Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Wednesday, March 31, 2010

عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی ہی اتحاد کی مستحکم بنیاد

عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی ہی اتحاد کی مستحکم بنیاد


30.03.2010, 12:02am , منگل (GMT)

تنظیم علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جایزہ لےنے کے بعد سب سے پہلے صوبائی حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ اُس نے تنظیم علی کانگریس کے ذریعہ اُٹھائی گئی شیعہ عوام کی اس آواز پر دھیان دیا کہ شیعہ وقف بورڈ میںکسی ایک مولوی صاحب کے ایسے نمائیندوں کو جن پر اوقاف کی لوٹ کھسوٹ کا الزام ہے ، بھر دینے کے بجائے ، پڑھے لکھے ذی فہم صاف ستھری شبیہ والے اورمختلف طبقوں کی نمائیندگی کرنے والے افراد کو ممبری کے لئے نامزد کیا جائے۔

ساتھ ہی تنظیم علی کانگریس کے اس مشورہ پر بھی سرکار نے عمل کیا کہ بورڈ میں خاتون ممبران کو بھی نمائیندگی دی جائے۔ اگر چہ یہ نمایندگی ابھی بہت کم ہے مگر ایک اچھی پہل ہے۔تنظیم علی کانگریس شکریہ ادا کرتی ہے تمام عوام کا جنہوں نے تنظیم کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے جائےز امن پسندانہ، قانونی اور مہذبانہ انداز استعمال کرکے اخبارات اور خطوط کے ذریعہ اپنا موقف حکومت تک پہونچایا اور ایسا کرنے میں سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کر کے عوامی روزمرہ زندگی کو درہم برہم نہیں کیا۔تنظیم علی کانگریس شکریہ ادا کرتی ہے میڈیا کا جس نے بیباکی کے ساتھ اور بغیر ڈرے اور خوف کھائے حق کی بات عوام تک پہونچانے کی اپنی ذمہ داری اد ا کی۔

جلسے میں نو منتخب نئے ممبران کو مبارک باد دیتے ہوئے اُن سے گذار ش کی گئی کہ وہ ہر وقت یہ یاد رکھیں کہ اﷲ تعاٰلی نے انکے کندھوں پر امام مظلوم کی جایدادوں کی ذمہ داری ڈالی ہے سو وہ کسی کا بھی خوف کئے بغیر اور اپنی کسی سیاسی یا غیر سیاسی وابستگی کا لحاظ کئے بغیر امام کی جایدادوں کو ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ سے ویسے ہی بچائیں جیسے ایک سچا مومن اگر شام غریباں میدان کربلا میں ہوتا تو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر خیموں کی لوٹ کو روکتا۔ اور اس بات کا خاص طور سے خیال رکھیں کہ ُبری شبیہہ والے جو ایک دو لوگ بورڈ میں ابھی بھی شامل ہو گئے ہیں وہ انہیں حق کے راستہ پر چلنے سے روک نہ سکیں۔

نئے بورڈ کی کامیابی ، عوام میں انکی ہردل عزیزی اورتنظیم علی کانگریس کی تائیدکا انحصار اُنکی اسی صلاحیت پر موقوف ہوگا۔ابھی پچھلے دنوں یہ بات بہت زورو شور سے سامنے آئیں کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبران میں سے کچھ نے جنت البقیع میں روضے ڈھائے جانے کی بات سے صاف انکار کر دیا۔ اگر یہ پرسنل لا بورڈ کا آفیشیل نکتہ نظر نہیں تھا تو اس سے امید کی جاتی تھی کہ وہ اس کی کھل کر تردید کرے گا اور اس بات کو مانے گا کہ جنت البقیع میں مزاروں کو ڈھایا جانا اور اس پر ایک لمبی خاموشی ویسا ہی ظلم ہے جیسا کہ بابری مسجد کو ڈھایا جانا یا مسجد اقصیٰ پر اسر ایلی قبضہ۔اگر انصاف کی بات کی جائے تو یہ ظلم بابری مسجد والے ظلم سے زیادہ بڑا ہے کیونکہ جیسا کہ سب جانتے ہیں بابری مسجد معاملے میں آج ہندوستان میں عدالتی عمل نہ صرف یہ کہ جاری ہے بلکہ اس بات کا واضح امکان بھی نظر آ رہا ہے کہ عدالت کا فیصلہ مسجد ڈھائے جانے والوں کے خلاف بھی ہو سکتا ہےیہی نہیں یہاں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں صرف مسلم ہی نہیں بلکہ انصاف پسند ہندو بھی موجود ہیں اور یہ آوازیں ، پارلیمنٹ میں ، میڈیا میں، عدالت میں، عوام میں ہر جگہ اٹھتی رہتی ہیں۔

ابھی ابھی ایک دلیر خاتون افسر نے عدلیہ کے سامنے بے باک سچی گواہی دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک خاتون کتنی نڈر ہوتی ہے اور کتنی اچھیOpinion Leader ہو سکتی ہے۔ مگر جنت البقیع ڈھائے جانے کے بعد سے اب تک اُس ملک میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ شرمناک بات ہے کہ وہ مولوی صاحب جو ابھی کچھ دنوں پہلے آصفی مسجد کے منبر سے مخلص مومنین کے خلاف ندوے کا ایجنٹ ہونے ، خود ندو ے پر شیعوں کے خلاف سازشیں رچنے اور سعودی سفارت خانہ پر عزداری ختم کرانے کے لئے چالیس لاکھ روپے دینے کی جھوٹی افواہ اُڑا رہے تھے (جس کی ویڈیو رکارڈنگ یو ٹیوب پر موجود ہے) بورڈ کے ممبر بنے بیٹھے ہیں اور وہاں نہ تو جنت البقیع کی تعمیر نو کی کوئی قراداد لاتے ہیں نہ منہ سے بولتے ہیں نہ سر سے ڈولتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ ان اخبارات کی دشمنی پر کمر بستہ نظر آرہے ہیں جو حق بات کہہ رہے ہیں۔ در حقیقت انکو حق بات کہتا کوئی فرد کبھی اچھا نہیں لگتا جےسے کفار مکہ لوگوں کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ کانوں میں روئی ڈالے رہا کریں تاکہ حق بات ان تک پہونچ نہ جائے اسی طرح یہ کبھی پیامِ نو کو پیروں سے روندواتے ہیں کبھی ان پر اودھ نامہ کے اشتہارات بند کرا دینے کاالزم آتا ہے اور کبھی یہ صحافت اخبار مرداباد کے پلے کارڈ اپنی اس ریلی میں ڈسپلے کراتے ہیں جس میں انہوں نے یہ الزام لگا کر اور لوگوں کو مشتعل کر کے بھیڑ جمع کرائی تھی کہ کسی نے جنابِ زینب کی توہین کر دی ہے۔بنیادی طور پر پرسنل لا بورڈس اسلامی عدل کے قیام میں بھی ناکام ہیں کیونکہ شریعت عدل کی ضمانت تب ہی دے سکتی ہے جب اسکا مکمل نفاذ کیا جائے۔کونکہ کسی بھی قانون میں کسی پر عاید کئے گئے فرایض کی ادایگی کے لئے اسے کسی دوسرے مقام پر کچھ حقوق دئے جاتے ہیں او ر جب تک فرائیض اورحقوق کا یہ پورا نظام عمل مین نہ آے مناسب توازن نہیں قایم ہو سکتا جسکے بغیر عدل کا تصور کرنا مہمل ہے۔اتحاد بین المسلمین تنظیم علی کانگریس کے سہ نکاتی پروگرام کا پہلا نکتہ ہے۔

دوسرا نکتہ مسلم اور غیر مسلم نفرتوں اور غلط فہمیوں کو ختم کیا جانا ہے۔تنظیم علی کانگریس مانتی ہے کہ اتحاد کی بنیاد عدل ہے۔ اتحاد کی دوسری بنیاد اظہار رائے ہے۔ اتحاد کا راستہ اظہار رائے کی آزادی سے شروع ہوتا ہے۔ جب مظلوم اپنی بات کھل کر بولتا ہے اور لوگ اسکا درد سمجھ کر عدل قایم کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو اتحاد کی عمارت اپنی مظبوط بنیاد پر بننے لگتی ہے۔ بغیر عدل کے اتحادکا ڈھکوسلا در اصل اتحاد نہیں بلکہ بندوں کی غلامی اور شرک کی ایک قسم ہے اور اسکے پیچھے کوئی نہ کوئی ذاتی مفاد چھپا ہے۔ تنظیم علی کانگریس جنت البقیع، بابری مسجد اور مسجد اقصیٰ کی جلد از جلد بازیابی کے لیئے دنیا کے ہر انصاف پسند سے ہر پرُ امن کوشش کرنے کی اپیل کرتی ہے۔

