خطبہءصدارت
(۳۱ جون ۹۰۰۲ ئ کو چھوٹے امامباڑہ ، حسین آباد، لکھنو ¿ میں منعقدہ جلسہ ’پیام جہاد و انقلاب‘ میں الحاج جاوید مرتضیٰ صاحب ایدوکیٹ کے خطبہءصدارت کا متن)
حاضرین کرام
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
یہ جلسہ پیام جہاد و انقلاب کے عنوان سے منعقد کیا گیا ہے، اور آپ حضرات کو تشریف آوری کی زحمت دی گئی ہے۔ جو حضرات لکھنو ¿ کے ہیں انکو یاد ہو گا کہ علی کانگرس کی جانب سے ۳۹۹۱ئ میں ہم لوگوں نے ایک جلسہ’ جلسہ تسلیت ‘کے نام سے بڑے امامباڑہ میں منعقد کیا تھا ورنہ عام طور پر ہم لوگ جلسے اور اس طرح کی محفلوں کا انعقاد بہت کم کرتے ہیں اور اپنی بات ہم لوگ تحریری طور پر ہی زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن حالات کے لحاظ سے کبھی ضرورت پڑ جاتی ہے کہ افراد ملت تک جلسہ کے ذریعہ اپنی بات کو پہنچایا جائے اور یہ بہت کچھ حالات اور واقعات پر منحصر ہوتا ہے۔
آج کے اس دور میں امت مسلمہ کے حالات پر غور کیا جائے اور بالخصوص اس ملک ہندوستان میں کہ جہاں مسلمانوں کا وجود سینکڑوں برس پرانا ہے لیکن اس کے باوجود بھی مسلمان اپنی تمام دینی درسگاہوں اور بڑی تعداد میں گزرے ہوئے جید علماءکے باوجود یہاں کی سماجی زندگی پر خاطر خواہ اثرانداز نہیں ہوئے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ جتنے فرقے اور گروہ بندیاں مسلمانوں میں ہندوستان میں پائی جاتی ہیں اتنی شائید کسی اور ملک میں نہیں پائی جاتیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس بات کا تجزیہ کریں کہ کیا کمیاں اور کیا زیادتیاں ہیں اور کیسے حالات میں بہتری لا سکتے ہیں۔ تو اس کے لی ¿ے جتنا کہ ہم نے غور کیا اور جو بات ہم کہتے رہے ہیں وہ یہ ہے کہ دین کے بارے میں ہمارا کیا تصور ہے۔ اگر تصور درست ہے ، فکر درست ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ اچھے اعمال کی شکل میں ظاہر ہو گا۔ اور جب نیک اعمالی اختیار کی جائے گی تو اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ہمارے شامل حال ہوں گی۔ لیکن اس کے مقابلہ میں ہمارا تجزیہ بتائے کہ ہماری ملت میں وہ تمام عیوب اور برای ¿یاںموجود ہیں کہ جن کی باقاعدہ مذمت قرآن کریم میں کی گئی ہے اور جب ہم یہ پائیں کہ مسلمان یہاں پر بجائے باعزت زندگی گزارنے کے ذلیل و خوار ہو رہا ہے اور اپنے کو کمزور و ناتواں محسوس کر رہا ہے تو ہم کو سمجھنا چاہی ¿ے کہ کہیں پر بنیادی غلطی ہوئی ہے۔
ہم لوگوں نے اس بات کا تجزیہ کیا اور پہلے بھی بہت کچھ کہتے رہے ہیں۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ آپ حضرات ان باتوں کو گوش گزار کریں اور پھر ان باتوں کو اپنے حلقہءاثر میں آگے بڑھائیں۔
اس میں پہلی بات یہ ہے کہ ہم سب رسول اللہ (ص) کے کلمہ گو ہیں اور ہمارے لی ¿ے قرآن کی نصیحت ہی یہ ہے کہ تمہارے لی ¿ے رسول اللہ کی سیرت میں بہترین اسوہ ہے۔ ہم کو غور کرناچاہی ¿ے کہ جس دین کی انہوں نے تبلیغ کی تھی جو دین انہوں نے اپنی حیات طیبہ میں پہنچایا تھا اس کی کیا خصوصیات ہیں اور کیا وہ باتیںآج ہمارے درمیان پائی جاتی ہیں کہ نہیں۔ یہ بنیادی چیز ہے۔ میں آپ کے سامنے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رسول اللہ نے جو دین پیش کیاوہ بعض رسومات کا مجموعہ نہیں تھا۔بلکہ اس کے ساتھ سماجی ذمہ داری کا احساس جڑا ہوا تھا۔ اگر دین سماجی حالات میں بہتری لانے والا ہے تو وہ دین ہے۔اگر وہ لوگوں کے سوچنے کے طریقہ پر اثر انداز ہوتا ہے انکے عمل کوبہتری اور صحیح سمت عطا کرتا ہے تو وہ دین ہے۔۔۔۔۔۔
لیکن رسول نے جو دین پیش کیا اس کے سلسلے میں کچھ تاریخ سے واقعات آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ جو حضرات بھی چاہیں تاریخ کی کسی کتاب سے ان کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ جب رسول اللہ چالیس برس کے سن میں مبعوث بہ رسالت ہوئے تو آپ نے دین کا پیغام پہنچانا شروع کیا۔ مکہ میں آپ کا قیام تھا۔ تو مکہ کے سماج نے آپ کے پیغام کو قبول نہیں کیا۔ اس کا انکار کیا۔ آپ کو تکلیفیں دی گئیں۔ آپ کے ساتھیوں کو اذئیتیں دی گئیں۔ یہاں تک کہ تقریباً ۳۱ برس کے مکی دور میں آپ کو سکون و چین سے نہیں بیٹھنے دیا گیا۔ اور آپ کو اس بات کی ضرورت لاحق ہوئی کہ کوئی دوسرا مستقر، کوئی دوسرا ہیڈکوارٹر ، کوئی دوسری جگہ ایسی مل جائے کہ جہاں حفاظت کو ساتھ امن کے ساتھ اپنے پیغام کو جاری رکھ سکیں۔ کیونکہ مکہ میں پیغام کو عملاً پہنچانا ممکن نہیں رہا تھا۔ اسی تگ و دو اور کوشش میں بعثت یعنی نبوت کے گیارہویں سال آپ کی ملاقات ندینہ کے چھ افراد سے ہوتی ہے اور آپ ان کے سامنے دین کے پیغام کو پیش کرتے ہیں اور وہ لوگ اس کو قبول کرتے ہیں۔ اگلے سال جو بعثت (یعنی چالیس سال پر پہلی وحی آئی ہے) کے بارہویں سال حج کے موقع پر آپ کے پاس جو پہلے چھ افراد تھے اب کی بارہ افراد آتے ہیں اور ان سے قول و قرار ہوتا ہے۔ اس کو بیعت کہتے ہیں۔۔ بیعت عقبہ اولیٰ۔
