عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی ہی اتحاد کی مستحکم بنیاد
30.03.2010, 12:02am , منگل (GMT)
تنظیم علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جایزہ لےنے کے بعد سب سے پہلے صوبائی حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ اُس نے تنظیم علی کانگریس کے ذریعہ اُٹھائی گئی شیعہ عوام کی اس آواز پر دھیان دیا کہ شیعہ وقف بورڈ میںکسی ایک مولوی صاحب کے ایسے نمائیندوں کو جن پر اوقاف کی لوٹ کھسوٹ کا الزام ہے ، بھر دینے کے بجائے ، پڑھے لکھے ذی فہم صاف ستھری شبیہ والے اورمختلف طبقوں کی نمائیندگی کرنے والے افراد کو ممبری کے لئے نامزد کیا جائے۔
ساتھ ہی تنظیم علی کانگریس کے اس مشورہ پر بھی سرکار نے عمل کیا کہ بورڈ میں خاتون ممبران کو بھی نمائیندگی دی جائے۔ اگر چہ یہ نمایندگی ابھی بہت کم ہے مگر ایک اچھی پہل ہے۔تنظیم علی کانگریس شکریہ ادا کرتی ہے تمام عوام کا جنہوں نے تنظیم کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے جائےز امن پسندانہ، قانونی اور مہذبانہ انداز استعمال کرکے اخبارات اور خطوط کے ذریعہ اپنا موقف حکومت تک پہونچایا اور ایسا کرنے میں سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کر کے عوامی روزمرہ زندگی کو درہم برہم نہیں کیا۔تنظیم علی کانگریس شکریہ ادا کرتی ہے میڈیا کا جس نے بیباکی کے ساتھ اور بغیر ڈرے اور خوف کھائے حق کی بات عوام تک پہونچانے کی اپنی ذمہ داری اد ا کی۔
جلسے میں نو منتخب نئے ممبران کو مبارک باد دیتے ہوئے اُن سے گذار ش کی گئی کہ وہ ہر وقت یہ یاد رکھیں کہ اﷲ تعاٰلی نے انکے کندھوں پر امام مظلوم کی جایدادوں کی ذمہ داری ڈالی ہے سو وہ کسی کا بھی خوف کئے بغیر اور اپنی کسی سیاسی یا غیر سیاسی وابستگی کا لحاظ کئے بغیر امام کی جایدادوں کو ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ سے ویسے ہی بچائیں جیسے ایک سچا مومن اگر شام غریباں میدان کربلا میں ہوتا تو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر خیموں کی لوٹ کو روکتا۔ اور اس بات کا خاص طور سے خیال رکھیں کہ ُبری شبیہہ والے جو ایک دو لوگ بورڈ میں ابھی بھی شامل ہو گئے ہیں وہ انہیں حق کے راستہ پر چلنے سے روک نہ سکیں۔
نئے بورڈ کی کامیابی ، عوام میں انکی ہردل عزیزی اورتنظیم علی کانگریس کی تائیدکا انحصار اُنکی اسی صلاحیت پر موقوف ہوگا۔ابھی پچھلے دنوں یہ بات بہت زورو شور سے سامنے آئیں کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبران میں سے کچھ نے جنت البقیع میں روضے ڈھائے جانے کی بات سے صاف انکار کر دیا۔ اگر یہ پرسنل لا بورڈ کا آفیشیل نکتہ نظر نہیں تھا تو اس سے امید کی جاتی تھی کہ وہ اس کی کھل کر تردید کرے گا اور اس بات کو مانے گا کہ جنت البقیع میں مزاروں کو ڈھایا جانا اور اس پر ایک لمبی خاموشی ویسا ہی ظلم ہے جیسا کہ بابری مسجد کو ڈھایا جانا یا مسجد اقصیٰ پر اسر ایلی قبضہ۔اگر انصاف کی بات کی جائے تو یہ ظلم بابری مسجد والے ظلم سے زیادہ بڑا ہے کیونکہ جیسا کہ سب جانتے ہیں بابری مسجد معاملے میں آج ہندوستان میں عدالتی عمل نہ صرف یہ کہ جاری ہے بلکہ اس بات کا واضح امکان بھی نظر آ رہا ہے کہ عدالت کا فیصلہ مسجد ڈھائے جانے والوں کے خلاف بھی ہو سکتا ہےیہی نہیں یہاں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں صرف مسلم ہی نہیں بلکہ انصاف پسند ہندو بھی موجود ہیں اور یہ آوازیں ، پارلیمنٹ میں ، میڈیا میں، عدالت میں، عوام میں ہر جگہ اٹھتی رہتی ہیں۔
ابھی ابھی ایک دلیر خاتون افسر نے عدلیہ کے سامنے بے باک سچی گواہی دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک خاتون کتنی نڈر ہوتی ہے اور کتنی اچھیOpinion Leader ہو سکتی ہے۔ مگر جنت البقیع ڈھائے جانے کے بعد سے اب تک اُس ملک میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ شرمناک بات ہے کہ وہ مولوی صاحب جو ابھی کچھ دنوں پہلے آصفی مسجد کے منبر سے مخلص مومنین کے خلاف ندوے کا ایجنٹ ہونے ، خود ندو ے پر شیعوں کے خلاف سازشیں رچنے اور سعودی سفارت خانہ پر عزداری ختم کرانے کے لئے چالیس لاکھ روپے دینے کی جھوٹی افواہ اُڑا رہے تھے (جس کی ویڈیو رکارڈنگ یو ٹیوب پر موجود ہے) بورڈ کے ممبر بنے بیٹھے ہیں اور وہاں نہ تو جنت البقیع کی تعمیر نو کی کوئی قراداد لاتے ہیں نہ منہ سے بولتے ہیں نہ سر سے ڈولتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ ان اخبارات کی دشمنی پر کمر بستہ نظر آرہے ہیں جو حق بات کہہ رہے ہیں۔ در حقیقت انکو حق بات کہتا کوئی فرد کبھی اچھا نہیں لگتا جےسے کفار مکہ لوگوں کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ کانوں میں روئی ڈالے رہا کریں تاکہ حق بات ان تک پہونچ نہ جائے اسی طرح یہ کبھی پیامِ نو کو پیروں سے روندواتے ہیں کبھی ان پر اودھ نامہ کے اشتہارات بند کرا دینے کاالزم آتا ہے اور کبھی یہ صحافت اخبار مرداباد کے پلے کارڈ اپنی اس ریلی میں ڈسپلے کراتے ہیں جس میں انہوں نے یہ الزام لگا کر اور لوگوں کو مشتعل کر کے بھیڑ جمع کرائی تھی کہ کسی نے جنابِ زینب کی توہین کر دی ہے۔بنیادی طور پر پرسنل لا بورڈس اسلامی عدل کے قیام میں بھی ناکام ہیں کیونکہ شریعت عدل کی ضمانت تب ہی دے سکتی ہے جب اسکا مکمل نفاذ کیا جائے۔کونکہ کسی بھی قانون میں کسی پر عاید کئے گئے فرایض کی ادایگی کے لئے اسے کسی دوسرے مقام پر کچھ حقوق دئے جاتے ہیں او ر جب تک فرائیض اورحقوق کا یہ پورا نظام عمل مین نہ آے مناسب توازن نہیں قایم ہو سکتا جسکے بغیر عدل کا تصور کرنا مہمل ہے۔اتحاد بین المسلمین تنظیم علی کانگریس کے سہ نکاتی پروگرام کا پہلا نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ مسلم اور غیر مسلم نفرتوں اور غلط فہمیوں کو ختم کیا جانا ہے۔تنظیم علی کانگریس مانتی ہے کہ اتحاد کی بنیاد عدل ہے۔ اتحاد کی دوسری بنیاد اظہار رائے ہے۔ اتحاد کا راستہ اظہار رائے کی آزادی سے شروع ہوتا ہے۔ جب مظلوم اپنی بات کھل کر بولتا ہے اور لوگ اسکا درد سمجھ کر عدل قایم کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو اتحاد کی عمارت اپنی مظبوط بنیاد پر بننے لگتی ہے۔ بغیر عدل کے اتحادکا ڈھکوسلا در اصل اتحاد نہیں بلکہ بندوں کی غلامی اور شرک کی ایک قسم ہے اور اسکے پیچھے کوئی نہ کوئی ذاتی مفاد چھپا ہے۔ تنظیم علی کانگریس جنت البقیع، بابری مسجد اور مسجد اقصیٰ کی جلد از جلد بازیابی کے لیئے دنیا کے ہر انصاف پسند سے ہر پرُ امن کوشش کرنے کی اپیل کرتی ہے۔
جیسا کہ بابری مسجد کی شہادت کے فوراً بعد۷۲ دسمبر ۲۹۹۱ کو امامباڑہ میر زینالعابدین خاں میں اور پھر ۴۲ جنوری ۳۹۹۱ کو امامباڑہ آصفی میں اپنے مرحوم قاید جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کی قیادت میں پوری بے باکی سے اتحاد کے ساتھ ساتھ عدل کی بات کہہ کر تنظیم علی کانگریس نے ہندوستان میں مضبوط ہندو مسلم اتحاد کی نیو ڈالی تھی۔ ایک ایسے اتحاد کی جو عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قایم ہو کسی قسم کے خوف لالچ یا چاپلوسی پر نہیں۔
اسی طرح کوئی کتاب جو تفرقہ ،نفرت اور مسلکی خلیج کو مزید وسیع کرے قابل مذمت ہے اور اسکا کسی دینی نصاب میں ہونا مزید قابل مذمت ہے اس لئے اگر ابھی تک ایسے مدارس کی اعلیٰ کمان نے جن میں ایسی کوئی کتاب شامل ہے اس پر توجہ نہ دی ہو تو اب فوری طور پر اسے نصاب سے خارج کریں تاکہ واقعی اتحاد کی کوششیں کامیاب ہو سکیں۔
اِدھر شیعہ قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیعہ کہلانے والے ایسے نا اہل، مفاد پرست لوگوں سے کھلا قطع تعلق کرے جو جان بوجھ کر حق کہنے سے بھاگتے ہیں اور منبر پر بیٹھ کر جھوٹی افواہیں اُڑاتے ہیں جس کا ثبوت وہ آج تک نہیں پیش کر سکے۔ شیعی فقہہ کے مطا بق ا مام جماعت ہونے کی پہلی شرط عادل ہونا ہے۔اور چونکہ مولوی صاحب موصوف نے اپنے بار بار کے عمل سے اپنا غیر عادل ہونا ثابت کر دیا ہے اس لئے شیعی شریعت سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ انکی جگہ پر کسی عادل امام جمعہ کا انتظام کرنے کی سعی تیز تر کر دے کیونکہ جب تک ایسے لوگ منبر و محراب پر قابض رہیں گے تب تک نہ تو جنت البقیع کی تعمیرِ نو ممکن ہے نہ بابری مسجد کی اور نہ مسجد اقصیٰ صیہونی قبضہ سے آزاد ہو سکتی ہے، اور نہ ہی اتحاد کی بنیادیں مظبوط ہو سکتی ہیں۔
ٓآخر میں الحاج مرزاجاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی۔