جیسا کہ بابری مسجد کی شہادت کے فوراً بعد۷۲ دسمبر ۲۹۹۱ کو امامباڑہ میر زینالعابدین خاں میں اور پھر ۴۲ جنوری ۳۹۹۱ کو امامباڑہ آصفی میں اپنے مرحوم قاید جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کی قیادت میں پوری بے باکی سے اتحاد کے ساتھ ساتھ عدل کی بات کہہ کر تنظیم علی کانگریس نے ہندوستان میں مضبوط ہندو مسلم اتحاد کی نیو ڈالی تھی۔ ایک ایسے اتحاد کی جو عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قایم ہو کسی قسم کے خوف لالچ یا چاپلوسی پر نہیں۔

اسی طرح کوئی کتاب جو تفرقہ ،نفرت اور مسلکی خلیج کو مزید وسیع کرے قابل مذمت ہے اور اسکا کسی دینی نصاب میں ہونا مزید قابل مذمت ہے اس لئے اگر ابھی تک ایسے مدارس کی اعلیٰ کمان نے جن میں ایسی کوئی کتاب شامل ہے اس پر توجہ نہ دی ہو تو اب فوری طور پر اسے نصاب سے خارج کریں تاکہ واقعی اتحاد کی کوششیں کامیاب ہو سکیں۔

اِدھر شیعہ قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیعہ کہلانے والے ایسے نا اہل، مفاد پرست لوگوں سے کھلا قطع تعلق کرے جو جان بوجھ کر حق کہنے سے بھاگتے ہیں اور منبر پر بیٹھ کر جھوٹی افواہیں اُڑاتے ہیں جس کا ثبوت وہ آج تک نہیں پیش کر سکے۔ شیعی فقہہ کے مطا بق ا مام جماعت ہونے کی پہلی شرط عادل ہونا ہے۔اور چونکہ مولوی صاحب موصوف نے اپنے بار بار کے عمل سے اپنا غیر عادل ہونا ثابت کر دیا ہے اس لئے شیعی شریعت سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ انکی جگہ پر کسی عادل امام جمعہ کا انتظام کرنے کی سعی تیز تر کر دے کیونکہ جب تک ایسے لوگ منبر و محراب پر قابض رہیں گے تب تک نہ تو جنت البقیع کی تعمیرِ نو ممکن ہے نہ بابری مسجد کی اور نہ مسجد اقصیٰ صیہونی قبضہ سے آزاد ہو سکتی ہے، اور نہ ہی اتحاد کی بنیادیں مظبوط ہو سکتی ہیں۔

ٓآخر میں الحاج مرزاجاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی۔

Monday, March 29, 2010

عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی ہی اتحاد کی مستحکم بنیاد: تنظیم علی کانگریس

ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                           Date............


عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی ہی اتحاد کی مستحکم بنیاد: تنظیم علی کانگریس

لکھنو ¾ ۸۲مارچ تنظیم علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جای ¿زہ لےنے کے بعد سب سے پہلے صوبای ¿ حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ اُس نے تنظیم علی کانگریس کے ذریعہ اُٹھائی گئی شیعہ عوام کی اس آواز پر دھیان دیا کہ شیعہ وقف بورڈ میںکسی ایک مولوی صاحب کے ایسے نمائیندوں کو جن پر اوقاف کی لوٹ کھسوٹ کا الزام ہے ، بھر دینے کے بجائے ، پڑھے لکھے ذی فہم صاف ستھری شبیہ والے اورمختلف طبقوں کی نمائیندگی کرنے والے افراد کو ممبری کے لئے نامزد کیا جائے۔ ساتھ ہی تنظیم علی کانگریس کے اس مشورہ پر بھی سرکار نے عمل کیا کہ بورڈ میں خاتون ممبران کو بھی نمائیندگی دی جائے۔ اگر چہ یہ نما ¿یندگی ابھی بہت کم ہے مگر ایک اچھی پہل ہے۔تنظیم علی کانگریس شکریہ ادا کرتی ہے تمام عوام کا جنہوں نے تنظیم کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے جائےز امن پسندانہ، قانونی اور مہذبانہ انداز استعمال کرکے اخبارات اور خطوط کے ذریعہ اپنا موقف حکومت تک پہونچایا اور ایسا کرنے میں سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کر کے عوامی روزمرہ زندگی کو درہم برہم نہیں کیا۔تنظیم علی کانگریس شکریہ ادا کرتی ہے میڈیا کا جس نے بیباکی کے ساتھ اور بغیر ڈرے اور خوف کھائے حق کی بات عوام تک پہونچانے کی اپنی ذمہ داری اد ا کی۔ جلسے میں نو منتخب نئے ممبران کو مبارک باد دیتے ہوئے اُن سے گذار ش کی گی ¿ کہ وہ ہر وقت یہ یاد رکھیں کہ اﷲ تعاٰلی نے انکے کندھوں پر امام مظلوم ؑ کی جای ¿دادوں کی ذمہ داری ڈالی ہے سو وہ کسی کا بھی خوف کئے بغیر اور اپنی کسی سیاسی یا غیر سیاسی وابستگی کا لحاظ کئے بغیر امامؑ کی جای ¿دادوں کو ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ سے ویسے ہی بچائیں جیسے ایک سچا مومن اگر شام غریباں میدان کربلا میں ہوتا تو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر خیموں کی لوٹ کو روکتا۔ اور اس بات کا خاص طور سے خیال رکھیں کہ ُبری شبیہہ والے جو ایک دو لوگ بورڈ میں ابھی بھی شامل ہو گئے ہیں وہ انہیں حق کے راستہ پر چلنے سے روک نہ سکیں۔ نئے بورڈ کی کامیابی ، عوام میں انکی ہردل عزیزی اورتنظیم علی کانگریس کی تای ¿دکا انحصار اُنکی اسی صلاحیت پر موقوف ہوگا۔ابھی پچھلے دنوں یہ بات بہت زورو شور سے سامنے آی ¿ کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبران میں سے کچھ نے جنت البقیع میں روضے ڈھائے جانے کی بات سے صاف انکار کر دیا۔ اگر یہ پرسنل لا بورڈ کا آفیشیل نکتہ ¿ نظر نہیں تھا تو اس سے امید کی جاتی تھی کہ وہ اس کی کھل کر تردید کرے گا اور اس بات کو مانے گا کہ جنت البقیع میں مزاروں کو ڈھایا جانا اور اس پر ایک لمبی خاموشی ویسا ہی ظلم ہے جیسا کہ بابری مسجد کو ڈھایا جانا یا مسجد اقصیٰ پر اسر ای ¿لی قبضہ۔