میں ان شرائط کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:
(۱) ہم خدائے واحد کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں بنائیں گے۔
(۲) ہم چوری اور زناکاری کے پاس نہ پھٹکیں گے۔
(۳) اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے۔
(۴) کسی پر جھوٹی تہمت نہیںلگائیںگے۔
(۵) چغل خوری نہیں کریں گے۔ اور
(۶) ہر اچھی بات میں بنی کی اطاعت کریں گے۔
یہ چھ شرطیں ہیں جن پر ان بارہ مدنی مسلمانوں سے بیعت ہوئی۔ اب ان باتوں کو آپ دیکھئے۔ پہلی چیز خدائے واحد کی پرستش کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ یعنی توحید کا اقرار ہے اور شرک و بت پرستی کی ہر قسم کا انکار ہے۔ اسی طرح ایک شرط یہ ہے کہ لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے۔ وہاں لڑکیوں کا پیدا ہونا برا مانا جاتا تھا۔ آج ہمارے سماج میں بھی لڑکی کا پیدا ہونا برا سمجھا جاتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس زمانہ میں سائنس نے ترقی نہیں کی تھی۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ پنجاب اور دوسرے صوبے ایسے ہیں کہ جہاں ٹسٹ کرا کر اگر معلوم ہوتا ہے کہ بچیّ ہے تو حمل ساقط کرا دیا جاتا ہے ۔ ایسا اسقاط اتنا کرایا گیا ہے کہ وہاں اب عورتوں کی تعداد مردوں سے بہت کم ہو گئی ہے۔ چوری اور زناکاری کے خلاف اقرار ہے۔ اس کے بعد تہمت لگانے کی بات ہے۔ ہمارے سماج میں یہ عام ہے لیکن اس پر بھی بیعت ہوئی ہے۔ چغل خوری ۔۔ یہاں کی بات وہاں لگانا، وہاں کی بات یہاں لگانا، یہ آج ہمارے سماج میں عام بات ہے۔ لیکن اس کے خلاف بیعت کی گئی ہے۔
اب اسکے اگلے سال جو تیرہواں سال ہے بعثت کا اس سال حج کے موقع پر مدینہ سے ۲۷ یا ۳۷ مرد اور ۲ عورتیں یعنی ۵۷ افراد آتے ہیں ۔اور رات کی تاریکی میں رسول اللہ سے ملنا طے ہوتا ہے۔ رسول اللہ رات کی تاریکی میں ان سے ملنے جاتے ہیں۔ جب آپ چلے تو آپ کے چچا عباس ابن عبدالمطلب بھی ساتھ ہو لئے۔ یہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے لیکن کیونکہ خاندان کے بزرگ تھے لہٰذا خاندانی قرابت کے لحاظ سے اور رسول اللہ کی حفاظت کے خیال سے ساتھ ہو لئے۔ مقام عقبہ پر رسول اللہ کی ملاقات ان لوگوں سے ہوئی۔جب مدینہ والوں نے رسول اللہ سے فرمائش کی کہ آ پ ہمارے ساتھ مدینہ چلیں۔ اس پر عباس ابن عبد المطلب نے تقریر کی اور کہا ” مدینہ والو! محمد اپنے خاندان میں ہیں۔ ان کا خاندان ان کی حفاظت کرتا ہے۔ تم ان کو اپنے یہاں لے جانا چاہتے ہو۔ یہ یاد رکھو تم کو ان کی حفاظت کرنا پڑے گی۔ ان کی حفاظت کوئی آسان کام نہیں۔ اگر تم عظیم الشان اور خوں ریز لڑائیوں کے لئے تیار ہو تو بہتر ہے ورنہ محمد کے لے جانے کا نام نہ لو“۔مدینہ کے افراد میں سے براءابن معرورنے کہا : عباس ! ہم نے تمہاری بات سن لی۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی خود اپنی زبان سے کچھ فرمائیں۔
چنانچہ رسول اللہ نے تقریر فرمائی اور قرآن مجید کی آیات پڑھ کر سنائیں۔ آپ کی تقریر میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کا بیان تھا۔ آپ نے اُن ذمہ داریوں کو بھی بیان فرمایا جو مدینہ میں آپ کے لے جانے سے مدینہ والوں پر عائد ہوتی تھیں۔
براءبن معرور نے تمام باتیں سننے کے بعد کہا ہم سب باتوںکے لئے تیار ہیں۔ ابو الہیشم بن التیہان نے کہا : ” آپ یہ تو وعدہ کریں کہ ہم کو چھوڑ کر واپس تو نہیں آجائیںگے۔ آنحضرت نے فرمایا : نہیں میرا جینا اور مرنا تمہارے ہی ساتھ ہوگا۔
عبد اللہ بن رواحہ بولے: ”یا رسول اللہ! ہم کو اس کے بدلہ میں کیا ملے گا؟“۔
آپ تصور کیجیے کہ اس قت رسول اللہ کے لیئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہ گیا تھا، مال و دولت بھی ان کے پاس نہیں تھا، اور پوچھنے والا ان سے پوچھ رہا تھا: ”یا رسول اللہ! ہم کو اس کے معاوضہ میں کیا ملے گا؟“
