Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Monday, March 29, 2010

عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی ہی اتحاد کی مستحکم بنیاد: تنظیم علی کانگریس

ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                           Date............


عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی ہی اتحاد کی مستحکم بنیاد: تنظیم علی کانگریس

لکھنو ¾ ۸۲مارچ تنظیم علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جای ¿زہ لےنے کے بعد سب سے پہلے صوبای ¿ حکومت کا شکریہ ادا کیا کہ اُس نے تنظیم علی کانگریس کے ذریعہ اُٹھائی گئی شیعہ عوام کی اس آواز پر دھیان دیا کہ شیعہ وقف بورڈ میںکسی ایک مولوی صاحب کے ایسے نمائیندوں کو جن پر اوقاف کی لوٹ کھسوٹ کا الزام ہے ، بھر دینے کے بجائے ، پڑھے لکھے ذی فہم صاف ستھری شبیہ والے اورمختلف طبقوں کی نمائیندگی کرنے والے افراد کو ممبری کے لئے نامزد کیا جائے۔ ساتھ ہی تنظیم علی کانگریس کے اس مشورہ پر بھی سرکار نے عمل کیا کہ بورڈ میں خاتون ممبران کو بھی نمائیندگی دی جائے۔ اگر چہ یہ نما ¿یندگی ابھی بہت کم ہے مگر ایک اچھی پہل ہے۔تنظیم علی کانگریس شکریہ ادا کرتی ہے تمام عوام کا جنہوں نے تنظیم کے مشورہ پر عمل کرتے ہوئے جائےز امن پسندانہ، قانونی اور مہذبانہ انداز استعمال کرکے اخبارات اور خطوط کے ذریعہ اپنا موقف حکومت تک پہونچایا اور ایسا کرنے میں سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کر کے عوامی روزمرہ زندگی کو درہم برہم نہیں کیا۔تنظیم علی کانگریس شکریہ ادا کرتی ہے میڈیا کا جس نے بیباکی کے ساتھ اور بغیر ڈرے اور خوف کھائے حق کی بات عوام تک پہونچانے کی اپنی ذمہ داری اد ا کی۔ جلسے میں نو منتخب نئے ممبران کو مبارک باد دیتے ہوئے اُن سے گذار ش کی گی ¿ کہ وہ ہر وقت یہ یاد رکھیں کہ اﷲ تعاٰلی نے انکے کندھوں پر امام مظلوم ؑ کی جای ¿دادوں کی ذمہ داری ڈالی ہے سو وہ کسی کا بھی خوف کئے بغیر اور اپنی کسی سیاسی یا غیر سیاسی وابستگی کا لحاظ کئے بغیر امامؑ کی جای ¿دادوں کو ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ سے ویسے ہی بچائیں جیسے ایک سچا مومن اگر شام غریباں میدان کربلا میں ہوتا تو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر خیموں کی لوٹ کو روکتا۔ اور اس بات کا خاص طور سے خیال رکھیں کہ ُبری شبیہہ والے جو ایک دو لوگ بورڈ میں ابھی بھی شامل ہو گئے ہیں وہ انہیں حق کے راستہ پر چلنے سے روک نہ سکیں۔ نئے بورڈ کی کامیابی ، عوام میں انکی ہردل عزیزی اورتنظیم علی کانگریس کی تای ¿دکا انحصار اُنکی اسی صلاحیت پر موقوف ہوگا۔ابھی پچھلے دنوں یہ بات بہت زورو شور سے سامنے آی ¿ کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کے ممبران میں سے کچھ نے جنت البقیع میں روضے ڈھائے جانے کی بات سے صاف انکار کر دیا۔ اگر یہ پرسنل لا بورڈ کا آفیشیل نکتہ ¿ نظر نہیں تھا تو اس سے امید کی جاتی تھی کہ وہ اس کی کھل کر تردید کرے گا اور اس بات کو مانے گا کہ جنت البقیع میں مزاروں کو ڈھایا جانا اور اس پر ایک لمبی خاموشی ویسا ہی ظلم ہے جیسا کہ بابری مسجد کو ڈھایا جانا یا مسجد اقصیٰ پر اسر ای ¿لی قبضہ۔اگر انصاف کی بات کی جائے تو یہ ظلم بابری مسجد والے ظلم سے زیادہ بڑا ہے کیونکہ جیسا کہ سب جانتے ہیں بابری مسجد معاملے میں آج ہندوستان میں عدالتی عمل نہ صرف یہ کہ جاری ہے بلکہ اس بات کا واضح امکان بھی نظر آ رہا ہے کہ عدالت کا فیصلہ مسجد ڈھائے جانے والوں کے خلاف بھی ہو سکتا ہے۔ یہی نہیں یہاں اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں صرف مسلم ہی نہیں بلکہ انصاف پسند ہندو بھی موجود ہیں اور یہ آوازیں ، پارلیامنٹ میں ، میڈیا میں، عدالت میں، عوام میں ہر جگہ اٹھتی رہتی ہیں۔ ابھی ابھی ایک دلیر خاتون افسر نے عدلیہ کے سامنے بے باک سچی گواہی دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ایک خاتون کتنی نڈر ہوتی ہے اور کتنی اچھیOpinion Leader ہو سکتی ہے۔ مگر جنت البقیع ڈھائے جانے کے بعد سے اب تک اُس ملک میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ شرمناک بات ہے کہ وہ مولوی صاحب جو ابھی کچھ دنوں پہلے آصفی مسجد کے منبر سے مخلص مومنین کے خلاف ندوے کا ایجنٹ ہونے ، خود ندو ے پر شیعوں کے خلاف سازشیں رچنے اور سعودی سفارت خانہ پر عزداری ختم کرانے کے لئے چالیس لاکھ روپے دینے کی جھوٹی افواہ اُڑا رہے تھے (جس کی ویڈیو رکارڈنگ یو ٹیوب پر موجود ہے) بورڈ کے ممبر بنے بیٹھے ہیں اور وہاں نہ تو جنت البقیع کی تعمیر نو کی کوی ¿ قراداد لاتے ہیں نہ منہ سے بولتے ہیں نہ سر سے ڈولتے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ ان اخبارات کی دشمنی پر کمر بستہ نظر آرہے ہیں جو حق بات کہہ رہے ہیں۔ در حقیقت انکو حق بات کہتا کوی ¿ فرد کبھی اچھا نہیں لگتا جےسے کفار مکہ لوگوں کو مشورہ دیتے تھے کہ وہ کانوں میں روی ¿ ڈالے رہا کریں تاکہ حق بات ان تک پہونچ نہ جائے اسی طرح یہ کبھی پیامِ نو کو پیروں سے روندواتے ہیں کبھی ان پر اودھ نامہ کے اشتہارات بند کرا دینے کاالزم آتا ہے اور کبھی یہ صحافت اخبار مرداباد کے پلے کارڈ اپنی اس ریلی میں ڈسپلے کراتے ہیں جس میں انہوں نے یہ الزام لگا کر اور لوگوں کو مشتعل کر کے بھیڑ جمع کرای ¿ تھی کہ کسی نے جنابِ زینب کی توہین کر دی ہے۔بنیادی طور پر پرسنل لا بورڈس اسلامی عدل کے قیام میں بھی ناکام ہیں کیونکہ شریعت عدل کی ضمانت تب ہی دے سکتی ہے جب اسکا مکمل نفاذ کیا جائے۔کونکہ کسی بھی قانون میں کسی پر عای ¿د کئے گئے فرایض کی ادایگی کے لئے اسے کسی دوسرے مقام پر کچھ حقوق دئے جاتے ہیں او ر جب تک فرائیض اورحقوق کا یہ پورا نظام عمل مین نہ آے مناسب توازن نہیں قایم ہو سکتا جسکے بغیر عدل کا تصور کرنا مہمل ہے۔اتحاد بین المسلمین تنظیم علی کانگریس کے سہ نکاتی پروگرام کا پہلا نکتہ ہے۔ دوسرا نکتہ مسلم اور غیر مسلم نفرتوں اور غلط فہمیوں کو ختم کیا جانا ہے۔تنظیم علی کانگریس مانتی ہے کہ اتحاد کی بنیاد عدل ہے۔ اتحاد کی دوسری بنیاد اظہار رائے ہے۔ اتحاد کا راستہ اظہار رائے کی آزادی سے شروع ہوتا ہے۔ جب مظلوم اپنی بات کھل کر بولتا ہے اور لوگ اسکا درد سمجھ کر عدل قای ¿م کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو اتحاد کی عمارت اپنی مظبوط نیو پر بننے لگتی ہے۔ بغیر عدل کے اتحادکا ڈھکوسلا در اصل اتحاد نہیں بلکہ بندوں کی غلامی اور شرک کی ایک قسم ہے اور اسکے پیچھے کوی ¿ نہ کوی ¿ ذاتی مفاد چھپا ہے۔ تنظیم علی کانگریس جنت البقیع، بابری مسجد اور مسجد اقصیٰ کی جلد از جلد بازیابی کے لی ¿ے دنیا کے ہر انصاف پسند سے ہر پرُ امن کوشش کرنے کی اپیل کرتی ہے۔ جیسا کہ بابری مسجد کی شہادت کے فوراً بعد۷۲ دسمبر ۲۹۹۱ کو امامباڑہ میر زینالعابدین خاں میں اور پھر ۴۲ جنوری ۳۹۹۱ کو امامباڑہ آصفی میں اپنے مرحوم قای ¿د جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کی قیادت میں پوری بے باکی سے اتحاد کے ساتھ ساتھ عدل کی بات کہہ کر تنظیم علی کانگریس نے ہندوستان میں مضبوط ہندو مسلم اتحاد کی نیو ڈالی تھی۔ ایک ایسے اتحاد کی جو عدل اور اظہارِ رائے کی آزادی پر قای ¿م ہو کسی قسم کے خوف لالچ یا چاپلوسی پر نہیں۔ اسی طرح کوئی کتاب جو تفرقہ ،نفرت اور مسلکی خلیج کو مزید وسیع کرے قابل مذمت ہے اور اسکا کسی دینی نصاب میں ہونا مزید قابل مذمت ہے اس لئے اگر ابھی تک ایسے مدارس کی اعلیٰ کمان نے جن میں ایسی کوئی کتاب شامل ہے اس پر توجہ نہ دی ہو تو اب فوری طور پر اسے نصاب سے خارج کریں تاکہ واقعی اتحاد کی کوششیں کامیاب ہو سکیں۔اِدھر شیعہ قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ شیعہ کہلانے والے ایسے نا اہل، مفاد پرست لوگوں سے کھلا قطع تعلق کرے جو جان بوجھ کر حق کہنے سے بھاگتے ہیں اور منبر پر بیٹھ کر جھوٹی افواہیں اُڑاتے ہیں جس کا ثبوت وہ آج تک نہیں پیش کر سکے۔ شیعی فقہہ کے مطا بق ا مام جماعت ہونے کی پہلی شرط عادل ہونا ہے۔اور چوںکہ مولوی صاحب موصوف نے اپنے بار بار کے عمل سے اپنا غیر عادل ہونا ثابت کر دیا ہے اس لئے شیعی شریعت سے دلچسپی رکھنے والے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ انکی جگہ پر کسی عادل امام جمعہ کا انتظام کرنے کی سعی تیز تر کر دے کیونکہ جب تک ایسے لوگ منبر و محراب پر قابض رہیں گے تب تک نہ تو جنت البقیع کی تعمیرِ نو ممکن ہے نہ بابری مسجد کی اور نہ مسجد اقصیٰ صیہونی قبضہ سے آزاد ہو سکتی ہے، اور نہ ہی اتحاد کی بنیادیں مظبوط ہو سکتی ہیں۔

ٓآخر میں الحاج مرزاجاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ ¿ فاتحہ کی تلاوت کی گئی۔

جاری کردہ

لائق علی



1 comment:

a m said...

Asghar Mehdi Tanzeem is doing a commendable work to present and develop conceptual leadership as traditional family based leadership is proved inept, confused and personal interest oriented. People, who are very much concerned about unsatisfactory global position of Muslim world, must come forward to denounce despotic behavior of leaders and their small coterie.