اگر انصاف کی بات کی جائے تو یہ ظلم بابری مسجد والے ظلم سے زیادہ بڑا ہے کیونکہ جیسا کہ سب جانتے ہیں بابری مسجد معاملے میں آج ہندوستان میں عدالتی عمل نہ صرف یہ کہ جاری ہے بلکہ اس بات کا واضح امکان بھی نظر آ رہا ہے کہ عدالت کا فیصلہ مسجد ڈھائے جانے والوں کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں یہاں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں صرف مسلم ہی نہیں بلکہ انصاف پسند ہندو بھی موجود ہیں اور یہ آوازیں ، پارلیامنٹ میں ، میڈیا میں، عدالت میں، عوام میں ہر جگہ اٹھتی رہتی ہیں۔ ابھی ابھی ایک دلیر خاتون افسر نے عدلیہ کے سامنے بے باک سچی گواہی دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک خاتون کتنی نڈر ہوتی ہے اور کتنی اچھیOpinion Leader ہو سکتی ہے۔ مگر جنت البقیع ڈھائے جانے کے بعد سے اب تک اُس ملک میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ شرمناک بات ہے کہ وہ مولوی صاحب جو ابھی کچھ دنوں پہلے آصفی مسجد کے منبر سے مخلص مومنین کے خلاف ندوے کا ایجنٹ ہونے ، خود ندو ے پر شیعوں کے خلاف سازشیں رچنے اور سعودی سفارت خانہ پر عزداری ختم کرانے کے لئے چالیس لاکھ روپے دینے کی جھوٹی افواہ اُڑا رہے تھے (جس کی ویڈیو رکارڈنگ یو ٹیوب پر موجود ہے) بورڈ کے ممبر بنے بیٹھے ہیں اور وہاں نہ تو جنت البقیع کی تعمیر نو کی کوی ¿ قراداد لاتے ہیں نہ منہ سے بولتے ہیں نہ سر سے ڈولتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ ان اخبارات کی دشمنی پر کمر بستہ نظر آرہے ہیں جو حق بات کہہ رہے ہیں۔ در حقیقت انکو حق بات کہتا کوی ¿ فرد کبھی اچھا نہیں لگتا جےسے کفار مکہ لوگوں کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ کانوں میں روی ¿ ڈالے رہا کریں تاکہ حق بات ان تک پہونچ نہ جائے اسی طرح یہ کبھی پیامِ نو کو پیروں سے روندواتے ہیں کبھی ان پر اودھ نامہ کے اشتہارات بند کرا دینے کاالزم آتا ہے اور کبھی یہ صحافت اخبار مرداباد کے پلے کارڈ اپنی اس ریلی میں ڈسپلے کراتے ہیں جس میں انہوں نے یہ الزام لگا کر اور لوگوں کو مشتعل کر کے بھیڑ جمع کرای ¿ تھی کہ کسی نے جنابِ زینب کی توہین کر دی ہے۔بنیادی طور پر پرسنل لا بورڈس اسلامی عدل کے قیام میں بھی ناکام ہیں کیونکہ شریعت عدل کی ضمانت تب ہی دے سکتی ہے جب اسکا مکمل نفاذ کیا جائے۔کونکہ کسی بھی قانون میں کسی پر عای ¿د کئے گئے فرایض کی ادایگی کے لئے اسے کسی دوسرے مقام پر کچھ حقوق دئے جاتے ہیں او ر جب تک فرائیض اورحقوق کا یہ پورا نظام عمل مین نہ آے مناسب توازن نہیں قایم ہو سکتا جسکے بغیر عدل کا تصور کرنا مہمل ہے۔اتحاد بین المسلمین تنظیم علی کانگریس کے سہ نکاتی پروگرام کا پہلا نکتہ ہے۔ دوسرا نکتہ مسلم اور غیر مسلم نفرتوں اور غلط فہمیوں کو ختم کیا جانا ہے۔تنظیم علی کانگریس مانتی ہے کہ اتحاد کی بنیاد عدل ہے۔ اتحاد کی دوسری بنیاد اظہار رائے ہے۔ اتحاد کا راستہ اظہار رائے کی آزادی سے شروع ہوتا ہے۔ جب مظلوم اپنی بات کھل کر بولتا ہے اور لوگ اسکا درد سمجھ کر عدل قای ¿م کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو اتحاد کی عمارت اپنی مظبوط نیو پر بننے لگتی ہے۔ بغیر عدل کے اتحادکا ڈھکوسلا در اصل اتحاد نہیں بلکہ بندوں کی غلامی اور شرک کی ایک قسم ہے اور اسکے پیچھے کوی ¿ نہ کوی ¿ ذاتی مفاد چھپا ہے۔ تنظیم علی کانگریس جنت البقیع، بابری مسجد اور مسجد اقصیٰ کی جلد از جلد بازیابی کے لی ¿ے دنیا کے ہر انصاف پسند سے ہر پرُ امن کوشش کرنے کی اپیل کرتی ہے۔ جیسا کہ بابری مسجد کی شہادت کے فوراً بعد۷۲ دسمبر ۲۹۹۱ کو امامباڑہ میر زینالعابدین خاں میں اور پھر ۴۲ جنوری ۳۹۹۱ کو امامباڑہ آصفی میں اپنے مرحوم قای ¿د جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کی قیادت میں پوری بے باکی سے اتحاد کے ساتھ ساتھ عدل کی بات کہہ کر تنظیم علی کانگریس نے ہندوستان میں مضبوط ہندو مسلم اتحاد کی نیو ڈالی تھی۔ ایک ایسے اتحاد کی جو عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قای ¿م ہو کسی قسم کے خوف لالچ یا چاپلوسی پر نہیں۔ اسی طرح کوئی کتاب جو تفرقہ ،نفرت اور مسلکی خلیج کو مزید وسیع کرے قابل مذمت ہے اور اسکا کسی دینی نصاب میں ہونا مزید قابل مذمت ہے اس لئے اگر ابھی تک ایسے مدارس کی اعلیٰ کمان نے جن میں ایسی کوئی کتاب شامل ہے اس پر توجہ نہ دی ہو تو اب فوری طور پر اسے نصاب سے خارج کریں تاکہ واقعی اتحاد کی کوششیں کامیاب ہو سکیں۔اِدھر شیعہ قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیعہ کہلانے والے ایسے نا اہل، مفاد پرست لوگوں سے کھلا قطع تعلق کرے جو جان بوجھ کر حق کہنے سے بھاگتے ہیں اور منبر پر بیٹھ کر جھوٹی افواہیں اُڑاتے ہیں جس کا ثبوت وہ آج تک نہیں پیش کر سکے۔ شیعی فقہہ کے مطا بق ا مام جماعت ہونے کی پہلی شرط عادل ہونا ہے۔اور چوںکہ مولوی صاحب موصوف نے اپنے بار بار کے عمل سے اپنا غیر عادل ہونا ثابت کر دیا ہے اس لئے شیعی شریعت سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ انکی جگہ پر کسی عادل امام جمعہ کا انتظام کرنے کی سعی تیز تر کر دے کیونکہ جب تک ایسے لوگ منبر و محراب پر قابض رہیں گے تب تک نہ تو جنت البقیع کی تعمیرِ نو ممکن ہے نہ بابری مسجد کی اور نہ مسجد اقصیٰ صیہونی قبضہ سے آزاد ہو سکتی ہے، اور نہ ہی اتحاد کی بنیادیں مظبوط ہو سکتی ہیں۔

