندگی کے پیکر کی منظم تحریک و تنظیم کی کہانی سے تسکین و تسلّی ملتی ہے۔
دسمبر 1982میں میں جاوید مرتضیٰ صاحب نے تنظیم علی کانگریس کے جنرل سکریٹری کا عہدہ سنبھالتے ہی عزا داری پر پابندی کا ذمہ دار اُس وقت کی ضلع انتظامیہ کو ٹہھرایااور کہا کہ ہماری اصل لڑائی انتظامیہ سے ہے اہل سنّت سے نہیں کیونکہ یہ نا اہل انتظامیہ والے ارام طلب ہیں اور یہ اپنے مُخبروں کے ذریعہ شیعہ سنّی دنگے کراتے ہیں تا کہ law and order کا بہانہ بنا رہے اور محرّم میں دفعہ 144 CRPC لگا کر شیعوں کے آئینی حق(constitutional right) کی پامالی کی جاتی رہے۔ انتظامیہ پر دباو ¿بنانے کے لئے جاوید صاحب نے ایک نئی حکمت عملی کے تحت پیشگی اطلاع کے بغیر مختلف جگہوںاورمحلّوں سے ایک ساتھ احتجاج کرنا شروع کر دیا اور اُن کی ایک آواز پر قوم کے جوان اور بزرگ لبّیک کہتے ہوئے جیل جانے لگے۔ انتظامیہ کے ہاتھ پاو ¿ں پھول گئے ، قوم میں انتظامیہ کے مخبروں کی ساکھ انکے آقاو ¿ں کی نظروں میں گرنے لگ گئی۔ انتظامیہ نے جاوید صاحب کو مختلف لالچ دئے لیکن ہمارے جاوید بھائی صارطِ مستقیم پر مضبوتی سے ڈٹے رہے اور اپنی لائن آف ایکشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اُس دواران کئی سرکاری وظیفہ خوار مولوی بھی جاویڈ بھائی کو احتجاج بند کر دینے کا مشورہ دیتے رہے لیکن مرحوم جلوسہائے عزاءاٹھوا کر ہی دم لینے کا عزم مستحکم کر چکے تھے۔
اُس وقت شیعہ قوم کا کوئی اخبار لکھنو ¿ میں شایع نہیں ہوتا تھا۔آپ نے شیعت کی آوازائیمہئِ طاہرینؑ کی تعلیم کے مطابق عوام تک پہونچانے کے لئے پیامِ نو نکالنا شروع کر دیا۔مرحوم مولانا کلبِ عابد صاحب اخبار پیامِ نو پڑھتے تھے اور جاوید صاحب کی ستائش میں رطب اللسان رہتے تھے۔ کئی بار مولانا موصوف مرحم نے علی کانگریس کو اپنی قوتِ بازو سے تشبیہ دیا۔جاوید مرتضیٰ مرحوم نے عزاداری کی بحالی کی تحریک کے لئے سڑکوں پر جم کے مظاہرے کئے اور جیل جاتے رہے۔ وقت کی انتظامیہ کے وفادار مولویوں، مخبروںاور وقف خوروں نے جا وید مرتضیٰ صاحب کے خلاف مورچے کھول دئے کیونکہ مرحوم ایک طرف عزائِ حسین ؑ کی بحالی کے لئے مظاہرے کر رہے تھے دوسری ہر اتوا ر کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے ایمان متولّیوں کے خلاف ہلہ بول رہے تھے۔بے عمل ، جھوٹے مولوی ،حضرت امام حسینؑ کے نام پر قوم کے ساتھ ٹھگی کر رہے تھے، نماز پڑھانے اور مجلس پڑھنے کی اجرت لے کر اپنے بے دین ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔مرحوم نے نماز و ذکرِ حسینؑ کی اجرت لینے کو ائیمہ ؑ کی تعلیم کے خلاف بتا کر حرام قرار دیا۔انکی تحریروں سے متاثّر ہو کر با شعور، پڑھے لکھے، سنجیدہ افراد اُنسے جڑنے لگے تھے۔