آپﷺ نے فرمایا :”جنت اور خدائے تعالیٰ کی رضامندی“۔
عبد اللہ نے کہا :”بس سودا ہو چکا۔ اب نہ آپ اپنے قول سے پھریں، نہ ہم پھریں گے۔ © µ
یہاں پر عرض کر دوں کہ عبداللہ ابن رواحہ اپنے قول پر ثابت قدم رہے تھے اور جنگ موتہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔
اس کے بعد سب نے بیعت کی۔ یہ بیعت پچھلے چھ اقرار کے علاوہ مردوں کے لئے مندرجہ ذیل چار نئے اقرار پر مشتمل تھی:
(۱) خوشی اور غم، آرام و تکلیف، ہر حال میں نبی کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے جنگ کریں گے۔
(۲) ہم کسی پر ظلم نہیں کریں گے۔
(۳) ہم ہمیشہ سچ بولیں گے۔
(۴) اللہ کی راہ میں ہم کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے۔
یہاں پر یہ عرض کر دوں کہ یہ چار اقرار صرف مردوں کے لیئے تھے اور عورتوں کے لیئے پچھلے چھ اقرار ہی تھے۔ اسی لیئے پہلی بیعت عقبہ کی چھ شرطوں کو بیعت النساءبھی کہتے ہیں۔
جب بیعت ہو چکی تو اسعد بن زرارہ نے سب کو مخاطب کرکے کہا کہ لوگو ! آگاہ رہو کہ اس قول و قرار کا یہ مطلب ہے کہ ہم ساری دنیا کے مقابلہ کے لئے تیار ہیں۔
سب نے ایک زبان ہو کر کہا ہاں، ہم خوب جانتے ہیں کہ ہم کو ساری دنیا کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔
یعنی یہ بیعت کرنے والے اور کلمہ پڑھنے والے اچھی طرح سے سمجھ رہے ہیں کہ ہم انقلاب لانے کے لیئے وعدہ کر رہے ہیں ۔ سماج کو باطل سے حق کی طرف پلٹانے کے لیئے قول و قرار کر رہے ہیں۔ان کو پتہ ہے کہ ان کو تمام باطل طاقتوں سے لڑناہو گا۔ ان کو اپنی ذمہ داری معلوم ہے لیکن آج ہم اپنی ذمہ داری سے غافل ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جب دین سماجی ذمہ داری سے جڑتا ہے تب دین حق بنتا ہے۔
یہ گفتگو ہجرت سے پہلے کی ہے کہ جب نہ مسلمانوں کی کوئی حکومت قائم ہوئی تھی اور نہ ہی ان کو کسی قسم کی افرادی یا فوجی طاقت حاصل ہوئی تھی۔ مگر یہ چند لوگ اس بات سے واقف ہو گئے تھے کہ وہ جس پیغام کے حامل ہیں اس کا تعلق ساری دنیا سے ہے اور دنیا کی سبھی باطل طاقتوں سے انکو لڑنا پڑے گا۔
بیعت عقبہ کی یہ شرای ¿ط ایک اہم دستاویز ہیں اور ۸ ھ میں فتح مکہ کے موقع پر بھی انہی چھ شرطوں پر عورتوں سے اور دس شرطوں پر مردوں سے بیعت ہوئی۔
ایک اور اہم دستاویز رسول اللہ کا آخری حج کا خطبہ ہے جو آپﷺ نے ۹ ذی الحجہ کو میدان عرفات میں دیا۔ اس کو مورخین نے سولہ پیراگراف میں ترتیب دیا ہے۔ ملاحظہ ہو:
خطبہ حجتہ ا لوداع
۱۔ ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور ہم اسی کی حمد کرتے ہیں۔ اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ اسی سے معافی مانگتے ہیں۔ اسی کے سامنے توبہ کرتے ہیں اور ہم اسی کے پاس اپنے نفس کی برائیوںاور اعمال کی خرابیوں سے پناہ طلب کرتے ہیں۔ جسے اللہ ہدای ¿ت دے اسے کوئی بھٹکا نہیں سکتا اور جسے اللہ گمرہی میں چھوڑ دے اسے کوئی راہ نہیں دکھا سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ۔ اس کا کوئی شریک نہیںاور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کا بندہ اور رسول ہے۔
۲۔ اے اللہ کے بندو، میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید کرتا اور اسکی اطاعت پر مضبوطی سے قای ¿م ہونے کی نصیحت کرتا ہوں۔ میں اسی بات سے ابتداءکرتا ہوں جو سراسر بھلائی ہے۔
۳۔ اے لوگو سنو، میں تمہیں بتاتا ہوں کہ شای ¿د اس سال کے بعد اس جگہ تم سے پھر نہ مل سکوں۔
۴۔ لوگو، تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروو ¿یںتمہارے لیے ایک دوسرے پر قیامت تک کے لیے حرام ہیں اور ایسے ہی حرام و محترم جیسے تمہارا یہ آج کا دن، یہ مہینہ اور یہ شہر حرمت والا ہے۔ اے لوگو گواہی دو کہ کیا میں نے تمہیں پیغام پہنچا دیا۔ (لوگوں کی آوازیں آی ¿یں تو پھر آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر فرمایا، اے اللہ تو بھی گواہ رہنا)۔
۵۔ لوگو، جس کے پاس کوئی امانت ہو تو اس کو ادا کرے جس نے اس کے پاس وہ امانت رکھوائی ہو۔
۶۔ خبردار، سود حرام ہے ا ور جاہلیت کا سود ختم کیا جاتا ہے البتہ تمہارے لیے راس المال پر حق ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جاے۔ اللہ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ کوی ¿ سود نہ رہنے پاے اور پہلا سود جس کے ساقط کرنے سے میں اس کی ابتداءکرتا ہوں وہ میرے اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔
