Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Monday, September 27, 2010

PRESSNOTE 26.9.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                   Date............



برائے اشاعت



غیروں کو پھول باٹیںاور اپنوں کو کانٹے:تنظیم علی کانگریس



لکھنو 26 ستمبرتنظیم علی کانگرےس کی ہفتہ وار میٹنگ مےں قوم سے متعلق دینی سےاسی اور سماجی امو ر اور مسائل پر تبادالائے خےال کےا گےا۔ مقررین نے حضرت سےد دلدار علی نصیراّبادی غفران مابؒ (1166/1752-1235/1820)کی دینی، سےاسی اور سماجی خدمات کا اعتراف کےا گےا۔آپ 1200ہجری مےں جلیل القدر عالم دین اور مشہور اصولی قائد آغا محمد باقر واحد بہبہانی(متوفی1208 ہجری) کی شاگردی مےں اجتہاد مکمل کر نے پہلے ہندوستانی تھے۔آپ کی اس خصوصےت کی وجہ سے آپ کے خانوادہ کو خاندان اجتہاد کہا جاتا ہے۔آ پ کی سر گرمےوں اور متعدد تحریکوں کی وجہ سے لکھنﺅکی پہچان شےعت کے مرکز کے طور پر ہو تی ہے۔ لےکن ےہ افسوس کا مقام ہے کہ خاندان اجتہاد کے حقیقی دارث سماج مےں اپنے اس جائز مقام سے محروم ہےں جس کے وہ حقدار ہےں۔آج نقلی اجتہادےوں کا اےک طبقہ ، جس مےں جہلائ، بدماشوں، اوقاف خوروں، شر پسندوں ، مسخروں کی کشرت ہے، قوم پر مسلٰ ہو گےا ہے ۔ےہ حر طریقہ سے قوم کو بےوقوف بنا کر قومی املاک اور اثاثہ پر قابض ہو گےا ہے۔ممبران نے اس بات پر تشویش کا اظہار کےا کہ تحریک عزاداری کے لئے اپنی بالوث خدمات دینے والے مشہور عالم دین آےت اللہ علی شبر ؒ اور جلیل القدر عالم دین قائم مہدی ؒ کی قبور کو نطر انداز کر کے کتبات کندہ کےاجا رہے ہےں،ممبران نے اس بات کا بھی مطالبہ کےا کہ امام باڑہ مےں اسپتال کے تعلق سے کسی بھی طرح کی تعمیر نہ ی جائے۔ اسی طرح ےہ بھی بہت افسوسناک ہے کہ امامباڑہ زےن العابدین خاںکی جدید تعمیر کے بعد خاص افراد کے نام پر امام باڑہ کے حال وغےرہ کے نام رکھے لئے گئے ہےں اور ا س طرح مرحوم زےن العابدین خاں کی خدمات کو نظر انداز کےا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ امام باڑہ کے’ ذاتی‘ استعمال ‘ سے ہو نی والی آمدنی کا کو ئی حساب کتاب بھی بار بار مطالبہ کر نے کے بعد بھی پےش نہ کر نا قوم کے ساتھ دھوکہ بازی ہے۔

ممبران نے ’مسخرے‘ کے نام سے مشہور شخص اور اس کی ٹولی کے ذریعہ پھولوں کی تقسیم کے تعلق سے اظہار بےان کےا کہ قوم کے صالح اور ذی فہم افراد کے خلاف کانٹے بانٹے والے لوگوں کی چالوں سے اپنے اور غےر سب واقف ہو چکے ہےں ۔