مقصدِ عزاداری کو سمجھانے اور مقصدِ اما م حسینؑ کی تبلیغ کے لئے جاوید بھائی نے 09.10.1986 سے پیامِ نو اخبار میں دین فہمی کے نام سے ایک کالم کی شروعات کی، جس سے پیشہ ور مولویوں اور ذاکروں کے ہوش اُڑ گئے۔ ذکرِ حسین سے پیسہ کما کر عیش کرنے والے مولوی جاوید مرتضیٰ صاحب کے خلاف لام بند ہو گئے اور قوم کو مجلسوں میں جاوید مرتضیٰ صاحب کے خلاف ورغلانے لگے۔ نتیجے میں 1987 میں 20 رمضان کی رات ایک وقف خور غنڈے نے جاوید صاحب پرقاتلانہ حملہ کر دیا۔ مگر جاوید صاحب نے اتقامت کے ساتھ وقف خور بدمعاشوںاور پیشہ ور مولویوںسے مورچہ لیااور کبھی اصلاحی میدان سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس حملے سے جاوید مرتضیٰ کا دینی جذبہی اور عقیدہ اور مستحکم ہو گیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ ”دین کی تبلیغ کرنے اور تعلیماتِ اَیمہ پہونچانے والوں پر ہمیشہ ظلم ہو ¿ے ہیں ہمیں ان مظالم پر صبر کرکے وحدہ ¾ لاشریک کی قربت اور خوشنودی کے لئے حسینیؑ مذہب کی سیرت پر عمل کرنا چاہئے۔“
جب 6-12-1992کو بابری مسجد شہید کر دی گئی امت مسلمہ پُر آشوب دور میں گرفتار تھی، لوگ غمگین اور خوفزدہ تھے، اور پیشہ ور مولوی ڈر کے مارے شتر مرغ کی مانند ریت میں گردنیں چھپائے تھے ایسے ماحول،میں جب دو گھنٹوں کے لئے کرفیو میں ڈھیل دی گئی تو توحید کے علمبردارمردِ آہن جاوید مرتضیٰ صاحب نے 27-12-1992 تمام فرزندانِ توحید کو کلمہ لا لٰہ الّااللہ پر امامباڑہ میر زین العابدین خاں میں اکٹّھا کر لیااور اُسوقت کی حکومت کی پروردہ دہشت گردی کے خلاف ملک میں پہلا پُر امن جمہوری احتجاج وجود میں آیا۔اسکے بعد جاوید صاحب نے ہندوستانی آئن کے معمار بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راو ¿ امبیڈکر جی کی کتاب کے ایک باب کا ہندی ترجمہ اور اسی کے ساتھ اسلام کے متعلق اپنا ایک مظمون ”رام اور اسلام“ کے نام سے شایع کیا۔ انکا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک اس ملک پر حکومت کی مگر اصل دین کی تبلیغ سے غفلت برتی اور یہاں کے طبقاتی نظام میں دلتوں کو جنہیں اسلامی اصطلاح مین” مستضعف“ کہتے ہیں روایتی ظلم اور نابرابری سے چھٹکارا دلانے کے اپنے فریضہ سے غافل رہے۔ اگرمسلمان حکمرانوں نے توحید کی تبلیغ اورتمام بندگان خدا کو برابری کا درجہ دینے کے اپنے فریضہ کو ادا کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔ اُس وقت کی حکومت نے جاوید بھائی پر کافی دباو ¿ بنایا کہ یہ کتاب مارکیٹ میں نہ آنے پا ئے اور انتظامیہ کے حوالے کر دی جائے لیکن جاوید صاحب نے صاف انکار کر دیا۔ حکومت وقت نے جاوید صاحب کو میسا (MISA) میں گرفتار کر لینے اور جیل میں سڑا دینے کی دھمکی د ی مگر انکے میثمی کردار میں کوئی فرق نہ آیا۔ پھرانہوں نے چوبیس جنوری 1993 کو ایک جلسہ بڑے امامباڑہ میں فسادات کے مقتولین کے ایصالِ ثواب کے عنوان سے کیا جس میں قران کریم کے سورہ ¿ رعد کی سترہویں آیت کے مطابق عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے آپ کو تمام انسانیت کے لئے مفید ثابت کرنے کی تعلیم دی اور ساتھ ہی ایک سہ نکاتی فارمولا پیش کیا جسکا پہلا نکتہ اتحاد بین المسلمین، دوسرا ہندو مسلم منافرت نہ پھلنے دینا، اور تیسرا توحید کی تبلیغ اور شرک و بت پرستی کی مخالفت تھا۔