ٓآخر میں الحاج مرزاجاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ ¿ فاتحہ کی تلاوت کی گئی۔

جاری کردہ

لائق علی



Thursday, March 25, 2010

MAJLISE-E-CHEHLUM OF late YASA RIZVI

http://www.rashtriyasahara.com/NewsDetails.aspx?lNewsID=147654&lCategoryID=19

Wednesday, March 24, 2010

ذاتی مفاد کے لی ¿ے اہلبیت کے فضائل کا انکارکیا جانا شرمناک: علی کانگریس

ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                    Date............

(برائے اشاعت )

ذاتی مفاد کے لی ¿ے اہلبیت کے فضائل کا انکارکیا جانا شرمناک: علی کانگریس

لکھنو ¾ ۱۲مارچ تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست جناب محمد امیرعسکری کی صدارت میں منعقدہوی ¿۔ اس نشست کا آغاز جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے ایصالِ ثوابکے لی ¿ے سورہءفاتحہ کی تلاوت سے کیا گیا اور کہا گیا کہ ان دونوں جاں بازوں نے آلِ محمد علیہمالسلام کی جای ¿دادوں کے لٹیروں کی مخالفت کر کے اُن دشمنانِ اہلیبیت کی دشمنیاں مول لیں اور اُن کی بد کلامیوں، مکرو فریب، افواہ و دروغ گوی ¿ کا سامنا کرتے ہوئے محبت ِآل محمد پر جاں بحق ہو کر مشہور حدیث ” و من مات علی حب آل محمدمات شہیدا“ یعنی جِس کسی نے آلِ محمد کی محبت پر جان دی وہ شہید مر ا کی مصداق درجہ ¿ شہادت حاصل کر لیا۔ حاضرین نے یہ تمنا ظاہر کی کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ایسی ہی مثالی موت عطا فرمائے آمین۔ اسکے بعد شرکاءنے پچھلے دس دنوں میں کچھ ہلڑ باز مفاد پرستوں کے ہاتھوں قوم و ملت کی رسوای ¿ اور سب سے بڑھ کر جنابِ زینب کے فضای ¿ل سے انکار کے جو واقعات پیش آئے ہیں اُن تفصیل سے غور کرنے کے بعد درجِ ذیل اعلان جاری کیا۔انتہای ¿ افسوس کی بات ہے کہ ایک نام نہاد ” شیعہ دھرم گرو“نے مییڈیا کے ہاتھوں اپنی مٹی پلید کرانے اور ایک مناظرہ سے کمال بزدلی اور نا اہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاگ کھڑے ہونے کی خفت مٹانے کی خاطر اور خود اور اپنے بھارجوں کے ذریعہ پوری بے حیای ¿ اور بے شرمی کے ساتھ یہ کہا کہ جنابِ زینبِ کبریٰ کو کوفہ و شام میں تقریر اس لی ¿ے کرنی پڑی کیونکہ وہ ”مجبور“ تھیں اور یہ کہ دربارِ شام میں انہوں نے کوی ¿ تقریر ہی نہیں کی تھی۔ ایسا کہنے والے وہ لوگ ہیں جو کربلا اور اہلیبیت کے مشن کو مسخ کر کے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کربلا سے سبق لے کر انکی اپنی لوٹ کھسوٹ کے خلاف آواز نہ اُٹھای ¿ں۔ قبریں بیچنے والے اوقاف بیچنے والے جناب زینب اور جناب فاطمہ کا نامِ نامی بھی اپنے مفاد کی خاطر بیچ کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ جناب زینب ایک لمحہ کے لی ¿ے بھی مجبور نہ تھیں کیونکہ اول تو یہ کہ اگر وہ بد دعا کے لی ¿ے لب ہلا بھی دےتیں تو کوفہ اور شام پلک جھپکتے عاد اور ثمود کی بستیوں کی طرح عذابِ الہٰی سے نیست و نا بود ہو جاتے۔ دوسرے یہ کہ ہر وقت چوتھے امامؑ انکے ساتھ موجود تھے تو اگر جنابِ زینب چاہتیں تو اُن سے کہتیں کہ میں عورت ہوں تو اے بیٹا آپ ان بد بختوں کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرما دیں۔ یا پھر خودامام وقتؑ ان سے کہتے کہ پھوپی اماں میں موجود ہوں عورتوں کا کام تقریریں کرنا نہیں ہے اس لی ¿ے آپ زحمت نہ کریں میں تقریر کی ¿ے دیتا ہوں۔ تیسرے یہ کہ واقعہ ¿ کربلا کوی ¿ اتفاقی حادثہ نہیں تھا جس میں مردوں کے سر اور عورتوں کی چادریں مجبوری میں ضایع ہو گی ¿ ہوں۔ بلکہ یہ ایک مشن تھا جِس کی پیشن گوی ¿ خود رسول فرما گی ¿ے تھے اور جِس میں شامل ہر شخص یہاں تک کہ شیر خوار علی اصغرؑ کا رول پہلے سے طے اور معلوم تھا۔ اگر عورتوں کاانقلاب کو لیڈ (lead) کرنے کے لی ¿ے آگے آنے سے زیادہ ضروری گھرداری کرنا ہوتا تو جناب زینب وغیرہ مدینہ میں رُکتیں خطبہ دینے اور اشاعت پیغام حسینی کو لیڈ(lead) کرنے کربلا کے قافلے میں نہ آتیں۔ لہٰذا انہیں مجبور کہہ کر اُن کی ایسی ہتک عزت کی گی ¿ی ہے جس کی نظیر کسی شیعہ کی زبان سے تو ہر گز نہیں ملے گی۔پھر اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو سکتا ہے کہ جنابِ زینب نے دربار میں خطبہ نہیں دیا۔ انہوں نے ، جناب ام کلثوم نے اور جناب فاطمہ بنت حسینؑ اور جناب سید سجادؑ نے دربارِ ابنِ زیاد میں خطبے د ی ¿ے ان کا ذکر شیخ عباس قمی اپنی کتاب منتہیٰ الاعمال میں اور باقر الشریف القرشی اپنی کتاب حیات ال اما م ا لحسینؑ کی تیسری جلد کے صفحہ ۰۴۳ پر ابن طاوس کی کتاب الحوف کے حوالے سے کرتے ہیں اور جناب زینب نے جو تاریخ ساز خطبے دربارِ یزید میں دی ¿ے انہیں تفصیل سے حجت الاسلام علامہ سید ابن حسن نجفی کی کتاب ” حضرت زینبؑ کے تاریخ ساز اور عہد آفرین خطبے“ کے صفحہ ۵۳ پر پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب ادرہءتمدن اسلام کراچی نے شایع کی ہے۔ یہی خطبہ سازمانِ تبلیغاتِ اسلامی ایران کی شایع کردہ کتاب ”اہلیبیت اطہارؑ کی مختصر سوانح حیات “ میں بھی صفحہ ۷۲۱ درج ہے۔ اس کتاب کے مصنف ہیں۔ یاد رہے کہ دربارِ ابن زیاد اور دربارِ یزید میں امام وقت ہمارے چوتھے امامؑ موجود تھے اور انہوں نے خود اپنے خطبے بھی ارشاد فرمای ¿ے تھے مگر انھوں نے اپنے بہن اور پھوپیوں کو یہ کہہ کر نہیں روکا کہ عورت کا کام لیڈری کرنا نہیں ہے اس لی ¿ے آپ زحمت نہ کریں میں امام وقت خود اس فریضہ کو انجام دینے کے لی ¿ے کافی ہوں۔ جناب زینب کے اس تاریخ ساز کارنامے کا انکار کر کے در اصل انکی اس عدیم المثال فضیلت کا انکار کیا گیا ہے کہ وہ فاتحِ شام تھیں۔ جسکے لی ¿ے ساری دنیا انکی عزت کرتی ہے اور جس کا ذکر علامہ اقبال نے اپنے ایک مشہور فارسی شعر میں کیا ہے کہ اﷲ سے محبت میں دی جانے والے قربانیوں کی داستان کے بس دو ہی حصے ہیں پہلے کا نام کربلا ہے اور دوسرے کا دمشق۔ پہلا حصہ حسینؑ نے لکھا اور دوسرا زینب نے۔ ان کی اس عظیم فضیلت کا انکار کوی ¿ دشمنِ اہلیبیت ہی کر سکتا ہے۔ اﷲ کی لعنت ہو اہلیبیتؑ کے فضای ¿ل کا انکار کرنے والوں پر اور ان کے مراتب کو کم کر کے بیان کرنے والوں پر۔رہ گی ¿ بات کربلا کے علاوہ خواتین کے سیاسی معاملات میں حصہ لینے کی تو ہم حجتہ الاسلام عقیقی بخشای ¿ش کی مذکورِ بال کتاب سے کچھ سطور آپ کی خدمت میں جناب فاطمہ زہرا کے بارے میں پیش کر رہے ہیں:” ۔۔ اور معرکہ ¿ جنگ میں مجروحین اور زخمیوں کی مدد فرماتی تھیں، عالم سیاست میں اسلام کی ایک دلیر و بہادر رہنما، سچی مجاہد اور نہ تھکنے والی ایک انقلابی خاتون تھیں۔۔۔آپ صرف خاتونِ خانہ نہ تھیں بلکہ آپ خاتونِ عمل، خاتونِ پیکار، اور حق کی راہ میں ایک دلیر اور رزمندہ خاتون تھیں“یہ کہنا کہ آج کی مسلم خواتین اُن کی بات نہ کریں لوگوں کو اہلیبیت سے دور رکھنے کی ایک سونچی سمجھی سازش ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر شیعہ مرد خود کو حسینؑ کے طرزِ عمل کی پیروی کرتے کرتے حُر اور جَون جیسا اور شیعہ عورتیں زینب و ام کلثوم ؑ کی پیروی کرتے کرتے خود کو زوجہ ¿ وہب جیسا بنانے کی کوشش نہ کریں تو کیا اسلام سے پہلے کے جاہل سماج کی عورتوں سے اپنا موازنہ کریں جنِ کی وقعت بقول مورخ انکے سماج میں ”ایک اونٹ سے بھی کم تر تھی“؟اخیر میں تمام مومنین و مومنات سے گذارش کی گی ¿ کہ تمام نیوز چینل اور معلوماتی چینل زیادہ سے زیادہ دیکھیں سبھی اخبار زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور اپنی فہم اور سونچنے کی طاقت کو زیادہ سے زیادہ بڑھای ¿ں تاکہ جہالت اور جاہلانہ پرہوگنڈوں سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اسکے ساتھ ساتھ تمام فحش انٹرٹینمنٹ چینلوں کے پوری طرح ترک کر دیں اور اپن وقت زیادہ سے زیادہ مطالعہ پر صرف کریں۔ جہاں تک خواتین ریزرویشن ب،ل کا تعلق ہے اسکا شریعت یا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اس لی ¿ے مسلمان اس کے نام پر سیاسی پارٹیون کا کھلونا نہ بنیں۔ وہ اپنی تعلیم، صلاحیتوں اور جرئت مندی کا معیار اتنا بلند کر لیں کہ ان کی لیاقت او قابلیت کی وجہ سے اپنی آبادی کے تناسب سے بھی زیادہ تناسب میں معاشرے کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک پہونچ کر بہترین اسلامی معیار کے مطابق وطنِ عزیز، اقوامِ عالم اور عالمِ انسانیت کی بھلای اور نجات کے کام کر سکیں۔

جاری کردہ لائق علی

Wednesday, March 17, 2010

Maulvi Kalbe Jawad– A Saga of Vested Self Interest

Maulvi Kalbe Jawad– A Saga of Vested Self Interest
Summary

The stand of the self styled and self proclaimed Shia Muslim religious leader Maulvi Kalbe Jawad on women is only one part of his nefarious designs to exploit the Shias in particular and Muslims in general for his personal gains. Since his return from Iran, he is pursuing his one point mission of extorting money from the Shia in the name of Khums, thick fee packets for reciting Majlis, heavy charges running into Rs.60-70 k by selling space for graves in the Imambara Ghufranmaab, and by bargaining with political parties for Muslim votes, and earning the favors of land sharks and builders by pushing their names through the corridors of power in the State for positions in the Shia Waqf Board and other offices with good opportunity for plunder. He has no known/declared source of income, yet he lives lavishly - Traveling heavily in the country and overseas mostly by air. To maintain all this he has to spread ignorance and confusion, exploit his position of the Pesh Namaz of Asafi Masjid and the holy pulpit for spreading serious lies, rumors, and for character assassination of any one who dares oppose him or even ask a question, and threatening and bullying any one he perceives as a threat to his activities, through his goons .