ممبران نے امام باڑہ سبطےن آباد کے ناجائز قبصہ اور رجسٹرےوںکا معاملہ اٹھاتے ہوئے افراد قوم کی توجہ مبذول کراتے ہو ئے کہا کے اس تاریخی امام اباڑہ کے حالات بھی تشویش ناک ہےں اور بعد مےںخود ساختہ قائداور ان کی ٹولی ، کبھی شیعہ کالج، کبھی سلطان مدارس کے نام پر عوام کو گمراہ کر نے کی کوششوں مےں مصروف ہے۔اس بات مطالبہ کےا گےا کہ عوام کے سامنے امام باڑہ غفرانماب، امام باڑہ سجادےہ اورامام باڑہ زےن العابدین خاں کا حساب کتاب پیش کےا جائے ا ور اِن تماممقامات کے تمام بےنک کھاتوں کی جانج کا مطابہ بھی کےا گےا ۔ علی کانگرےس نے پھر اپنے اس مطالبہ کو سامنے رکھا ہے کہ لکھنﺅ کا خطبئہ جمعہ اےک خاص خصوصےت کا حامل ہوتا ہے اور اس کے غلط اورذاتی مفاد کے لئے استعمال کر نے سے شعےان لکھنﺅ کا وقار مجروح ہو تا ہے ، لہٰذا اس کے متن کی تشکیل کے لئے علماءاور دانشور حضرات کی اےک کمےٹی تشکیل کی جائے۔ جمعہ میں محراب و منبر کا استعمال اپنی ذاتی اغراض کے لئے کیا جان ثابت ہو چکا ہے تو علمائِ حق کو چاہئے کہ و ہ اپنے شرعی فریضہ کو پہچانیں اور فقہ کے مطابق صحیح نمازِ جمعہ کے قیام کی فوری سبیل کریں تاکہ شہر میں نمازِ جمعہ صحیح طور پر اد اہو سکے اور وہاں سے واقعی اخوتِ ملّت کا پیام دیا جا سکے۔

جاری کردہ

لائق علی



Thursday, September 23, 2010

ALI CONGRESS: PRESSNOTE OF 19.9.2010

ALI CONGRESS: PRESSNOTE OF 19.9.2010

PRESSNOTE OF 19.9.2010

ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                              Date............

برائے اشاعت



مجمع مولا کا ہے مولانا کا نہیں : تنظیم علی کانگریس



لکھنو 19 ستمبرتنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں اللہ کا شکر ادا کیا گیا کہ آخر کار جنّت البقیع کے انہدام کا ظلم چھپایا اور دبایا نہ جا سکا اور شہر میں حق پسندوں نے یہ دکھا دیا کہ رسول کی لخت جگر ایمہ طاہرین اور بزرگانِ دین اور قریب سات ہزار صحابہ کرام کی قبروں کی بے حرمتی اور پھر اس سے بھی بڑھ کر اس ظلم کا انکار کسی طور قابل برداشت نہیں ہے۔ سعودی حکومت نے ان مزارات مقدسہ کا انہدام گو کہ ۵۸ برس قبل یعنی ۸ شوال 1345 ہجری مطابق 21 اپریل 1925 عیسوی کوکیا تھا اور اس سے قبل مقامات مقدسہ پر حملے ہوتے رہے تھے مگر آج بھی یہ زخم ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔ اللہ ان سب لوگوں کو جزاءخیر عطا کرے جنہوں نے ظلم کی مخالفت میں آواز اٹھائی۔ کاش کہ خود ساختہ قائدین نے اسے سیاسی مفاد کی خاطر ذاتی قو ت کی نمایش کا ذریعہ بنانے کی کوشش نہ کی ہوتی اور اس سارے مجمع کو کسی ایک جگہ جمع ہونے کا موقعہ دیا ہوتا تاکہ مولا نا کی شوکت سے زیادہ مولا کی شوکت دکھائی دیتی۔ مگر اس سے زیادہ یہ کہ مجمع نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مولا کا چاہنے والا ہے کسی مولانا کا نہیں اور یہ بات تمام سیاسی پارٹیوں اور ووٹوں کی خرید و فروخت کرنے والوں کو بھی اچھی طرح سے جان لےنی چاہئے۔ سعودی حکومت شعائر اللہ کے سلسہ میں اپنے مسلک کے مطابق عمل نہ کرے کیونکہ یہ ساری امت مسلمہ کی میراثHeritage ہیں لہٰذا امت کو چاہئے کہ ایک بین الاقوامی کاونسل کی تشکیل کرے جو ان مقامات کے تحفظ وغیرہ کی ذمہ دار ہو اور انہیں World Heritage میں جگہ دی جائے۔اسی کے ساتھ یہ بہر حال ضروری ہے کہ مولا کی مقامی یادگاروں اور جایدادوںکی بازیابی کے لئے فوری توجہ دی جائے۔ خود سبطین آباد میں صحنچیوں وغیرہ پر ناجائز قبضے برقرا ر ہیں۔ مسجدیں قرق ہیں اور ہماری خود ساختہ قیادت چپی سادھے بےٹھی ہے۔ اس سلسہ میں علی کانگریس ان دیگر برادرانِ اسلام کی ستائش کرتی ہے جنہوں نے محبت اہلیبت کا ثبوت دیا اور اس سلسہ میں بیان دے کر ایسے ملّاوں کی مذمت کی جو ان سعودی ایجنٹوں کے ساتھی ہیں جو سرے سے انہدام جنت البقیع کے واقعہ کے ہی منکر یں۔