۷۔ خبردار، جاہلیّت کے خون ختم کیے جاتے ہیں اور پہلا خون جس سے میں اسے ساقط کرنے کی ابتداءکرتا ہوںوہ میرے چچازاد بھائی کے بیٹے عامر بن ربیع بن الحارث بن عبدالمطلب کا خون ہے۔
۸۔ خبردار جاہلیت کے تمام آثار و مناصب ساقط کیے جاتے ہیں بجز خانہ کعبہ کی رکھوالی اور حجاج کو پانی پلانے کے۔
۹۔ قتل عمد پر قصاص ہے، مشابہ عمد وہ ہے جس میں لٹھ اور پتھر سے موت واقع ہو۔ اس میں سو اونٹ خون بہا ہیںجو اس میں زیادتی کا مطالبہ کرے وہ جاہلیت والا ہے۔
۰۱۔ اے لوگو، شیطان اس سے تو مایوس ہو گیا ہے کہ اب تمہاری اس سرزمین میں اس کی پوجا ہولیکن وہ اس پر راضی ہے کیہ اس کے سوا دیگر
ایسی باتوں میں اس کی اطاعت کی جاے جن کو تم اپنے اعمال میں حقیر سمجھتے ہو۔ اس لیے اپنے دین کے متعلق اس (شیطان) سے محتاط رہو۔
۱۱۔ لوگو سال کے حرام مہینوں میں ادل بدل کفر میں ایک زیادتی ہے۔ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ حرام کردہ چیز کو حلال کرتے ہیں۔ آج زمانہ چکر لگا کر پھر اسی صورت میں آ گیا ہے جیسا کہ خدا کے زمینوں آسمانوں کو پیدا کرنے کا دن تھا۔ سال کے بارہ مہینے ہیں اور ان میں ذیقعدہ، ذی الحجہ ، محرم، اور رجب حرام مہینے ہیں۔
۲۱۔ اے لوگو تمہاری عورتوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر کو کسی اور سے نہ روندوائیںاور تمہارے گھروں میں تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو داخل نہ ہونے دیںجن کو تم ناپسند کرتے ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم ان پر سختی کر سکتے ہو۔ اگر وہ اطاعت کریں تو ان کو دستور کے مطابق اچھا کھلاو ¿ اور پہناو ¿۔ میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کی تاکید کرتا ہوں۔ ان کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔
۳۱۔ لوگو، تمام مومن بھائی بھائی ہیں۔ کسی شخص کے لیے اپنے بھائی کا مال حلال نہیں ہے بجز اس کے کہ وہ اس کی خوشی سے لے۔
۱۔ لوگو، میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ میں نے تم میں ایک ایسی چیز چھوڑی ہے کہ اگر تم اسے تھامے رہوگے تو گمراہ نہ ہو گےاور وہ ہے اللہ کی کتاب۔
۵۱۔ لوگو، تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے۔ تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ جاہلیت کی عصبیتیں آج میرے پاو ¿ں کے نیچے ہیں۔ تم میں اللہ کے نزدیک مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو، کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے سواے تقویٰ کے۔
۶۱۔ اے لوگو، اللہ نے ہر وارث کے لیے ورثے میں حصہ مقرر کر دیا ہے۔ اب کسی اور وصیت کی ضرورت نہیں بجز ایک تہائی کے۔ بچہ بستر کے مالک کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ جو شخص اپنے باپ کے سوا کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے یا اپنے مولا کے سوا کسی اور کو اپنا مولا بنائے تو اللہ اور اس کے فرشتوں کی اس پر لعنت ہے۔ اس سے کوئی خرچ اور کوئی بدلہ قبول نہیں ہو گا۔
اس خطبہ پر اگر غور و فکر کی جائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ رسول اللہ نے جو باتیں بیان کیں وہ ان مسای ¿ل سے بالکل الگ ہیں کہ جو آج کل دین کے نام پر چھیڑے جاتے ہیں۔ بلکہ درحقیقت خطبہ کے مندرجات مسلمانوں کو انکی سماجی ذمہ داریوں سے آگاہ کرنے والے ہیں۔
ایک اور تاریخی واقعہ مسلمانوں کی ایران کی فتح سے متعلق ہے جو ۷۱ ھ کا ہے۔ رسول اللہ کی آنکھ بند ہو چکی تھی۔عرب میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہو چکی ہے اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔ خلافت دوی ¿م کا زمانہ ہے اور مسلمانوں کا مقابلہ ایرانی شہنشاہیت سے ہے۔ قاد سیہ کے مقام پر دونوں فوجیں آمنے سامنے ہوئیں ۔ایرانیوں کا سپہ سالار رُستم فرخ زاد تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ جنگ ٹل جائے۔ مسلمانوں کے ایک دستہ کی قیادت زہرہ بن عبد اللہ کے ہا تھ میں تھی۔
رستم نے ایک شب زہرہ بن عبداللہ کو اپنے پاس بلایا اور صلح کی پیش کش کی۔ یعنی مسلمان کچھ روپئے لے لیں اور واپس چلے جائیں۔ رستم نے پچھلے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا : ”تم لوگ ہمارے پڑوسی تھے، ہم نے تمہارے ساتھ نیکیاں کیں، تم لوگ ہمارے انعامات سے مستفید ہوتے تھے، اگر کبھی کسی سے تمہیں کوئی خطرہ لاحق ہوتا تو ہم نے تمہاری حمایت کی اور بچایا، اس بات کی تاریخ گواہ ہے“۔