انکا کہنا تھا کہ نظریہ توحید صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب میں توحید کے پرستار موجود ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم توحید کا پیغام عام کرنے کے لئے ان سب سے اشتراک کریں۔بعد میں اسی دعوتِ فکر پر مبنی ایک مضمون انہوں نے اس وقت کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان مسٹر مرلی منوہر جوشی جی کو بھی لکھا اور دلت وائس بنگلور کے ایڈیٹر مسٹر راج شیکر کو لکھنو ¿ مدعو کرکے چھوٹے امامباڑہ کے ٹرسٹی ہال میں ایک سیمینار کیا جسکا عنوان تھا ” اسلام اور مستضعفین“۔
1993 کے محرم میں جو کہ جون مہینہ میں پڑنے کی وجہ سے سمر وکیشن میں پڑا تھا انہوں نے ہائی کورٹ میں جسٹس تلہری کی عدالت ایک رِٹ پٹیشن داخل کی ۔ جسٹس تلہری کی بنچ ہی دسمبر 1992 میں ایودھیا میں رام للا وراجمان کے درشن کی اجازت دے چکی تھی۔ جاوید صاحب نے عدالت میں اپنی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جب ایودھیا میں کرفیو کے دوران درشن کے لئے آرڈر پاس ہو سکتے ہیں تو لکھنو ¿ میں شیعوں کے تاریخی مذہبی جلوسوں کے انکے آئینی حق کے لئے آرڈر پاس ہونے چاہئے۔ ہائی کورٹ نے اس دلیل کی بنیاد پر رِٹ الاو ¿(allow)کر دی اور کلیکٹر کو ڈائرکشن دیا کہ شیعہ سنّی فریقوں کو بلا کر معاملات طے کرا دئے جائں۔ سنّی لیڈروں نے جلوسِ مدح صحابہ کی معاملہ اُٹھایا جس پر جاوید صاحب نے ڈی ایم سے کہا کہ آپ ہائی کورٹ کے احکام کی توہین کر رہے ہیں اور انتظامیہ کے خلاف contempt writ فائل کر دی۔ اسکے خلاف جاوید صاحب مستقل ہائی کورٹ اور ڈی ایم کے کورٹ مین دفعہ 144CRPC کے خلاف لڑتے رہے جسِ سے سرکار پریشان ہو گئی اور مجبوراً جلوس نکلوانے پڑے۔
تاریخ بشر اس بات کی گواہ ہے کہ جب کوئی ریفارمر اپنے دور کی برائیوں کو روکنے اور دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس دور کے حکمراں اور فرضی مذہبی ٹھیکےدار، با اقتدار لوگ اور نا واقف ہجوم اسے چین سے جینے نہیں دیتا۔ لوگ اس سے جڑنے نہ پائں اس غرض سے اس ریفارمر پر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں۔ ا ی ¿مہ طاہرینؑ اہلیبت اطہارؑ کو بھی انہی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اسی شہر میں میر انیس کو بھی یہی شکوہ تھاکہ
برگشتہ زمانہ ہے مد د کیجئے مولا
نا قدروں کے احساں سے بچا لیجئے مولا
علّامہ اقبال کو ایسی ہی ذہنیت والوں نے کافر و مشرک کہااور سر سید کو بھی۔ جسٹس سید کرامت حسین صاحب کو بھی کافر و مشرک کہا اور امامباڑہ میں دفن نہیں ہونے دیا۔
شیعہ قوم کو رحیم و کریم خالقِ کائنات نے بطور جاوید مرتضیٰ ایک نعمت عطا کی تھی،جسے قوم کے جاہل بے دین بے عمل پیشہ ور ٹھیکہ داروں نے فراموش کر کے اسکی نا قدری کی۔ اور انہیں ذہنی اور جسمانی اذیتیں پہونچائں۔ اللہ نے اس نعمت انکی ناقدری کی وجہ سے واپس اپنی آغوشِ رحمت میں بلا لیا۔اللہ کا فلسفہ یہی ہے کہ جب اسکی دی ہوئی نعمت کا لوگ کفران کرتے ہیں تب وہ نعمت واپس لے لیتا ہے۔