۴۲ تاریخ کو عدالت کا فیصلہ بابری مسجد مقدمہ کے سلسلہ میں آ ±نے والا ہے اور اس معاملے میں انتظامیہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کا مظاہرہ کر کر کے خواہ مخواہ تناو کا ما حول پیدا کر رہی ہے جب کہ عوام میں مکمل امن اور شانتی پائی جا رہی ہے۔ تنظیم علی کانگریس اس سلسلہ میں عوام سے مکمل امن اور سکون اور بردباری کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتی ہے ۔ ساتھ ہی سرکار کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ عدالتی فیصلہ پر مکمل عمل درامد کرانا اسکی ذمہ داری ہے ۔ تنظیم علی کانگریس مولانا شہنشاہ حسین صاحب کے انتقال پر انکے پسماندگان کو تعزیت پیش کرتی ہے اور اللہ سے دعا کرتی ہے کے انہیں اعلیٰ علین میں جگہ ملے۔

آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے طفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ

لائق علی

Monday, September 13, 2010

ALI CONGRESS: PRESSNOTE OF 12.9.2010

ALI CONGRESS: PRESSNOTE OF 12.9.2010

PRESSNOTE OF 12.9.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                 Date............

برائے اشاعت

جنت البقیع کے سلسلہ میں ہونے والے احتجاج میں اختلاف پیدا کرنے والے سعودی ایجنٹ:۔تنظیم علی کانگریس

لکھنو 12 ستمبر تنظیم علی کانگریس کی ہفت روزہ نشست میں مسلمانانِ عالم کو عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علیؑ کے اس فرمان کو دہرایا گیا کہ عید تو اسکی ہے جسکے روزوں اور نماز کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا ہو اور جس دن انسان اللہ کی معصیت سے دور رہے وہی روز روزِ عید ہے۔ ساتھ ہی یہ دعا کی گئی کہ اللہ مسلمانوں کے روزوں اور نمازوں اور اعمال کو قبول فرمائے اور انہیں علم و حکمت اور راہ راست و ثبات قدم اور سب سے بڑھ کر خلقِ خدا کے لئے مفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