زہرہ بن عبد اللہ نے جواب دیا : ” تم نے ماضی کی جو باتیں بیان کیں وہ سب صحیح لیکن تمہیں یہ حقیقت سمجھنی چاہئے کہ جو کل تھا وہ آج نہیں ہے۔ ہم ویسے نہیں رہ گئے کہ مادیات اور دنیا کی لالچ میں رہیں۔ ہمارا مقصد اب دنیا نہیں آخرت ہے۔ ہم پہلے ویسے ہی تھے جیسا کہ تم نے کہا۔ لیکن اس وقت جب خدانے اپنے پیغمبر کو ہمارے درمیان مبعوث کیا، اس نے ہمیں خدائے یکتا کی طرف دعوت دی اور ہم نے اس کے دین کو قبول کیا۔ خدا نے اپنے پیغمبر کی طرف وحی فرمائی کہ اگر تیرے پیرو اس بات پر ثابت قدم رہے جو ہم نے تم پر وحی کی ہے تو ہم انہیں تمام اقوام و مذاہب پر تسلط بخشیںگے۔ جو اس دین سے متمسّک ہوگا عزت پائے گا اور جو اس کی مخالفت کرے گا ذلیل و رسوا ہوگا۔
رستم نے زہرہ سے دین اسلام کی وضاحت کرنے کو کہا تو زہرہ نے جواب دیا : ” اس دین کی بنیاد دو چیزیں ہیں۔ خدا کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گواہی اور یہ کہ جو کچھ
محمد نے کہا وہ خدا کی طرف سے ہے۔
رستم : اس میںتو کوئی حرج نہیں ! اچھی بات ہے اور کیا ؟ زہرہ: اپنے جیسے انسانوں کی بندگی سے بندگانِ خدا کو آزاد کرنا۔ رستم: یہ بھی اچھی بات ہے اور کیا ؟
زہرہ: تمام انسان ایک ماں باپ سے پیدا ہوئے ہیں، سب فرزندِ آدم و حوا ہیں، اس بناءپر سب ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں۔رستم: یہ بھی بہت اچھی بات ہے ۔ اگر ہم ان چیزوں کو قبول کر لیں تو کیا تم واپس چلے جاﺅگے۔ زہرہ: ہاں، خدا کی قسم ۔ ہم دوبارہ تمہاری سر زمین پر قدم نہ رکھیں گے علاوہ تجارت اور ایسے ہی کاموں کے لئے۔ ہم نے جو کچھ کہا اس کے علاوہ ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے۔ رستم: صحیح کہتے ہو۔ لیکن ایک رکاوٹ ہے۔ اردشیر کے زمانے سے ہم ایرانیوں کے یہاں ایک رسم چلی آ رہی ہے جو تمہارے دین سے میل نہیں کھاتی۔ اس زمانے سے یہ رسم رائج ہے کہ پست طبقے جیسے کا شتکار اور مزدور، انہیں اس بات کا حق نہیں ہے کہ اپنے کاموں کو چھوڑ کر کوئی دوسرا کام کر سکیں۔ اگر پست طبقے یا ان کی اولاد کو اس بات کا حق دے دیا جائے کہ وہ اپنے کام کو تبدیل کر کے طبقے میں تغیر کر لیں اور اشراف کی صف میں آجائیں تو وہ اپنے پیر پھیلاتے جائیںگے اور طبقات عالیہ اور شرفاءکے ساتھ مقابلے کےلئے اُٹھیںگے۔ پس بہتر یہی ہے کہ ایک کسان کا بیٹا یہ جان لے کہ اس کو کاشتکارہی ہونا چاہئے، لوہار کے بیٹے کو لوہار ہی ہونا چاہئے، اس کے علاوہ دوسرے کام کا حق نہیں رکھتا اور اسی طرح سب کو۔۔۔
زہرہ نے رستم کی بات کو کاٹ کر کہا : ” لیکن ہم انسانوں کے لئے تمام لوگوں سے بہتر ہیں۔ ہم تم جیسے نہیںہو سکتے کہ اپنے درمیان اس طرح کی طبقہ بندی کے قائل ہوں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ امر خدا کی اطاعت انہیں پست طبقوں میں کریں، جیسا کہ ہم نے کہا، ہمارے عقیدے کی بناءپر تمام لوگ ایک ماں باپ سے پیدا ہوئے ہیںا ور سب کے سب برابر اور آپس میں بھائی ہیں۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ اپنے فریضہ کے بموجب دوسروں سے نیک سلوک کریں۔ اگر ہم اپنے فریضہ کے مطابق عمل کریںگے تو ان لوگوں کا اپنے فریضہ پر عمل نہ کرنا ہمیں نقصان نہیں پہنچا ئے گا۔ اپنے و ظیفہ پر عمل کرنا انسان کو تحفظ دیتا ہے۔
زہرہ بن عبد اللہ نے یہ باتیں کہیں اور چلے گئے۔
مسلم اور ایرانی فوجوں میں جنگ سے پہلے ایک دفعہ پھر صلح کی گفتگو ہوئی۔ اس دفعہ ربعی بن عامر سفیر بن کر گئے۔
رستم نے سوال کیا: آپ لوگ کیوں یہاں آئے ہیں ؟
ربعی بن عامر نے جواب دیا : خدانے ہمیں بھیجا ہے اور اس بات پر مامور کیا ہے کہ اس کے بندوں کو سختی اور بدبختی سے رہائی دیں اور وہ لوگ جو ظلم اور ستم کا شکار ہیں انہیں نجات دے کر عدل اسلامی کے سایہ میں لے آئیں اور ہم دینِ خدا کو جوان بنیادوں پر ہے، تمام اقوام اور مذاہب کے سامنے پیش کریںگے۔ اگر قبول کر لیا تو اس دین کے سایہ میں خوش و خرم رہ کر سعادت مندانہ زندگی گذاریں گے اور ہمیں ان سے کوئی سروکار نہ ہوگا، اور اگر قبول نہ کیا تو ہم ان سے جنگ کریں گے۔ اس وقت یا ہم قتل ہو کر بہشت میں جائیںگے یا دشمن پر غالب آئیں گے۔ رستم: بہت خوب، تمہاری بات سمجھ میں آگئی، ہمیں کچھ مہلت دے سکتے ہو کہ ہم غور و فکر کر سکیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ ربعی بن عامر اس میں کیا حرج ہے۔ کتنے دنوں کی مہلت چاہئے؟، ایک دن یا دو دن ؟رستم: ایک دو دن کافی نہیں ہیں۔ ہمیں اپنے بزرگوں اور روﺅساءکو خط لکھنے ہیں اور وہ مدتوں آپس میںمشورہ کریں گے تاکہ کسی نتیجہ تک پہنچا جا سکے۔
