الیسع رضوی کی مجلس پنجم کالے امام باڑہ میںمنعقد ہوئی
15.03.2010, 12:05am , سوموار (GMT)
لائق علی۔لکھنو
تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار میٹنگ میں سب سے پہلے جناب الیسع رضوی طاب ثراہ کو جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے انکی تحریک عزاداری و تحریک اوقاف میں انکی نا قابل فراموش بے لوث خدمات کی ستائش کی گئی اور انکے ایصال ثواب کے لئے سورة فاتحہ کی تلاوت کی گئی اور جناب الیسع رضوی مرحوم کی مجلس پنجم میں مولانا سیف عباس نقوی کی تقریر کے اقتباسات دوبارہ دوہرائے گئے اور مولانا کی حق گوئی کے لئے انکی ستائش کرتے ہوئے کہا گیا کہ جاوید مرتضی صاحب اور یسع رضوی صاحب کی نا وقت اموات ان حالات کو مشکوک بناتے ہیں جن میں ان حق گو یوں اور جانبازوں کی جان گئی۔ اسکے علاوہ قومی مسائل میں ان دونوں افراد کی حساسیت اور ادارہ و اوقاف خوروں کی مورچہ بندی ان دونوں کی ذہنی اذیتوں کا سبب بنیں۔
جناب الیسع رضوی طاب ثراہ کی مجلس پنجم میں کثیر تعداد میں علماء،صحافی ،ووکلا ،سیاسی لیڈران ودانشور افرادنے شرکت کی ۔ خصوصی طور سے سابق وزیراور مرحوم الیسع رضوی کے قریبی و پرانے دوست محمد اعظم خاں رامپور سے مجلس میں شرکت کرنے کے لئے آئے۔
مولانا سیف عباس صاحب نے اپنی جامع تقریر میںفرمایا کہ الیسع رضوی صاحب
حق گو تھے اور چاہے تحریک عزاداری ہو یا تحریک تحفظ اوقاف ہو الیسع رضوی صاحب مرحوم نے کبھی حق کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اسمیں اپنی کسی رشتہ داری کا بھی خیال نہیں کیا حالانکہ اگر وہ چاہتے تو ہر قدم پر ایک’ کمپرومائز‘ سمجھوتہ کر کے اپنے دنیاوی فائدے کر سکتے تھے مگر انہوں نے کبھی یہ نہیں کیا اور سچے حسینی کی طرح حق کے ساتھ رہے۔انہوں نے کہا کہ اگر مولوی اپنی موت کو ہر وقت یاد رکھے تو وہ حق بولنے لگے اور اپنی موجودہ دنیاوی زندگی میں اپنی موجودہ روش چھوڑ دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ عالم کی پہچان اسکے سر پر سات میٹر کپڑے کے عمامے یا عبا و قبا سے یا کسی خاص ملک یا مدرسہ سے پڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوتی۔عالم کی پہچان تو خود امام جعفر صادق نے بتا دی ہے کہ جس کا قول و عمل یکساں ہو۔وہ عالم ہے جس کے عمل اور قول میں تضاد ہو خواہ وہ کوئی بھی لباس پہنے وہ جاہل ہے۔ نشست میں’ کلب صاحب‘ کے سابقہ بیان پر جس میں انہوں نے خواتین کا کام بچے پیدا کرنا بتا کر اسلام کی اہانت کی ہے
شرکاءنشست نے سخت احتجاج کیا۔المیہ یہ ہے کہ دوسری قومیں پریس ،میڈیا وغیرہ ان کو شیعوں اور اسلام کا نمائندہ جان لیتے ہیں۔ اور اس سے پوری قوم کی بے عزتی ہوتی ہے۔اس کا بس ایک علاج ہے وہ یہ کہ قوم کُھل کر ان سے اظہار برات کرے اور ہر جگہ ان کا کھلا اور مکمل بائکاٹ کریں۔اگر عورتوں کی قیادت اور فعال شمولیت بہت ضروری نہ ہوتی تو رسول میدان مباہلہ میں جناب سیدہ کو لیکر نہ گئے ہوتے،گر یہ جنگ ایک خاتون قائد کی موجودگی کے بغیر فتح ہونا ممکن نہ تھی۔ خود تحریک عزاداری کی کامیابی لکھنو کی مومنات کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔خود کلب جواد صاحب ان مظاہروں اور احتجاجات سے ذاتی فائدے اٹھاتے رہے ہیں جن میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔لکھنو کی مومنات کو چاہئے کہ کلب جواد صاحب کے اس اسلام دشمن بیان سے قطعی دل برداشتہ نہ ہوں اور سیرت جانب زینب کبری پر عمل کرتے ہوئے دنیا کو اپنی بہترین خدمات سے فائدہ پہنچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش جاری رکھیں۔
اشد ضروری ہے کہ کسی عادل عالم دین کا انتخاب کیا جائے تاکہ وہ مناسب جگہ اور موقع پر نماز جمعہ قائم کریں اور دہاں مومن و مومنات وہاں نماز پڑھیں۔
No comments:
Post a Comment