جنت البقیع کے سلسلہ میں سعودی حکومت کے خلاف احتجاج کیا جانا ہر انصاف پسند کا فریضہ ہے اور یہ قابل تحسین ہے کہ اس سلسلہ میں قوم میں بیداری آئی ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جب احتجاجی مظاہرے کا اعلان ہو چکا تھا تو بجائے اسکے سب یکجا ہو کر اسے کامیاب بناتے کچھ سعودی ایجنٹوں نے اسی وقت سے کچھ قبل ایک اور احتجاجی پروگرام کا اعلان کر کے قوم میں اختلال اور اختلاف پیداکرنا شروع کر دیا۔ قوم کو چاہئے کہ ان لوگوں کے بلانے پر عمل نہ کریں جو ابھی تک جنت البقیع کے معاملے میں کوئی اقدام کرنے سے منہ چراتے پھر رہے تھے۔ مگر اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اپنے شہر میں ان مذہبی مقامات کی بازیابی کی کوشش پہلے کریں جن پر سرکاروں، سرکاری اہلکاروں اور دبنگوں کے ناجائز قبضوں میں ہیں۔ خصوصی طور پر مسجدشہدرہ،سبطین آباد کی صحنچیوںاو ر پھاٹک کی بازیابی نرہئی واقع آغا میر کی کربلا جو ساتویں امام سے منسوب ہے ’جادو گھر ‘ بن چکی ہے اور متعدد قرق مساجدکی واگزاری کی اولین کوشش کی ضرورت ہے۔ان مقامات مقدسہ کی بحالی اور بازیابی کو جان بوجھ کر پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ایسے سوالات قوم کو پریشان کر رہے ہیں اور ان پر گہری خاموشی مزید شکوک پیدا کرنے کا کام کر رہی ہے۔علی کانگریس کا خیال ہے کہ خود ساختہ قیادت غیر ملکی مسائل میں جان بوجھ کرقوم و ملت کو الجھانے کا جو کام کر رہی ہے،اسکی وجہ مقامی مسائل سے رو گردانی ہے،جبکہ مقامی مسائل کو ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے۔ورنہ روزِ قیامت یہ جواب دینا مشکل ہو گا کہ آخر کیوں ہم نے اِن شعائر اللہ کی بازیابی کی کوششیں کیوں نہیں کیں۔آخر میں علی کانگریس نے شیعہ وقف بورڈ سے مطالبہ کیا کہ اسکے’فرض شناس‘ اراکین اپنی ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھائیں ورنہ قوم انکو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اوقاف کا حساب کتاب اور اسکی املاک کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔خصوصی طور سے ان امام باڑوں کے حساب کتاب کو یقینی بنایا جائے جنکا تعلق نام نہاد علما اور انکے خانوادوں سے ہے۔علی کانگریس نے ان مولوی نماءافراد کی مذمت کی جو امام جمعہ ہونے کے باوجود ماہ رمضان میں اعتکاف سے پرہیز کرتے رہے اور انہوں نے اس عمل کی ترغیب بھی نہیں دی۔ یہ قابلِ تحسین ہے کہ عام مسلمانوں میں بھی یہ تحریک چل پڑی ہے کہ کسی دروغ گو کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اسکے علاوہ اس بار رویت حلال اور جمعتہ الوداع کے مسئلہ نے علم دشمن عالم نما جاہلوں کی بھی پول کھول دی ہے جو اس سامنے کی بات کو ماننے تیار نہیں تھے، کہ جس طرح گھڑی دیکھ کر افطار کرنا اور ترکِ سحر کرنادرست ہے اسی طرح علم فلکیات(astronomy) کی بنیاد پر رویت حلال کا پیشگی اعلان کیا جانا درست ہے۔

آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے طفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ

لائق علی

Thursday, September 09, 2010

PRESSNOTE 5.9.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                Date............

برائے اشاعت



تشدد اور دہشت پسندی سے لڑتے رہنا ہی جناب امیر کا اسوہ تھا:تنظیم علی کانگریس

ای میل و ایس ایم ایس کے ذریعہ دھمکیاں دیکر ماحول بگاڑنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا ضلع انتظامیہ سے مطالبہ