Unfortunately, the governments, political parties and the media looking at the crowd behind him in the Friday prayer and in the Majlises recited by him think that he is a popular unquestioned leader of Shias, which he is not. The crowd behind him in the prayer or in the Majlis has not gone there to listen to him. It is a crowd of devotees which regularly visits these places and will do so whether Kalbe or someone else leads the prayer.
People, who opposed his ways openly, have recently died in quick succession under mysterious circumstances.
A saga of some of his activities reported by the Urdu press in Lucknow is presented here. The national media will do a great service in investigating what is reported and bringing it to the public at large, before it is too late!

If you watched him on IBN 7 minutely on March 14, after noon, you must be able to recall that the self styled leader of the Shia Muslim community in India Maulvi Mr. Kalbe Jawad, claimed that he believed in mixing religion (read – clergy) with politics. Well, I am sure no one in a democratic country could have an objection to that, provided Mr. Kalbe meant a healthy politics or statesmanship, which he does not. What he meant from politics was exploitation of brute force of power – power to bargain with the political parties for Muslim votes, not for the, economic, political or educational empowerment of that community but for his own personal vested interests.
He announced this great idea of permissibility of the ulema meddling with earthly politics in a very dramatic manner from the pulpit in a Friday Prayer a few years after his return from Iran. He told the people that he had miraculously found a writing of his late father Maulan Mr. Kalbe Abid, which read that he must enter politics. After being assured that the public was not going to object to the meddling of a holy man in these affairs, he slowly became close to Mr. Mulayam Singh Yadav and for this purpose in order to prove his might, and to claim and own the crowds, he actively participated in and addressed to big Muslim protest processions. It will not be out of place to remind here that in all those procession which all had his very timely blessings, thousands of Muslim girls and women had marched shouting slogans side by side their brethren but the holy man of ours never urged them to go back and sit at home waiting for their husbands to come back, and engage in their sacred duty of baby making, as (his version of) Islam did not permit women to take leadership roles or to make speeches/shout slogans standing on the side of a man.
He started inventing miracles and narrating dreams to prove himself to be the chosen leader of the Shias, people objected[i] to his tricks the main among them was led by late Mr. Jawed Murtaza, Senior Advocate of Allahabad High Court (Lucknow Bench), in the name of Ali Congress[ii], working as an ideological non-political organization of Shia Muslims dedicated to a three point formula viz, Promoting Unity Amongst Different Sections of Muslims, Promoting Unity and Trust between Muslims and Non-Muslims and Supporting Monotheism and Opposing Polytheism.
After elections, as happens in a democracy, the power dynamics in the State changed! The self styled sacred man demonstrated a high level of Machiavellian Intelligence. One fine morning the news papers carried a report of a great meeting of Mr. Kalbe with the new chief minister Bahan Kumari Mayawati ji.
The Maulvi was accompanied by his confidante Wasim Rizvi, a land shark and builder, who was, on recommendations of Mr. Kalbe made the Chairman of Shia Waqf Board[iii] that governs property worth billions of rupees throughout the State in Shia Waqfs. The said Rizvi, became very controversial in the local Urdu Press later on, but always backed and was backed by Mr. Kalbe, They remain good trusted friends so far.
In the ensuing parliamentary elections the Maulvi, gave a call to the Muslims to support the BSP candidate Mr. Akhilesh Das. However since he had no public following Mr. Das lost the elections[iv]. In the said elections, the Ali Congress as usual had maintained its non-political character and requested the Muslims to vote on the voice of their own conscience and not on the dictates of any particular Maulvi[v].
To save his face Mr. Kalbe announced an unauthorized decree, of dissolving Ali Congress and forming a so called All India Ali Congress with a few office bearers of his own chosing[vi]. Ali congress clarified that Mr. Kalbe had no authority to intervene in its affairs and the organization continues and will continue functioning with its three point agenda[vii]. Mr. Kalbe, enraged with the defiance concocted very serious allegations against Ali Congress of being agents of Nadwa and Saudi Arabia against Shias. He recalled two anecdotes from out of the thin air according to one Mr. Shamim Kazim, “Ex- President of BCCI” had informed him that someone had brought Rs. 40,00,000/= to him given by the Saudi Embassy to be used against Azadari (the Moharram Mourning of the Martyrdom of Hazarat Imam Husain PBOH, by the Shias) and according to the other one a student of Nadwa met him at Allahabad and informed him that members of Ali Congress used to come to Nadwa and talked against Shias[viii] .
On enquiry it was known that Mr. Shamim Kazim refered by Mr. Kalbe was in fact ex-Chairman of the Bombay Mercantile Cooperative Bank Ltd., and lived at, Noida (Mobile No. 09818454747). Little wonder that Mr. Kalbe did not know any thing about BCCI or BMC and thus confused between the two while concocting the story right from the holy pulpit. Any how if it was true it was an allegation of a very serious crime not only against Ali Congress but also a foreign embassy and Mr. Shamim Kazim, and the reporting Maulvi too as they did not report such a serious matter of foreign conspiracy to the law enforcing authorities of India. Further, this utterance was seriously hate-provoking and had the potential to instigate the Shias against Sunnis, and thus had law and order implications. In another sermon the Maulvi said that one Mr. Mushtaq Aamir, who is working with the media, had informed him about the above alleged nexus of Nadawa and Ali Congress[ix].
When Mr. Shamim Kazim was contacted, he plainly refused telling any such thing to Mr. Kalbe and called the anecdote a plain lie. Similarly, through his letter to the Maulvi a copy of which was released to the press to Mr. Mushtaq Aamir of Allahabad plainly denied having ever told any such thing and asked the Maulvi to tender an apology for publicly assigning a false blame to him[x]. Ali Congress issued a press note and demanded Mr. Kalbe to either prove the allegations or to tender an apology[xi].
On 13th June Ali Congress called an open meeting of Muslims in the Historical Chota Imambara, Lucknow and detailed about its ideology and message. The meeting was attended by many hundred people was a grand show of peaceful expression of ideology and opinions it got a wide coverage in the Urdu press[xii].
It was later known that while the peaceful meeting was under progress Mr. Kalbe’s armed goons had encircled the venue to disrupt the function but because of alert police presence, were unable to make any such misadventure. They made themselves content with shouting abuses against the organizers when every one had left[xiii]. On 19th June Mr. Kalbe again resorted to brute force by abusing Ali Congress and its organ Pyam-e-nau from the Friday Pulpit and getting copies of Pyam-e-nau trampled torn and thrown into the pond of Asafi Masjid, Lucknow[xiv].
Since despite repeated demands the Maulvi neither produced any proof in support of his allegations nor tendered an apology, Ali Congress pressed a demand with the administration of the Husainabad trust to change the Pesh Namaz of Juma as according to the Shia theology a Shia was not allowed to recite prayer behind an unjust person and Mr. Kalbe had proved himself to be unjust by his malafide and false public utterances that too from the holy pulpit. The Memorandum was handed over to Mr. A. K Pathak ADM[xv]
This was followed by a tirade of abusive press releases by the goons of the Maulvi we are quoting a few:
They abused Mr. Jawed Murtaza for asking the help of “non-Muslims (the ADM)” against Mr. Kalbe[xvi] .Thus trying to stoke Hindu-Muslim hatred. They threatened Jawed Murtaza of crushing his bones[xvii]. Their goons manhandled Mr. Zameer Naqvi, a free lance journalist because he had sympathized with Ali Congress[xviii] . They created a so called Shariah Court and threatened Mr. Jawed Murtaza of being condemned by it [xix]. In addition to these there were innumerous slanderous pamphlets which were distributed by Mr. Kalbe Mr. Jawed Murtaza fell sick and ultimately died in November. In March another strong member of the group and a known journalist Mr. Alyasa Rizvi died after a very short illness. He was also made a target of slanderous pamphlets. These very quick deaths of the members of the group make the circumstances under which they died doubtful. Or at least, indicate to the extreme mental torture that these brave men faced[xx].
It is clear from the way Mr.Kalbe behaved on the TV Channel that he is an arrogant fascist a misogynist and a pathological liar. There are not many who dare to oppose his nefarious designs in the Muslim Community, though no reasonable or educated Muslim likes him. It is his nexus with the land mafia which is his strength. It is expedient that before he becomes an incurable cancer, he must be corrected, contained, or at least properly identified by the public at large. We request the media to kindly step in and investigate the following:

1. The truth of his allegations with respect to Mr. Shamim Kazim and Mr. Mushtaq Aamir.
2. The sources of his income. Whether the trusts and waqfs managed by him are being properly audited.
3. His nexus with builders and land sharks specially Mr. Wasim Rizvi.
4. The circumstances under which Mr. Jawed Murtaza and Mr. Alyasa Rizvi died. Incidentally these are the two people Mr. Kalbe mentioned by name in his sermon[xxi]
Further the media may please stop calling him a Shia Dharm Guru. He has nothing to do with Dharm and does not represent the Shia community.