ربعی نے جو ان لوگوں کا مقصد سمجھ گئے تھے کہ وقت ٹالنا چاہتے ہیں کہا ۔ ہمارے پیغمبروں کی سنت اور رہبروں کے عمل کے مطابق ایسے مواقع پر تین روز سے زیادہ تاخیر کرنا جائز نہیں۔ میں تین دن کی مہلت دیتا ہوں کہ ان تین چیزوں میں سے ایک کا انتخاب کرو۔ یا اسلام لے آﺅ، اس صورت میں ہم جس راستہ سے آئے ہیں وہیں واپس لوٹ جائیں گے تمہاری سر زمین تمام نعمتوں کے ساتھ تمہاری ہے، ہمیں تمہاری زمین یا مال و دولت کی لالچ نہیں۔ یا جزیہ دینا قبول کرو۔ یا جنگ کے لئے آمادہ ہو جاﺅ۔
ربعی کی اس پُر اعتماد گفتگو سے حیرت زدہ ہو کر رستم نے کہا۔ معلوم ہوتا ہے کہ تم ہی سپہ سالار ہو جو ہم سے اقرار لے رہے ہو۔ ربعی نے کہا۔ نہیں، میں ایک عام آدمی ہوں۔ لیکن مسلمان جو ایک جسم کے اعضاءہیں سب ایک جیسے ہیں۔ اگر ان میں کا چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی کسی کو امان دے تو ایسا ہے جیسے سب نے امان دی ہو۔ سب ایک دوسرے کے امان اور عہد و پیمان کا احترام کرتے ہیں۔ اس گفتگو سے رستم بہت متاثر ہوا مگر ایرانی سرداروں نے جنگ کرنا اختیار کیا۔ نتیجہ میں ان کو ایسی شکست ہوئی جسے تاریخ بھُلا نہ سکی۔
ایرانیوں نے اسلامی مساوات کا اُصول ٹھکرا دیا تھا جبکہ مسلمان طبقاتی نظام کو ظلم اور نا انصافی قرار دے رہے تھے۔ آج ایران ایک اسلامی ملک ہے ۔اس کے مقابلہ میں ہندوستان میں الٹا عمل ہوا۔ بجائے اس کے کہ مسلمان یہاں کے طبقاتی نطام کو مٹاتے یہاں خود مسلمانوں نے اپنے میں طبقہ بندی اختیار کر لی۔ اور جو میں نے رسول اللہ (ص) کے آخری حج کے خطبہ کی بات پیش کی تھی کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ آج جاہلیت کی تمام عصبیتیں میرے پیروں کے نیچے ہیںاور معیار فضیلت صرف تقویٰ ہے، لیکن بجائے اس کے یہاں کے مسلمان برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔سیّد اور غیر سیّد کی تفریق ہے۔ برادریاں ہیں۔ اور اس بنیاد پر اونچ نیچ کا معیار اپنا لیا گیا نہ کہ مساوات کے اسلامی معیارکو اپپنا لیا گیا نہ کہ اسلامی معیار۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی سماجی ذمہ داری نہیں نباہی گئی ۔ ورنہ آپ سمجھ لیں کہ ایران کے بعد ہندوستان میں اسلام کے آنے میں بہت دیر نہیں لگی تھی۔ رسول اللہ (ص) کی آنکھ بند ہونے کے سو سال کے اندر سندھ میں مسلمانوں کی حکومت قای ¿م ہو گئی تھی۔ لیکن یہاں مسلمانوں نے اپنے دین کو سماجی ذمہ داری سے
رسول اللہ نے مکہ میں خانہءکعبہ کے بتوں کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ اگر وہ آج لکھنو ¿ میں آئیں توان کا کیا ردّ عمل ہو گا؟ سنت رسول اللہ کے یہ معنیٰ ہیں کہ رسول اللہ نے کیسے کوئی عمل کیا۔ ہم لوگ سنت رسول اللہ کے یہ معنیٰ لیتے ہیں کہ رسول اللہ کیسے سرمہ لگاتے تھے، کیسے نماز پڑھتے تھے، یا اور دوسرے امور انجام دیتے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سنت رسول اللہ کے اصل معنیٰ رسول اللہ کا طریقہ ہے، اور وہ طریقہ آج کے ہمارے سماجی پس منظرمیں (relevant ) ہوناچاہئے۔ یعنی مثال کے طور پر آج اگر رسول اللہ (ص) تشریف لائیں تو وہ کس جماعت میں شامل ہوں گے؟مسلمانوں میں ان گنت فرقے اور ہر فرقہ والے کا اپنے کو حق پر اور دوسرے کو باطل قرار دینا۔ یعنی دین بجائے اتّحاد کے تفرقہ بڑھانے کے لیئے آیا تھا۔ ظاہر ہے کہ رسول اللہ ہر فرقہ سے ٓطہار برائت کریں گے۔
ہم کو چاہئے کہ بجائے اس کے کہ دوسرے فرقہ کے عقای ¿د و نظریات کو تولیں ہمکو اپنے عقای ¿د و نظریات کو پرکھنا چاہیئے۔ دیکھیئے میں اس کے لیئے مثال پیش کرتا ہوں۔ مان لیجیئے میں کھیتی باڑی کرتا ہوں اور میرے کھیت کے برابر طاہر صاحب کا کھیت ہے۔ میں نے کوئی فصل بوئی اور انہوں نے بھی کوئی فصل بوئی۔ آپ جانتے ہیں کہ فصل بونے سے پہلے زمین گوڑی جاتی ہے اور صفائی کی جاتی ہے، پھر بیج دالا جاتا ہے۔ فصل کے ساتھ کچھ کانٹے اور فالتو گھاس وغیرہ ، غیر ضروری چیزیں اّگ آتی ہیں۔ جو سمجھدار کسان ہے وہ نِرائی کر کے اس فالتو گھاس وغیرہ کوالگ کر دیتا ہے۔ اب میں بجائے اس کے کہ اپنے کھیت کی نِرائی وغیرہ کرنے کے ، میں طاہر صاحب سے مخاطب ہوں اور ان کے اوپر نکتہ چینی کرتا رہوں کہ انہوں نے اپنا کھیت صحیح ڈھنگ سے تیُار نہیں کیا، یا یہ کہ وہ صحیح ڈھنگ سے سنچائی یا نِرائی نہیں کر رہے ہیں، مگر اس درمیان میں خود اپنے کھیت کو بھولا رہوں تو نتیجہ کیا ہو گا؟