لکھنو5 ستمبر تنظیم علی کانگریس کی ہفت روزہ نشست میںپاکستان مین مولیٰ علی کے ماتمداروں کے جلوس اور یومِ قدس کے جلوس پر کئے گئے دہشت گردانہ حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ تشدد اور دہشت پسندی سے لڑتے رہنا ہی جناب امیر کا اسوہ تھا۔ انکے دور خلافت میں اکثر دشمنوں نے انکے علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کیںاور اس سلسہ میں اکثر جناب امیر  کو انکے بعض مشیروں نے جوابی کارروایاں کرنے کے مشورے بھی دئے مگر اسکا ایک بے مثال حکیمانہ جواب دے کر انہوں نے دہشت گردی اور اسلام کے فرق کو واضح فرما دیاکہ دہشت گردی کسی بھی حال میں اسلام کو قبول نہیں ہے ، دشمن کی دہشت گردی کے جواب میں بھی نہیں کیونکہ دو باطل مل کر حق نہیں بنتے۔ تمام مسلمانانِ عالم اور خصوصاً تمام شیعانِ علی کا مذہبی فریضہ ہے کہ دنیا میں کسی قسم کی بھی دہشت گردی کو جنابِ امیر کی سیاست الٰہی سے پسپا کرنے کے لئے ہر وقت مصروفِ عمل رہیں۔ در اصل دہشت گردی ایک بگڑی سونچ کے سو ا کچھ نہیں اور ایسی سونچ رکھنے والے لوگ خوف ،دہشت اور ڈرانے دھمکانے کے بل بوتے پردنیا سے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں کیونکہ انکے پاس اپنی کوی فکر ہوتی ہی نہیں ہے جسے دلیل کے ذریعہ انسانون تک پیش کر سکیں۔ ۔ یہی دہشت گردی تھی جو اپنی انتہائی بھیانک شکل میں یزیدابن معاویہ بن کر امام حسین سے مطالبہءبیعت کرنے اٹھی تھی اور یہ دہشت گردی ہی ہے جو آج خود ہماری قوم میں حق کا گلا گھونٹنے کے لئے ہر کسی کو ڈرانے دھمکانے کی ناکام کوششیں کیا کرتی ہے۔ اور اسکے لئے ای میل ایس ایم ایس اور ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ضلع انتظامیہ کا فریضہ ہے کہ وہ فوری طور پر ای میل اور ایس ایم ایس وغیرہ کے ذریعہ دھمکیاں دینے اور دہشت پھیلانے والوں کے خلاف امن عامہ کو خراب کرنے کی کوشش کے علاوہ سائیبر ایکٹ کے تحت سخت کارروائی کرے۔مثل مشہور ہے ’پہلے گھر چراغ‘ اس لئے ضروری ہے کہ دوسرے ممالک میں ہونے والے مظالم پر احتتاج کے ساتھ ساتھ اپنے شہر کے حالات کو درست کرنے پربھی توجہ دی جائے۔ خود اپنے شہر میں مساجد قرق ہیں مسجدشہدرہ کی آراضی اور امام باڑہ سبطین اباد کی صحنچیوں پر دبنگوں کے ناجائز قبضے ہیں اور ایسے میں کچھ لوگ ان حالات میں بیرونی مثائل کے نام پر اپنی سیاست چمکانے اور مقامی مثائل سے چشم پوشی کرکے دبنگوں میں اپنی پیٹھ بنانے میں مصروف ہیں۔اسکے علاوہ رمضان المبارک میں نام نہاد شیعہ علما کی ایسے لوگوں کے ساتھ دعوتیں اڑانے، جنکے یہاں عام انسانوں کا گذر ناممکن ہے، کی برھتی روش کے پیش نظر ضروری سمجھا گیا کہ اس سلسلہ میں جناب امیر کی پالیسی سے قوم کو مطلع کر دیا جائے اور اسکے لئے نہجالبلاغہ سے جناب امیرکے اس مکتوب کے ابتدائی جملے پیش کئے جا رہے ہیں جو انہوںنے بصرہ کے گورنر ابنِ حنیف کے نام لکھا تھا جو کہ حسبِ ذیل ہے:” اما بعد! ابنِ حنیف مجھے معلوم ہوا ہے کہ بصرہ کے ایک بے فکرے نے تمہیں دعوت دی اور تم دوڑپڑے قسمِ قسمِ کے کھانے تھے۔ تُم مزا لے لے کر کھا تے تھے۔اور تمہارے آگے قابوں پر قابیں بڑھائی جاتی تھیں۔ میں نہیں سمجھتا تھا کہ تُم ایسے لوگوں کی دعوت قبول کروگے جن کے دروازے پر محتاج دھتکارے جاتے ہیں اور جن کے دسترخوان پر صرف مالدار بلائے جاتے ہیں“۔قوم کو چاہئے کہ وہ جناب امیر کی اس پالیسی سے انحراف کرنے والوں سے ضرور پوچھے کہ وہ کس منہ سے اپنے کو حضرتِ علی کا پیرو کہتے ہیں۔آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے طفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیت کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ لائق علی



Thursday, September 02, 2010

PRESSNOTE OF 29.8.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                     Date............