[i] Pyam-e-Nau,Lucknow 01-02-2008
[ii] http://www.deenfahmi.org, http://www.alicongress.in or search youtube for “alicongress’
[iii] http://www.thefreelibrary.com/Aspirants+gear+up+as+Waqf+Board+polls+draw+near.-a0220698274
[iv] http://findarticles.com/p/news-articles/times-of-india-the/mi_8012/is_20090512/ulema-condemn-jazia-sikhs-taliban/ai_n39570951/
[v] Awadhnama, Lucknow 29-04-2009
[vi] Awadhnama, Lucknow and Sahafat, Lucknow 19.05.2009
[vii] Sahafat and Awadhnama 21.05.2009
[viii] Clip of the said sermon is available at youtube at http://www.youtube.com/watch?v=bZ_oV2NYt2I
[ix] Sahafat , Lucknow 04.07.2009
[x] Sahafat, Lucknow 12.07.2009, Awadhnama, Lucknow 12.07.2009
[xi] Sahafat, Lucknow 08.06.2009,
[xii] Sahafat, Lucknow 14.06.2009, and Awadhnama, Faizabad 15.06.2009
[xiii] Awadhnama, Lucknow 16.06.2009
[xiv] Sahafat, Lucknow 20.06.2009
[xv] Sahafat, Lucknow 12.07.2009
[xvi] Awadhnama, Lucknow 15.07.2009
[xvii] Awadhnama, Lucknow 18.07.2009
[xviii] Awadhnama, Lucknow 21.07.2009
[xix] Awadhnama,Lucknow 17.07.2009, 20.07.2009, 21.07.2009, 22.07.2009, 24.07.2009, 25.07.20
[xx] Awadhnama, Lucknow and Sahafat, Lucknow 15.03.2010
[xxi] http://www.youtube.com/watch?v=bZ_oV2NYt2I

Tuesday, March 16, 2010

CONDOLENCE MEETING FOR late YASA RIZVI by ALI LAWYERS ASSOCIATION.

ALI LAWYERS ASSOCIATION

Noor Bari Lucknow Mob. No.9451064525

Ref.No............                                                    . Date...........

برائے اشاعت

سید الیسع رضوی ایڈوکیٹ کی اچانک رحلت پر علی لائرس ایسوسی ایشن کا تعزیتی جلسہ

لکھنو ¾۵۱مارچ علی لائرس اسوسی ایشن کا ایک تعزیتی جلسہ تنظیم کے صدر جعفر رضا ایڈوکیٹ کی صدارت میں منعقد ہوا۔جلسے میں شریک وکلا نے علی لائرس ایسوسی ایشن کے Founder Memberسید الیسع رضوی ایڈوکیٹ مرحوم کے اچانک انتقال پر ملال ،شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔مقررین نے مرحوم کی قومی ،دینی ،ملی و سماجی بے لوث خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ الیسع رضوی لکھنو ¾ی تہذیب ،علم و ادب کی ایک جامع مثال ہونے کے ساتھ ساتھ خوش اخلاق،شائستہ زبان ،نڈر و بے باک،مخلس کردار کے حامل تھے اور فی سبیل اللہ کام کرنے والے ایک با عمل اور پاکیزہ کردار کے انسان تھے۔مرحوم نے ہمیشہ سیرت محمد ُ و آل محمد ُ اور پیغام کربلا پر عمل کرنا اپنا نصب العین بنا رکھا تھا۔انہوں نے اپنے زمانے کے ابو جہل و ابو لحب ،یذید اور دیگر طاغوتی طاقتوںتمام عمر مورچہ لیا اور کبھی باطل کے آگے سر نہیں جھکایا۔ مرحوم کی زندگی کا مقصد قوم میں دینی،سماجی اور فکری بیداری کو پیدا کرنا رہا۔الیسع رضوی کی پوری زندگی ایک مکمل تحریک تھی اور وہ تحریک عزاداری،تحفظ اوقاف اور تحریک دین فہمی میں الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کے شانہ بہ شانہ شریک ہوکر گزشتہ ۲۳ سال سے ملت کی بے لوث خدمات انجام دیتے ہوئے پیشہ ور ،بے عمل مولوی اور علماءسو جو صرف مذہبی لباس پہن کر قوم کے ٹھیکے دار بن بیٹھے ہین اور جو سرکاری مرعات حاصل کرنے کی غرض سے پا برہنہ دربار میں حاضری لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں اور اپنے طور پر قوم کے ووٹوں کا سودا کرنے میں مصروف نظر آتے ہیںکے حقیقی کردار سے بھی قوم کے نوجوانوں کو آگاہ کرتے رہتے تھے۔ مقررین نے یہ بھی کہا کہ مرحوم الیسع رضوی ایک ساتھ کئی شعبوں سے ننسلک تھے ،وہ ایک کامیاب صحافی بھی تھے اور قوم کے تھیکے داروںاور پیشہ ور مولویوں کی کار گذاریوں پر باریک نظر رکھتے تھے۔ملت کو نقصان پہنچانے والے ہر اس قدم و عمل کی مخالفت کرتے تھے جس سے پیشہ ور مولوی اپنے افراد خاندان و متعلقین کوفائدہ پہنچانے کے لئے کرتے تھے۔انہوںنے ایک خاص طبقہ اور گھرانے کے مولویوں کی خود نمائی کی پر زور مخالفت کی تھی ۔ ایک حقیقی اور سچے محب اہلیبیت ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے مرحوم نے اپنے ذاتی فائدوں یا تعلقات کو کبھی ترجیح نہیںدی اور اسی روش پر گامزن رہتے ہوئے مرحوم نے جنکے ایک خاص مولوی گھرانے سے تعلقات سب پر عیاں تھے جب محسوس کیا کہ اس خاص گھرانے سے تعلق رکھنے والے ایک مولوی اور خود ساختہ قائد اور اسکی تشکیل شدہ ٹولی نے اللہ اور آئمہ سے منصوب اوقاف کی جائدادوں پر بداعمال،شراب خور اور جواری افراد کو اپنی سرپرستی میں مسلط کر دیا ہے تو مرحوم نے اعلانیہ طور پر اپنے ذاتی نقصان یا فائدہ کی قطعی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنی آواز احتجاج کو بلند کیا اور تمام ذہنی اور روحانی اذیتوں کو برداشت کرتے رہے لیکن اوقاف میں ہونے والی خرد برد اور لوٹ کھسوٹ کی مخالفت میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔

جب مرحوم الیسع رضوی کی کاوشوں اور قربانیوں سے قوم کے حالات میں بہتری نمایاں ہونے لگی تھی اور بیداری کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے تو اچانک ایک مختصر بیماری کے چلتے مرحوم اپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔ایسا محسوس ہوتا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کہ اللہ اپنے مخصوص اور محبوب بندوں سے مخصوص کام کرانے کے بعد فورََ اپنے پاس بلا لیتا ہے اور اُسکی تحریک کو مزید آگے بڑھانے کے لئے دوسرے نیک بندوں کو ذمہ داری سونپ دیتا ہے اور انکی ہدایت کرتا رہتا ہے لہٰذا یہ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم جناب جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی کے نیک مشن اور تحریک کو جاری و ساری رکھیں اور اپنے مومن ہونے کا فرض ادا کرتے رہیں۔

آخر میں مرحوم کی مغفرت کے لئے اللہ سے دعا کی گئی اور انکے اہل خاندان و پسماندگان کے لئے صبر جمیل کی بھی اللہ تعالی سے دعا کی گئی۔

جاری کردہ

ذاکر حسین

Monday, March 15, 2010

His addresses during Muharram show how underqualified is he to address such gathering

It is not very strange that Mr Kalbe Jawwad has aired such reactionary, illogical, unislamic and highly objectionable statement regarding (Muslim) women. All those who are fammilliar with Mr Jawwad's intellect level, background and the company that he possesses are not surprised on this matter. His credibilty and sincerety has never been undoubtful. The instances when he levelled false allegations against Ali Congress, a Lucknow based social organisation have proved him unjust and untrue at all levels. His sermon can be viewed on YouTube.


His latest statement is an attempt to distort the image of (Shia) Islam. He has proved himself unfit and inept to lead Friday prayers as he has violated the conditions required for this task.

A large section of community has been feeling for a long time that Mr Jawwad should immediately be deprived of this pious duty as he has damaged the importance of Imame Jumah.

His addresses during Muharram show how underqualified is he to address such gathering.

If Mr Jawwad has some reservations for women regarding their ability to participate in politics, he should have reflected and transpired to the lady chief minister during his meeting with her. He should have sermoned to women candidate for MP seat from Lucknow during his meeting with her. The meeting photograph has been pulished in papers.

Mr Jawwad should study the contributions of women rulers like Razia Sultana, staunch fighters like Chand Bibi, icon of first freedom fight like Begum Hazrat Mahal, National leader Aruns Asif Ali, writers like Kamla Das and many more to name.

Is it not an example of double standard that at one place Mr Jawwad airs such derogatory remarks and on the other hand he tries to trade using the name of Justice Karamat Husain?

It is now urgently needed to remove him from the post of Immame Juma or another Prayer should immediately be started at other suitable place.