چنانچہ ہم پاتے ہیں کہ بیعت عقبہ کے موقع پر رسول اللہ نے جن شرائط پر بیعت کی تھی ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ کسی پر تہمت نہیں لگائیںگے لیکن افسوس آج رسول اللہ کے منبر پر بیٹھ کر تہمت لگائی جاتی ہے۔ یہ تو ہوئی مقرر کی بات اب سامعین کی کیا ذمہ داری ہے ؟ اس سلسلہ میں سورہ ¿ نساءکی ۰۴۱ ویں آیت میں ارشاد ہوا : ”جب تم یہ دیکھو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور انکا مضحکہ اُڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ نہ بیٹھو یہاں تک کہ وہ کسی اور موضوع پر گفتگو کرنے لگیں ورنہ تم انہیں کے ایسے ہو جاﺅگے۔ بیشک اللہ تمام منافقین اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔“اسی مضمون کی تکرار سورہ ¿ مائدہ کی ۸۶ ویں آیت میں ہوئی ہے ۔
دوسری چیز یہ ہے کہ عام طور پر دین کے نام پر مذہب کے نام پر زیادہ تر ایسی باتوں پر تقریر، ایسے موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے کہ جنکے بارے میں نہ تو قیامت میں کوئی سوا ل ہوگا اور نہ ہی ان گفتگوﺅں سے ہمارے سماجی ذمہ داری کے احساس میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہی سماجی مسائل پر گفتگو ہوتی ہے۔ آج تمام مسلمانوں کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جن تقاریر کو وہ دین کے نام پر سن رہے ہیں وہ کتنی دینی اور کتنی مذہبی ہیں اور آج کے مسائل سے انکا کیا تعلق ہے۔ خاص طور پر صدر اوّل کی شخصیتوں اور انکے کارناموں کو لیکر جو اختلافی مسائل چھیڑے جاتے ہیں ان کا عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں قرآن شریف کا کافی حصہ ماضی کے واقعات پر مشتمل ہے لیکن اگر کوئی صاحب یہ سوچیں کہ ہم سے قیامت میں طوفانِ نوح کے بارے میں پوچھا جائے گا یا جناب لوط یا جناب نوح کی بیبویوں کے بارے میں پوچھا جائےگا یا قوم ثمود پر جو عذاب نازل ہوا اسکی تفصیلات پوچھی جائیںگی تو ایسا کوئی سوال قیامت میں نہیں کیا جائےگا۔ ماضی کے واقعات ہیں۔ قرآن کریم کا بڑا حصہ ماضی کے واقعات بیان کرنے میں صرف ہوا ہے لیکن اس کا مقصد یہ ہے کہ ماضی کے واقعہ سے سبق حاصل کرکے ہم اپنے حال کو درست کریں اور قیامت میں جواب دہی کے لیے تیار رہیں۔ وہ واقعات سبق یا نصیحت کے طور پر ہیں۔
ہم آپ کو اس جانب متوجہ کرتے ہیں کہ اگر صحیح معنیٰ میں ہم میدان عمل میں آنا چاہتے ہیں تو ہم کو بہت کچھ اپنے ان اعمال پر جن کو ہم مذہبی امور کے طور پر انجام دیتے ہیں ان پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسکے علاوہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ وہ اپنے دین کو دوسروں تک پہنچائیں۔ آپ یقین رکھیں کہ حالات بد سے بدتر اسی لئے ہو رہے ہیں کیونکہ ہم نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نہیں نباہا۔
ہم نے اس وقت اس ماحول میں کہ جب ۶دسمبر ۲۹۹۱ءکو بابری مسجد کی شہادت ہوئی اور ہم لوگوں نے ۴۲جنوری ۳۹۹۱ءکو بڑے امام باڑے میں جلسہ کیا تھا اس میں تمام مسلمان شریک ہوئے تھے۔ وہاں ہم نے ایک سہ نکاتی پروگرام پیش کیا تھا جو آج بھی اپنی افادیت اور معنویت رکھتا ہے اور وہ ہے :
۱۔ اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینا۔ دیکھئے اگر ہمارا دین ہمارے مسائل کو حل کرنے اور تمام مسلمانوں کو متحد کرتے میں کامیاب نہیں ہوتا تو دوسرا کیوں اس دین کو قبول کرے گا ؟ اگر آپ کا ماننا ہے کہ کسی ڈاکٹر کو کوئی بیماری ہے اور اس کی دوا خود اس کو فائدہ نہیں پہنچا رہی ہے تو کیا آپ اس ڈاکٹر سے دوا لے آئیںگے ؟ اگر اس کی دوا اس کو نہیں فائدہ پہونچا رہی ہے تو ہم کو کہاں سے فائد پہونچائے گی ؟ اگر ہم کسی سے کہیں کہ اللہ تعالیٰ کا دین ہمارے پاس موجود ہے جو تمام مسائل کا حل پیش کر دیتا ہے تو پھر یہ مسائل اور تفرقہ کیوں ہے ؟ جب تک ہم اپنے حالات کو اپنے دین کی بنیاد پر درست نہیں کر لیتے کوئی ہمارے دین کو قبول نہیں کرے گا۔ پہلی ضرورت اس بات کی ہے کہ دین میں اور بنام دین جو خرافات ہے اس میں پہچان کی جائے اور اسکو درست کیا جائے۔ ہم کو چاہئے کہ بجائے اس کے کہ دوسرے فرقہ کے عقای ¿د و نظریات کو تولیں ہمکو اپنے عقای ¿د و نظریات کو پرکھنا چاہیئے۔ یہ مسلسل کوشش اور توجہ چاہتا ہے۔ لفظ جہاد مسلسل کوشش اور انتہائی کوشش کو ظاہر کرتا ہے۔ قرآن شریف میں سورہ ¿ عنکبوت کی آخری آیت میں ارشاد ہوا : ”اور جو لوگ ہماری را ہ میں کوشش کریںگے انہیں ضرور بالضرور ہم اپنے راستے دکھا دیںگے“۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم متحد ہو کر اللہ کی راہ میں کوشش کریں۔