برائے اشاعت

حضرت علی کی سیاست الہیہ اور خو دساختہ قائدین کی چاپلوسانہ روش کا تضاد اہلبیت کی توہین ہے:علی کانگریس

لکھنو29 اگست:تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں آنے والے ایام اور جناب امیر کی شہادت کی نسبت سے ان جناب کی قیادت کو یاد کیا گیا جن کی حکومت غربہ اور عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے تھی۔ جن کی حکومت کی priority عدالت اور مساوات کا قیام تھی ۔ وہ کسی طور میں کسی مصلحت کے تحت اس مقصد کو پس پشت کرنے کوتیار نہ ہوئے اور بقول مورخ اپنی ’شدتِ عدالت‘ کی وجہ سے شہید کئے گئے۔آج ضرورت ہے کہ تمام شیعانِ علی ہر لمحہ مولا کی اس پالیسی کو یاد رکھیں اور اسی پر عمل پیرا رہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج وہ لوگ جو خود کو مولا کے مذہب کا ٹھیکہ دار ہونے کا دکھاواکرتے ہیںانکے کردار میں عدالت ہے ہی نہیںاور وہ حکومتوں وزراءاور عہدہ داروں کے ساتھ ایسی دعوتیں اڑایا کرتے ہیں جس میں عام انسانوں، بھوکوں اور غریبوں کا گذر بھی نہیں ہے۔نہ صرف یہ بلکہ اس پر اتراتے بھی ہیں اور ایسی خبروں کی تشہیر میں اپنی بڑی عزت افزائی سمجھتے ہیں۔ ’دنیا اور سیاست ‘سے انکی دلچسپی انکے کردار کے اسی گراوٹ کا نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے انکی ساری محبتیں اور مخالفتیں صرف اور صرف اپنے اور اپنے کنبے والوں کے ذاتی فائدے کے لئے ہوا کرتی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جناب امیر کی پالیسیوں اور طرز فکر سے قطعی نا بلد ہیں اور مغرب کی مادہ پرستی پر ایمان رکھتے ہیں۔یہی مادی فکرجناب امیرکے مخالفین کی تمام تر سیاست کی بنیاد اور امیر المومنین اور انکے دشمنوں کے بیچ اختلاف کی بنیاد یہی فکری کشمکش تھی۔اسلئے آج بھی جو لوگ وہ طرز زندگی اختیار کرتے ہیں جو دولتمندوں اور حکومتی عہدےداروں کے ارد گرد گھوما کرتے ہیںوہ جناب امیر کے موجودہ نمائندے نہیں بلکہ انکے دشمنوں کے ماننے والے ہیں۔ ایسے لوگوں کا نمازوں کی امامت کرنا مولا کے پاک منصب پر ایک غاصبانہ قبضہ ہے اورجناب امیر کی سیاست عدل اور سادہ زندگی کی توہین اور تضحیک کا سبب ہے۔ایسے عناصر کی پناہ گاہ” دل دل پر بنا جھوٹ کا قلعہ“ ہے جو یقینا حق کے ظہور کے ساتھ فنا ہوجائےگا۔

جلسہ میں قومی حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے واقعات پر تشویش اور اظہار افسوس کیا۔علی کانگریس نے قوم کے ان حالات کا ذکر کیا جسمیں دوسری تنظیموں اور افراد کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کو مبینہ قائد لے اڑتے ہیں اور آگے جاکر سودے بازی کر لیتے ہیں۔ علی کانگریس نے اوقاف کی زبوں حالی اور املاک کی لوٹمار پرمسلسل خاموشی اور خود پر سے ذمہ د اری کو نظر انداز کرنے والے افراد قومی کی شدید مذمت کی جو سرکار،انتظامیہ اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو دوسرے افراد و تنظیمیں پہلے ہی اٹھا چکی ہوتی ہیں۔علی کانگریس نے ان مبینہ اور خود ساختہ قائدین کی مذمت کی جو قوم کو گمراہ کرنے والے مسائل اٹھا کر اصل موضوعات سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔اوقاف کی تباہی و بربادی،مسجد شہدرہ کی املاک پر قبضہ اور سبطین آباد کے امام باڑے کی صحنچیوں پر سرکاری قبضوںکے علاوہ مکان نمبر 12 کا بار بار فروخت ہونا ایسے متعدد راز ہیں جن پر سے پردہ اٹھانے کااب وقت آگیا ہے۔

آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے طفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ

لائق علی