Sent from my iPhone

A. Mehdi
الیسع رضوی کی مجلس پنجم کالے امام باڑہ میںمنعقد ہوئی

تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار میٹنگ میں سب سے پہلے جناب الیسع رضوی طاب ثراہ کو جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکی تحریک عزاداری و تحریک اوقاف میں انکی نا قابل فراموش بے لوث خدمات کی ستائش کی گئی اور انکے ایصال ثواب کے لئے سورة فاتحہ کی تلاوت کی گئی اور جناب الیسع رضوی مرحوم کی مجلس پنجم میں مولانا سیف عباس نقوی کی تقریر کے اقتباسات دوبارہ دوہرائے گئے اور مولانا کی حق گوئی کے لئے انکی ستائش کرتے ہوئے کہا گیا کہ جاوید مرتضی صاحب اور یسع رضوی صاحب کی نا وقت اموات ان حالات کو مشکوک بناتے ہیں جن میں ان حق گو یوں اور جانبازوں کی جان گئی۔ اسکے علاوہ قومی مسائل میں ان دونوں افراد کی حساسیت اور ادارہ و اوقاف خوروں کی مورچہ بندی ان دونوں کی ذہنی اذیتوں کا سبب بنیں۔
جناب الیسع رضوی طاب ثراہ کی مجلس پنجم میں کثیر تعداد میں علماء،صحافی ،ووکلا ،سیاسی لیڈران ودانشور افرادنے شرک کی ۔ خصوصی طور سے سابق وزیراور مرحوم الیسع رضوی کے قریبی و پرانے دوست محمد اعظم خاں رامپور سے مجلس میں شرکت کرنے کے لئے آئے۔

مولانا سیف عباس صاحب نے اپنی جامع تقریر میںفرمایا کہ الیسع رضوی صاحب حق گو تھے اور چاہے تحریک عزاداری ہو یا تحریک تحفظ اوقاف ہو الیسع رضوی صاحب مرحوم نے کبھی حق کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اسمیں اپنی کسی رشتہ داری کا بھی خیال نہیں کیا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ہر قدم پر ایک’ کمپرومائز‘ سمجھوتہ کر کے اپنے دنیاوی فائدے کر سکتے تھے مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں کیا اور سچے حسینی کی طرح حق کے ساتھ رہے۔انہوں نے کہا کہ اگر مولوی اپنی موت کو ہر وقت یاد رکھے تو وہ حق بولنے لگے اور اپنی موجودہ دنیاوی زندگی میں اپنی موجودہ روش چھوڑ دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عالم کی پہچان اسکے سر پر سات میٹر کپڑے کے عمامے یا عبا و قبا سے یا کسی خاص ملک یا مدرسہ سے پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوتی۔عالم کی پہچان تو خود امام جعفر صادق نے بتا دی ہے کہ جس کا قول و عمل یکساں ہو۔وہ عالم ہے جس کے عمل اور قول میں تضاد ہو خواہ وہ کوئی بھی لباس پہنے وہ جاہل ہے۔ نشست میں’ کلب صاحب‘ کے سابقہ بیان پر جس میں انہوں نے خواتین کا کام بچے پیدا کرنا بتا کر اسلام کی اہانت کی ہے۔

شرکاءنشست نے سخت احتجاج کیا۔المیہ یہ ہے کہ دوسری قومیں پریس ،میڈیا وغیرہ ان کو شیعوں اور اسلام کا نمائندہ جان لیتے ہیں۔ اور اس سے پوری قوم کی بے عزتی ہوتی ہے۔اس کا بس ایک علاج ہے وہ یہ کہ قوم کُھل کر ان سے اظہار برات کرے اور ہر جگہ ان کا کھلا اور مکمل بائکاٹ کریں۔اگر عورتوں کی قیادت اور فعال شمولیت بہت ضروری نہ ہوتی تو رسول میدان مباہلہ میں جناب سیدہ کو لیکر نہ گئے ہوتے،گر یہ جنگ ایک خاتون قائد کی موجودگی کے بغیر فتح ہونا ممکن نہ تھی۔ خود تحریک عزاداری کی کامیابی لکھنو کی مومنات کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔خود کلب جواد صاحب ان مظاہروں اور احتجاجات سے ذاتی فائدے اٹھاتے رہے ہیں جن میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔لکھنو کی مومنات کو چاہئے کہ کلب جواد صاحب کے اس اسلام دشمن بیان سے قطعی دل برداشتہ نہ ہوں اور سیرت جانب زینب کبری پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو اپنی بہترین خدمات سے فائدہ پہنچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش جاری رکھیں۔

اشد ضروری ہے کہ کسی عادل عالم دین کا انتخاب کیا جائے تاکہ وہ مناسب جگہ اور موقع پر نماز جمعہ قائم کریں اور دہاں مومن و مومنات وہاں نماز پڑھیں۔

PRESSNOTE OF MAJLIS-E-PANJUM OF late YASA RIZVI

ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                                         Date............

برائے اشاعت

جسکا قول و عمل ایک وہ عالم ،قول و عمل میں تضاد وہ جاہل :مولانا سیف عباس

الیسع رضوی کی مجلس پنجم کالے امام باڑہ میںمنعقد ہوئی۔

لکھنو ¾۴۱مارچ تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار میٹنگ میں سب سے پہلے جناب الیسع رضوی طاب ثراہ کو جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکی تحریک عزاداری و تحریک اوقاف میں انکی نا قابل فراموش بے لوث خدمات کی ستائش کی گئی اور انکے ایصال ثواب کے لئے سورة فاتحہ کی تلاوت کی گئی اور جناب الیسع رضوی مرحوم کی مجلس پنجم میں مولانا سیف عباس نقوی کی تقریر کے اقتباسات دوبارہ دوہرائے گئے اور مولانا کی حق گوئی کے لئے انکی ستائش کرتے ہوئے کہا گیا کہ جاوید مرتضی صاحب اور یسع رضوی صاحب کی نا وقت اموات ان حالات کو مشکوک بناتے ہیں جن میں ان حق گو یوں اور جانبازوں کی جان گئی۔ اسکے علاوہ قومی مسائل میں ان دونوں افراد کی حساسیت اور ادارہ و اوقاف خوروں کی مورچہ بندی ان دونوں کی ذہنی اذیتوں کا سبب بنیں۔

جناب الیسع رضوی طاب ثراہ کی مجلس پنجم میں کثیر تعداد میں علماء،صحافی ،ووکلا ،سیاسی لیڈران ودانشور افرادنے شرکت کی ۔ خصوصی طور سے سابق وزیراور مرحوم الیسع رضوی کے قریبی و پرانے دوست محمد اعظم خاں رامپور سے مجلس میں شرکت کرنے کے لئے آئے۔

مولانا سیف عباس صاحب نے اپنی جامع تقریر میںفرمایا کہ الیسع رضوی صاحب حق گو تھے اور چاہے تحریک عزاداری ہو یا تحریک تحفظ اوقاف ہو الیسع رضوی صاحب مرحوم نے کبھی حق کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اسمیں اپنی کسی رشتہ داری کا بھی خیال نہیں کیا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ہر قدم پر ایک’ کمپرومائز‘ سمجھوتہ کر کے اپنے دنیاوی فائدے کر سکتے تھے مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں کیا اور سچے حسینی کی طرح حق کے ساتھ رہے۔انہوں نے کہا کہ اگر مولوی اپنی موت کو ہر وقت یاد رکھے تو وہ حق بولنے لگے اور اپنی موجودہ دنیاوی زندگی میں اپنی موجودہ روش چھوڑ دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عالم کی پہچان اسکے سر پر سات میٹر کپڑے کے عمامے یا عبا و قبا سے یا کسی خاص ملک یا مدرسہ سے پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوتی۔عالم کی پہچان تو خود امام جعفر صادق ؑ نے بتا دی ہے کہ جس کا قول و عمل یکساں ہو۔وہ عالم ہے جس کے عمل اور قول میں تضاد ہو خواہ وہ کوئی بھی لباس پہنے وہ جاہل ہے۔ نشست میں’ کلب صاحب‘ کے سابقہ بیان پر جس میں انہوں نے خواتین کا کام بچے پیدا کرنا بتا کر اسلام کی اہانت کی ہے۔شرکاءنشست نے سخت احتجاج کیا۔المیہ یہ ہے کہ دوسری قومیں پریس ،میڈیا وغیرہ ان کو شیعوں اور اسلام کا نمائندہ جان لیتے ہیں۔ اور اس سے پوری قوم کی بے عزتی ہوتی ہے۔اس کا بس ایک علاج ہے وہ یہ کہ قوم کُھل کر ان سے اظہار برات کرے اور ہر جگہ ان کا کھلا اور مکمل بائکاٹ کریں۔اگر عورتوں کی قیادت اور فعال شمولیت بہت ضروری نہ ہوتی تو رسولﷺ میدان مباہلہ میں جناب سیدہؑ کو لیکر نہ گئے ہوتے،گر یہ جنگ ایک خاتون قائد کی موجودگی کے بغیر فتح ہونا ممکن نہ تھی۔ خود تحریک عزاداری کی کامیابی لکھنو ¿ کی مومنات کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔خود کلب جواد صاحب ان مظاہروں اور احتجاجات سے ذاتی فائدے اٹھاتے رہے ہیں جن میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔لکھنو ¿ کی مومنات کو چاہئے کہ کلب جواد صاحب کے اس اسلام دشمن بیان سے قطعی دل برداشتہ نہ ہوں اور سیرت جانب زینب کبری پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو اپنی بہترین خدمات سے فائدہ پہنچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش جاری رکھیں۔