جاری کردہ ذاکر حسین
دسمبر 1982میں میں جاوید مرتضیٰ صاحب نے تنظیم علی کانگریس کے جنرل سکریٹری کا عہدہ سنبھالتے ہی عزا داری پر پابندی کا ذمہ دار اُس وقت کی ضلع انتظامیہ کو ٹہھرایااور کہا کہ ہماری اصل لڑائی انتظامیہ سے ہے اہل سنّت سے نہیں کیونکہ یہ نا اہل انتظامیہ والے ارام طلب ہیں اور یہ اپنے مُخبروں کے ذریعہ شیعہ سنّی دنگے کراتے ہیں تا کہ law and order کا بہانہ بنا رہے اور محرّم میں دفعہ 144 CRPC لگا کر شیعوں کے آئینی حق(constitutional right) کی پامالی کی جاتی رہے۔ انتظامیہ پر دباو ¿بنانے کے لئے جاوید صاحب نے ایک نئی حکمت عملی کے تحت پیشگی اطلاع کے بغیر مختلف جگہوںاورمحلّوں سے ایک ساتھ احتجاج کرنا شروع کر دیا اور اُن کی ایک آواز پر قوم کے جوان اور بزرگ لبّیک کہتے ہوئے جیل جانے لگے۔ انتظامیہ کے ہاتھ پاو ¿ں پھول گئے ، قوم میں انتظامیہ کے مخبروں کی ساکھ انکے آقاو ¿ں کی نظروں میں گرنے لگ گئی۔ انتظامیہ نے جاوید صاحب کو مختلف لالچ دئے لیکن ہمارے جاوید بھائی صارطِ مستقیم پر مضبوتی سے ڈٹے رہے اور اپنی لائن آف ایکشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اُس دواران کئی سرکاری وظیفہ خوار مولوی بھی جاویڈ بھائی کو احتجاج بند کر دینے کا مشورہ دیتے رہے لیکن مرحوم جلوسہائے عزاءاٹھوا کر ہی دم لینے کا عزم مستحکم کر چکے تھے۔
اُس وقت شیعہ قوم کا کوئی اخبار لکھنو ¿ میں شایع نہیں ہوتا تھا۔آپ نے شیعت کی آوازائیمہئِ طاہرینؑ کی تعلیم کے مطابق عوام تک پہونچانے کے لئے پیامِ نو نکالنا شروع کر دیا۔مرحوم مولانا کلبِ عابد صاحب اخبار پیامِ نو پڑھتے تھے اور جاوید صاحب کی ستائش میں رطب اللسان رہتے تھے۔ کئی بار مولانا موصوف مرحم نے علی کانگریس کو اپنی قوتِ بازو سے تشبیہ دیا۔جاوید مرتضیٰ مرحوم نے عزاداری کی بحالی کی تحریک کے لئے سڑکوں پر جم کے مظاہرے کئے اور جیل جاتے رہے۔ وقت کی انتظامیہ کے وفادار مولویوں، مخبروںاور وقف خوروں نے جا وید مرتضیٰ صاحب کے خلاف مورچے کھول دئے کیونکہ مرحوم ایک طرف عزائِ حسین ؑ کی بحالی کے لئے مظاہرے کر رہے تھے دوسری ہر اتوا ر کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے ایمان متولّیوں کے خلاف ہلہ بول رہے تھے۔بے عمل ، جھوٹے مولوی ،حضرت امام حسینؑ کے نام پر قوم کے ساتھ ٹھگی کر رہے تھے، نماز پڑھانے اور مجلس پڑھنے کی اجرت لے کر اپنے بے دین ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔مرحوم نے نماز و ذکرِ حسینؑ کی اجرت لینے کو ائیمہ ؑ کی تعلیم کے خلاف بتا کر حرام قرار دیا۔انکی تحریروں سے متاثّر ہو کر با شعور، پڑھے لکھے، سنجیدہ افراد اُنسے جڑنے لگے تھے۔