دوسری بات تھی :
۲۔ ہم کو فرقہ وارانہ منافرت نہیں ہونے دینا چاہئے۔ کیونکہ نفرت کے ماحول میں تبلیغ کا کام نہیں ہو پاتا۔ جو دشمن ہے آپ کا وہ یہ چاہتا ہے کہ نفرت اور کشیدگی ہو۔ ہماری حکمت عملی یہ ہے کہ ہم سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنی بات لوگوں تک پہنچائیں۔
اور تیسری بات میں نے کہی تھی :
۳۔ توحید کی تبلیغ کرنا اور شرک و بت پرستی کی مخالفت کرنا۔ اور ہمارا یہ کہنا ہے کہ مسلمانوں نے خود بہت سے ایسے شرک اور بت پرستی کے مظاہر دین کے نام پر بنا لئے ہیں جبکہ ان کو طاغوت کے انکار کا حکم دیا گیا ہے۔ ہمیں یہ بات اپنے پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ہم کو اسلام کی عملی برتری دیگر ادیان و اقوام کے سامنے ثابت کرنی ہے اور اسکے لئے ہم کو خود سچا مسلمان بننا ہوگا۔
مسلمانوں میں آپس میں رابطہ رہنا چاہئے، لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنا چاہئے، سماجی، قومی و دینی مسائل پر گفتگو کرنی چاہئے۔ ہر محلہ اور ہر بستی میں ہفتہ وار میٹنگ کا انعقاد کیا جا سکتا ہے اور ایسی میٹنگوں کے لئے بہت بڑے مجمع کی ضرورت نہیں ہے دس۔بارہ لوگ بھی اگر مل بیٹھیں تو بھی بہتر ہے۔ اگر لوگ قومی اور دینی مسائل میں کم دلچسپی لیںگے تو اس کا فائدہ سماج دشمن عناصر اُٹھائیںگے۔
لہٰذا میں آپ حضرات کے سامنے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کرتا ہوں:
۱۔ یہ جلسہ تمام مسلمانوں کو دین اسلام کو سماجی نظام میں انقلاب لانے والے دین کی حیثیت سے متعارف کراتا ہے اور مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے دینی تقاضوں اور ذمہ داریوں کو اپنے سماجی پس منظر میںسمجھیں۔
۲۔ یہ جلسہ تمام مسلمانوں سے :
۱۔ اتحاد بین المسلمین کو فروغ دینا
۲۔ فرقہ وارانہ منافرت نہ ہونے دینا، اور
۳۔ توحیدکی تبلیغ کرنا اور شرک و بت پرستی کی مخالفت کرنا، کو بطور لائحہ عمل اپنانے کی سفارش کرتا ہے۔
۳۔ یہ جلسہ تمام مسلمانوں کو ان کے تبلیغ دین کے بنیادی فریضہ کو یاد دلاتا ہے اور گذارش کرتا ہے کہ صدر اوّل کے مسلمانوں کی طرح ہر ایک کو تبلیغ دین میں کوشاں ہونا چاہئے نہ یہ کہ کسی پیشہ ور طبقہ پر اپنی ذمہ داری ڈال کر الگ ہو جائیں۔
۴۔ یہ جلسہ تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ دوسرے فرقہ کے عقائدو نظریات تولنے کے بجائے اپنے اپنے فرقوں میں رائج ان نظریات و موضوعات کو پرکھیں جو مسلمانوں کے آپسی اتحاد میں رکاوٹ بن رہے ہیں جبکہ ان مسائل کے بارے میں آخرت میں کوئی جوابدہی نہیں کرنی ہوگی۔
۵۔ یہ جلسہ مذہبی پلیٹ فارم سے نفرت اور افتراق پھیلانے والی تقاریر کی حوصلہ شکنی کی اپیل کرتا ہے اور اس سلسلہ میں افراد ملت کو سورہ ¿ نساءکی آیت نمبر ۰۴۱ اور سورہ انعام کی آیت نمبر ۸۶ کی طرف متوجہ کرتا ہے۔
۶۔ یہ جلسہ ملت میں باہمی ربط و یگانگت کے لئے تمام مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے کہ وہ اپنے محلہ، شہر اور بستی میں آپسی رابطے کی ہفتہ وار میٹنگیں رکھیں اور درپیش مسائل پر تبادلہ ¿ خیال کریں۔ ایک ہفتہ میں اس کا م کے لئے دو یا ایک گھنٹہ نکال لینا کوئی مشکل یا ناممکن کام نہیں ہے جبکہ اس کے بے شمار فوائد حاصل ہوںگے۔
۷۔ جلسہ میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اس وقت ملی مسائل میں عوام کی دلچسپی کے کم ہو جانے کی وجہ سے قوم فروش عناصر کو کھلکھیلنے کا موقع مل گیا ہے اور پوری بے شرمی کے ساتھ ایک جانب تفرقہ اور انتشار کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے اور دوسری جانب حکومت و ارباب اقتدار کے ہاتھوںقومی مفاد کی سودے بازی ہو رہی ہے۔ لہٰذا یہ جلسہ تمام مسلمانوں سے بےدار ہونے اور اپنے قومی مفاد کی نگہبانی کرنے کی اپیل کرتا ہے۔
جاوید مرتضیٰ
No comments:
Post a Comment