اشد ضروری ہے کہ کسی عادل عالم دین کا انتخاب کیا جائے تاکہ وہ مناسب جگہ اور موقع پر نماز جمعہ قائم کریں اور دہاں مومن و مومنات وہاں نماز پڑھیں۔

جاری کردہ: لائق علی

MAJLIS-E-PANJUM OF late YASA RIZVI

الیسع رضوی کی مجلس پنجم کالے امام باڑہ میںمنعقد ہوئی
15.03.2010, 12:05am , سوموار (GMT)
لائق علی۔لکھنو
تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار میٹنگ میں سب سے پہلے جناب الیسع رضوی طاب ثراہ کو جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکی تحریک عزاداری و تحریک اوقاف میں انکی نا قابل فراموش بے لوث خدمات کی ستائش کی گئی اور انکے ایصال ثواب کے لئے سورة فاتحہ کی تلاوت کی گئی اور جناب الیسع رضوی مرحوم کی مجلس پنجم میں مولانا سیف عباس نقوی کی تقریر کے اقتباسات دوبارہ دوہرائے گئے اور مولانا کی حق گوئی کے لئے انکی ستائش کرتے ہوئے کہا گیا کہ جاوید مرتضی صاحب اور یسع رضوی صاحب کی نا وقت اموات ان حالات کو مشکوک بناتے ہیں جن میں ان حق گو یوں اور جانبازوں کی جان گئی۔ اسکے علاوہ قومی مسائل میں ان دونوں افراد کی حساسیت اور ادارہ و اوقاف خوروں کی مورچہ بندی ان دونوں کی ذہنی اذیتوں کا سبب بنیں۔

جناب الیسع رضوی طاب ثراہ کی مجلس پنجم میں کثیر تعداد میں علماء،صحافی ،ووکلا ،سیاسی لیڈران ودانشور افرادنے شرکت کی ۔ خصوصی طور سے سابق وزیراور مرحوم الیسع رضوی کے قریبی و پرانے دوست محمد اعظم خاں رامپور سے مجلس میں شرکت کرنے کے لئے آئے۔

مولانا سیف عباس صاحب نے اپنی جامع تقریر میںفرمایا کہ الیسع رضوی صاحب
حق گو تھے اور چاہے تحریک عزاداری ہو یا تحریک تحفظ اوقاف ہو الیسع رضوی صاحب مرحوم نے کبھی حق کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اسمیں اپنی کسی رشتہ داری کا بھی خیال نہیں کیا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ہر قدم پر ایک’ کمپرومائز‘ سمجھوتہ کر کے اپنے دنیاوی فائدے کر سکتے تھے مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں کیا اور سچے حسینی کی طرح حق کے ساتھ رہے۔انہوں نے کہا کہ اگر مولوی اپنی موت کو ہر وقت یاد رکھے تو وہ حق بولنے لگے اور اپنی موجودہ دنیاوی زندگی میں اپنی موجودہ روش چھوڑ دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عالم کی پہچان اسکے سر پر سات میٹر کپڑے کے عمامے یا عبا و قبا سے یا کسی خاص ملک یا مدرسہ سے پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوتی۔عالم کی پہچان تو خود امام جعفر صادق نے بتا دی ہے کہ جس کا قول و عمل یکساں ہو۔وہ عالم ہے جس کے عمل اور قول میں تضاد ہو خواہ وہ کوئی بھی لباس پہنے وہ جاہل ہے۔ نشست میں’ کلب صاحب‘ کے سابقہ بیان پر جس میں انہوں نے خواتین کا کام بچے پیدا کرنا بتا کر اسلام کی اہانت کی ہے
شرکاءنشست نے سخت احتجاج کیا۔المیہ یہ ہے کہ دوسری قومیں پریس ،میڈیا وغیرہ ان کو شیعوں اور اسلام کا نمائندہ جان لیتے ہیں۔ اور اس سے پوری قوم کی بے عزتی ہوتی ہے۔اس کا بس ایک علاج ہے وہ یہ کہ قوم کُھل کر ان سے اظہار برات کرے اور ہر جگہ ان کا کھلا اور مکمل بائکاٹ کریں۔اگر عورتوں کی قیادت اور فعال شمولیت بہت ضروری نہ ہوتی تو رسول میدان مباہلہ میں جناب سیدہ کو لیکر نہ گئے ہوتے،گر یہ جنگ ایک خاتون قائد کی موجودگی کے بغیر فتح ہونا ممکن نہ تھی۔ خود تحریک عزاداری کی کامیابی لکھنو کی مومنات کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔خود کلب جواد صاحب ان مظاہروں اور احتجاجات سے ذاتی فائدے اٹھاتے رہے ہیں جن میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔لکھنو کی مومنات کو چاہئے کہ کلب جواد صاحب کے اس اسلام دشمن بیان سے قطعی دل برداشتہ نہ ہوں اور سیرت جانب زینب کبری پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو اپنی بہترین خدمات سے فائدہ پہنچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش جاری رکھیں۔

اشد ضروری ہے کہ کسی عادل عالم دین کا انتخاب کیا جائے تاکہ وہ مناسب جگہ اور موقع پر نماز جمعہ قائم کریں اور دہاں مومن و مومنات وہاں نماز پڑھیں۔

श्रद्धांजलि Yasa रिज़वी को

Janab Yasa रिज़वी के अचानक निधन और बौद्धिक हलकों में एक बड़ा शून्य पैदा कर दी है. अपने सशक्त और बहुमुखी व्यक्तित्व हमेशा ताकत के सभी जो सत्य और धर्म के लिए काम करने के लिए एक प्रेरणा स्रोत रहा है. Yasa रिज़वी एक व्यक्तित्व नहीं था लेकिन एक क्रांति और अपने आप में एक मिशन. किसी भी संगठन कि प्रगतिशील तत्वों के आधार पर आयोजित किया गया था उसे अपनी स्वाभाविक सदस्य के रूप में मिला.


Yasa रिज़वी लखनवी संस्कृति, जिसमें प्राचीन और आधुनिक विचारों के साथ एक चरित्र जीवन में हमेशा मौजूद थे के रहने वाले एक उदाहरण था. Tanzeem अली कांग्रेस के साथ उनके जुड़ाव क्योंकि इसके संस्थापक सदस्य है लेकिन इस्लामी शिक्षाओं और पैगंबर pbu और उनके progeney के एक सच्चे foolower से अवगत होने का इन परिस्थितियों में किया होता नहीं था. वह सिर्फ सच और अपने कार्यों के लिए कसौटी के रूप में धर्म और अपने निजी संबंधों या परिवार के संगठनों के बारे में परवाह नहीं है जब एक गंभीर स्थिति अपने रुख की मांग की है.


Yasa रिज़वी हमेशा एकता के लिए खड़े थे और किसी भी रूप में फूट का समर्थन नहीं किया.


उनके मामले में समझौता नहीं Auqaf में रवैया towrds गबन गुस्से और भ्रष्ट पादरी और उसके एजेंटों लेकिन यह उसे सही रास्ते से विचलित नहीं कर सकता से गंभीर spriritual उत्पीड़न किए गए.


समाज में ज्ञान का Yasa रिज़वी अग्रणी था और वह ऐसे व्यक्ति के रूप में याद किया जाएगा.

Tributes to Yasa Rizvi

The sudden and sad demise of Janab Yasa Rizvi has created a great vaccum in intellectual circles. His forceful and versatile personality has always been an inspiring source of strength to all those who work for truth and righteousness. Yasa Rizvi was not a personality but a revolution and a mission in himself. Any organisation that was organized on the basis of progressive elements found him as its natural member.


Yasa Rizvi was a living example of Lucknawi culture in which a character with antiquity and modern thoughts was always present in living. His association with Tanzeem Ali Congress was not because of being its founding member but aware of Islamic teachings and a true foolower of Prophet pbu and his progeney would have done in these circumstances. He made only truth and righteousness as criterion for his actions and did not care about his personal relations or family associations when a critical situation demanded his stand.


Yasa Rizvi always stood for unity and never favoured schism in any form.


His uncompromising attitude towrds embezzlement in Auqaf incurred anger and severe spriritual persecution from corrupt clergy and its agents but this could not deviate him from right path.


Yasa Rizvi was pioneering figure of enlightenment in society and he will be remembered as such.