مقصدِ عزاداری کو سمجھانے اور مقصدِ اما م حسینؑ کی تبلیغ کے لئے جاوید بھائی نے 09.10.1986 سے پیامِ نو اخبار میں دین فہمی کے نام سے ایک کالم کی شروعات کی، جس سے پیشہ ور مولویوں اور ذاکروں کے ہوش اُڑ گئے۔ ذکرِ حسین سے پیسہ کما کر عیش کرنے والے مولوی جاوید مرتضیٰ صاحب کے خلاف لام بند ہو گئے اور قوم کو مجلسوں میں جاوید مرتضیٰ صاحب کے خلاف ورغلانے لگے۔ نتیجے میں 1987 میں 20 رمضان کی رات ایک وقف خور غنڈے نے جاوید صاحب پرقاتلانہ حملہ کر دیا۔ مگر جاوید صاحب نے اتقامت کے ساتھ وقف خور بدمعاشوںاور پیشہ ور مولویوںسے مورچہ لیااور کبھی اصلاحی میدان سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس حملے سے جاوید مرتضیٰ کا دینی جذبہی اور عقیدہ اور مستحکم ہو گیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ ”دین کی تبلیغ کرنے اور تعلیماتِ اَیمہ پہونچانے والوں پر ہمیشہ ظلم ہو ¿ے ہیں ہمیں ان مظالم پر صبر کرکے وحدہ ¾ لاشریک کی قربت اور خوشنودی کے لئے حسینیؑ مذہب کی سیرت پر عمل کرنا چاہئے۔“
جب 6-12-1992کو بابری مسجد شہید کر دی گئی امت مسلمہ پُر آشوب دور میں گرفتار تھی، لوگ غمگین اور خوفزدہ تھے، اور پیشہ ور مولوی ڈر کے مارے شتر مرغ کی مانند ریت میں گردنیں چھپائے تھے ایسے ماحول،میں جب دو گھنٹوں کے لئے کرفیو میں ڈھیل دی گئی تو توحید کے علمبردارمردِ آہن جاوید مرتضیٰ صاحب نے 27-12-1992 تمام فرزندانِ توحید کو کلمہ لا لٰہ الّااللہ پر امامباڑہ میر زین العابدین خاں میں اکٹّھا کر لیااور اُسوقت کی حکومت کی پروردہ دہشت گردی کے خلاف ملک میں پہلا پُر امن جمہوری احتجاج وجود میں آیا۔اسکے بعد جاوید صاحب نے ہندوستانی آئن کے معمار بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راو ¿ امبیڈکر جی کی کتاب کے ایک باب کا ہندی ترجمہ اور اسی کے ساتھ اسلام کے متعلق اپنا ایک مظمون ”رام اور اسلام“ کے نام سے شایع کیا۔ انکا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک اس ملک پر حکومت کی مگر اصل دین کی تبلیغ سے غفلت برتی اور یہاں کے طبقاتی نظام میں دلتوں کو جنہیں اسلامی اصطلاح مین” مستضعف“ کہتے ہیں روایتی ظلم اور نابرابری سے چھٹکارا دلانے کے اپنے فریضہ سے غافل رہے۔ اگرمسلمان حکمرانوں نے توحید کی تبلیغ اورتمام بندگان خدا کو برابری کا درجہ دینے کے اپنے فریضہ کو ادا کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔ اُس وقت کی حکومت نے جاوید بھائی پر کافی دباو ¿ بنایا کہ یہ کتاب مارکیٹ میں نہ آنے پا ئے اور انتظامیہ کے حوالے کر دی جائے لیکن جاوید صاحب نے صاف انکار کر دیا۔ حکومت وقت نے جاوید صاحب کو میسا (MISA) میں گرفتار کر لینے اور جیل میں سڑا دینے کی دھمکی د ی مگر انکے میثمی کردار میں کوئی فرق نہ آیا۔ پھرانہوں نے چوبیس جنوری 1993 کو ایک جلسہ بڑے امامباڑہ میں فسادات کے مقتولین کے ایصالِ ثواب کے عنوان سے کیا جس میں قران کریم کے سورہ ¿ رعد کی سترہویں آیت کے مطابق عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے آپ کو تمام انسانیت کے لئے مفید ثابت کرنے کی تعلیم دی اور ساتھ ہی ایک سہ نکاتی فارمولا پیش کیا جسکا پہلا نکتہ اتحاد بین المسلمین، دوسرا ہندو مسلم منافرت نہ پھلنے دینا، اور تیسرا توحید کی تبلیغ اور شرک و بت پرستی کی مخالفت تھا۔انکا کہنا تھا کہ نظریہ توحید صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب میں توحید کے پرستار موجود ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم توحید کا پیغام عام کرنے کے لئے ان سب سے اشتراک کریں۔بعد میں اسی دعوتِ فکر پر مبنی ایک مضمون انہوں نے اس وقت کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان مسٹر مرلی منوہر جوشی جی کو بھی لکھا اور دلت وائس بنگلور کے ایڈیٹر مسٹر راج شیکر کو لکھنو ¿ مدعو کرکے چھوٹے امامباڑہ کے ٹرسٹی ہال میں ایک سیمینار کیا جسکا عنوان تھا ” اسلام اور مستضعفین“۔
1993 کے محرم میں جو کہ جون مہینہ میں پڑنے کی وجہ سے سمر وکیشن میں پڑا تھا انہوں نے ہائی کورٹ میں جسٹس تلہری کی عدالت ایک رِٹ پٹیشن داخل کی ۔ جسٹس تلہری کی بنچ ہی دسمبر 1992 میں ایودھیا میں رام للا وراجمان کے درشن کی اجازت دے چکی تھی۔ جاوید صاحب نے عدالت میں اپنی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جب ایودھیا میں کرفیو کے دوران درشن کے لئے آرڈر پاس ہو سکتے ہیں تو لکھنو ¿ میں شیعوں کے تاریخی مذہبی جلوسوں کے انکے آئینی حق کے لئے آرڈر پاس ہونے چاہئے۔ ہائی کورٹ نے اس دلیل کی بنیاد پر رِٹ الاو ¿(allow)کر دی اور کلیکٹر کو ڈائرکشن دیا کہ شیعہ سنّی فریقوں کو بلا کر معاملات طے کرا دئے جائں۔ سنّی لیڈروں نے جلوسِ مدح صحابہ کی معاملہ اُٹھایا جس پر جاوید صاحب نے ڈی ایم سے کہا کہ آپ ہائی کورٹ کے احکام کی توہین کر رہے ہیں اور انتظامیہ کے خلاف contempt writ فائل کر دی۔ اسکے خلاف جاوید صاحب مستقل ہائی کورٹ اور ڈی ایم کے کورٹ مین دفعہ 144CRPC کے خلاف لڑتے رہے جسِ سے سرکار پریشان ہو گئی اور مجبوراً جلوس نکلوانے پڑے۔
تاریخ بشر اس بات کی گواہ ہے کہ جب کوئی ریفارمر اپنے دور کی برائیوں کو روکنے اور دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس دور کے حکمراں اور فرضی مذہبی ٹھیکےدار، با اقتدار لوگ اور نا واقف ہجوم اسے چین سے جینے نہیں دیتا۔ لوگ اس سے جڑنے نہ پائں اس غرض سے اس ریفارمر پر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں۔ ا ی ¿مہ طاہرینؑ اہلیبت اطہارؑ کو بھی انہی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اسی شہر میں میر انیس کو بھی یہی شکوہ تھاکہ
برگشتہ زمانہ ہے مد د کیجئے مولا
نا قدروں کے احساں سے بچا لیجئے مولا
علّامہ اقبال کو ایسی ہی ذہنیت والوں نے کافر و مشرک کہااور سر سید کو بھی۔ جسٹس سید کرامت حسین صاحب کو بھی کافر و مشرک کہا اور امامباڑہ میں دفن نہیں ہونے دیا۔
شیعہ قوم کو رحیم و کریم خالقِ کائنات نے بطور جاوید مرتضیٰ ایک نعمت عطا کی تھی،جسے قوم کے جاہل بے دین بے عمل پیشہ ور ٹھیکہ داروں نے فراموش کر کے اسکی نا قدری کی۔ اور انہیں ذہنی اور جسمانی اذیتیں پہونچائں۔ اللہ نے اس نعمت انکی ناقدری کی وجہ سے واپس اپنی آغوشِ رحمت میں بلا لیا۔اللہ کا فلسفہ یہی ہے کہ جب اسکی دی ہوئی نعمت کا لوگ کفران کرتے ہیں تب وہ نعمت واپس لے لیتا ہے۔
جاری کردہ ذاکر حسین
No comments:
Post a Comment