Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Wednesday, March 24, 2010

ذاتی مفاد کے لی ¿ے اہلبیت کے فضائل کا انکارکیا جانا شرمناک: علی کانگریس

ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                    Date............

(برائے اشاعت )

ذاتی مفاد کے لی ¿ے اہلبیت کے فضائل کا انکارکیا جانا شرمناک: علی کانگریس

لکھنو ¾ ۱۲مارچ تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست جناب محمد امیرعسکری کی صدارت میں منعقدہوی ¿۔ اس نشست کا آغاز جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے ایصالِ ثوابکے لی ¿ے سورہءفاتحہ کی تلاوت سے کیا گیا اور کہا گیا کہ ان دونوں جاں بازوں نے آلِ محمد علیہمالسلام کی جای ¿دادوں کے لٹیروں کی مخالفت کر کے اُن دشمنانِ اہلیبیت کی دشمنیاں مول لیں اور اُن کی بد کلامیوں، مکرو فریب، افواہ و دروغ گوی ¿ کا سامنا کرتے ہوئے محبت ِآل محمد پر جاں بحق ہو کر مشہور حدیث ” و من مات علی حب آل محمدمات شہیدا“ یعنی جِس کسی نے آلِ محمد کی محبت پر جان دی وہ شہید مر ا کی مصداق درجہ ¿ شہادت حاصل کر لیا۔ حاضرین نے یہ تمنا ظاہر کی کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ایسی ہی مثالی موت عطا فرمائے آمین۔ اسکے بعد شرکاءنے پچھلے دس دنوں میں کچھ ہلڑ باز مفاد پرستوں کے ہاتھوں قوم و ملت کی رسوای ¿ اور سب سے بڑھ کر جنابِ زینب کے فضای ¿ل سے انکار کے جو واقعات پیش آئے ہیں اُن تفصیل سے غور کرنے کے بعد درجِ ذیل اعلان جاری کیا۔انتہای ¿ افسوس کی بات ہے کہ ایک نام نہاد ” شیعہ دھرم گرو“نے مییڈیا کے ہاتھوں اپنی مٹی پلید کرانے اور ایک مناظرہ سے کمال بزدلی اور نا اہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاگ کھڑے ہونے کی خفت مٹانے کی خاطر اور خود اور اپنے بھارجوں کے ذریعہ پوری بے حیای ¿ اور بے شرمی کے ساتھ یہ کہا کہ جنابِ زینبِ کبریٰ کو کوفہ و شام میں تقریر اس لی ¿ے کرنی پڑی کیونکہ وہ ”مجبور“ تھیں اور یہ کہ دربارِ شام میں انہوں نے کوی ¿ تقریر ہی نہیں کی تھی۔ ایسا کہنے والے وہ لوگ ہیں جو کربلا اور اہلیبیت کے مشن کو مسخ کر کے عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ عوام کربلا سے سبق لے کر انکی اپنی لوٹ کھسوٹ کے خلاف آواز نہ اُٹھای ¿ں۔ قبریں بیچنے والے اوقاف بیچنے والے جناب زینب اور جناب فاطمہ کا نامِ نامی بھی اپنے مفاد کی خاطر بیچ کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ہر شخص جانتا ہے کہ جناب زینب ایک لمحہ کے لی ¿ے بھی مجبور نہ تھیں کیونکہ اول تو یہ کہ اگر وہ بد دعا کے لی ¿ے لب ہلا بھی دےتیں تو کوفہ اور شام پلک جھپکتے عاد اور ثمود کی بستیوں کی طرح عذابِ الہٰی سے نیست و نا بود ہو جاتے۔ دوسرے یہ کہ ہر وقت چوتھے امامؑ انکے ساتھ موجود تھے تو اگر جنابِ زینب چاہتیں تو اُن سے کہتیں کہ میں عورت ہوں تو اے بیٹا آپ ان بد بختوں کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرما دیں۔ یا پھر خودامام وقتؑ ان سے کہتے کہ پھوپی اماں میں موجود ہوں عورتوں کا کام تقریریں کرنا نہیں ہے اس لی ¿ے آپ زحمت نہ کریں میں تقریر کی ¿ے دیتا ہوں۔ تیسرے یہ کہ واقعہ ¿ کربلا کوی ¿ اتفاقی حادثہ نہیں تھا جس میں مردوں کے سر اور عورتوں کی چادریں مجبوری میں ضایع ہو گی ¿ ہوں۔ بلکہ یہ ایک مشن تھا جِس کی پیشن گوی ¿ خود رسول فرما گی ¿ے تھے اور جِس میں شامل ہر شخص یہاں تک کہ شیر خوار علی اصغرؑ کا رول پہلے سے طے اور معلوم تھا۔ اگر عورتوں کاانقلاب کو لیڈ (lead) کرنے کے لی ¿ے آگے آنے سے زیادہ ضروری گھرداری کرنا ہوتا تو جناب زینب وغیرہ مدینہ میں رُکتیں خطبہ دینے اور اشاعت پیغام حسینی کو لیڈ(lead) کرنے کربلا کے قافلے میں نہ آتیں۔ لہٰذا انہیں مجبور کہہ کر اُن کی ایسی ہتک عزت کی گی ¿ی ہے جس کی نظیر کسی شیعہ کی زبان سے تو ہر گز نہیں ملے گی۔پھر اس سے بڑا جھوٹ کیا ہو سکتا ہے کہ جنابِ زینب نے دربار میں خطبہ نہیں دیا۔ انہوں نے ، جناب ام کلثوم نے اور جناب فاطمہ بنت حسینؑ اور جناب سید سجادؑ نے دربارِ ابنِ زیاد میں خطبے د ی ¿ے ان کا ذکر شیخ عباس قمی اپنی کتاب منتہیٰ الاعمال میں اور باقر الشریف القرشی اپنی کتاب حیات ال اما م ا لحسینؑ کی تیسری جلد کے صفحہ ۰۴۳ پر ابن طاوس کی کتاب الحوف کے حوالے سے کرتے ہیں اور جناب زینب نے جو تاریخ ساز خطبے دربارِ یزید میں دی ¿ے انہیں تفصیل سے حجت الاسلام علامہ سید ابن حسن نجفی کی کتاب ” حضرت زینبؑ کے تاریخ ساز اور عہد آفرین خطبے“ کے صفحہ ۵۳ پر پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ کتاب ادرہءتمدن اسلام کراچی نے شایع کی ہے۔ یہی خطبہ سازمانِ تبلیغاتِ اسلامی ایران کی شایع کردہ کتاب ”اہلیبیت اطہارؑ کی مختصر سوانح حیات “ میں بھی صفحہ ۷۲۱ درج ہے۔ اس کتاب کے مصنف ہیں۔ یاد رہے کہ دربارِ ابن زیاد اور دربارِ یزید میں امام وقت ہمارے چوتھے امامؑ موجود تھے اور انہوں نے خود اپنے خطبے بھی ارشاد فرمای ¿ے تھے مگر انھوں نے اپنے بہن اور پھوپیوں کو یہ کہہ کر نہیں روکا کہ عورت کا کام لیڈری کرنا نہیں ہے اس لی ¿ے آپ زحمت نہ کریں میں امام وقت خود اس فریضہ کو انجام دینے کے لی ¿ے کافی ہوں۔ جناب زینب کے اس تاریخ ساز کارنامے کا انکار کر کے در اصل انکی اس عدیم المثال فضیلت کا انکار کیا گیا ہے کہ وہ فاتحِ شام تھیں۔ جسکے لی ¿ے ساری دنیا انکی عزت کرتی ہے اور جس کا ذکر علامہ اقبال نے اپنے ایک مشہور فارسی شعر میں کیا ہے کہ اﷲ سے محبت میں دی جانے والے قربانیوں کی داستان کے بس دو ہی حصے ہیں پہلے کا نام کربلا ہے اور دوسرے کا دمشق۔ پہلا حصہ حسینؑ نے لکھا اور دوسرا زینب نے۔ ان کی اس عظیم فضیلت کا انکار کوی ¿ دشمنِ اہلیبیت ہی کر سکتا ہے۔ اﷲ کی لعنت ہو اہلیبیتؑ کے فضای ¿ل کا انکار کرنے والوں پر اور ان کے مراتب کو کم کر کے بیان کرنے والوں پر۔رہ گی ¿ بات کربلا کے علاوہ خواتین کے سیاسی معاملات میں حصہ لینے کی تو ہم حجتہ الاسلام عقیقی بخشای ¿ش کی مذکورِ بال کتاب سے کچھ سطور آپ کی خدمت میں جناب فاطمہ زہرا کے بارے میں پیش کر رہے ہیں:” ۔۔ اور معرکہ ¿ جنگ میں مجروحین اور زخمیوں کی مدد فرماتی تھیں، عالم سیاست میں اسلام کی ایک دلیر و بہادر رہنما، سچی مجاہد اور نہ تھکنے والی ایک انقلابی خاتون تھیں۔۔۔آپ صرف خاتونِ خانہ نہ تھیں بلکہ آپ خاتونِ عمل، خاتونِ پیکار، اور حق کی راہ میں ایک دلیر اور رزمندہ خاتون تھیں“یہ کہنا کہ آج کی مسلم خواتین اُن کی بات نہ کریں لوگوں کو اہلیبیت سے دور رکھنے کی ایک سونچی سمجھی سازش ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر شیعہ مرد خود کو حسینؑ کے طرزِ عمل کی پیروی کرتے کرتے حُر اور جَون جیسا اور شیعہ عورتیں زینب و ام کلثوم ؑ کی پیروی کرتے کرتے خود کو زوجہ ¿ وہب جیسا بنانے کی کوشش نہ کریں تو کیا اسلام سے پہلے کے جاہل سماج کی عورتوں سے اپنا موازنہ کریں جنِ کی وقعت بقول مورخ انکے سماج میں ”ایک اونٹ سے بھی کم تر تھی“؟اخیر میں تمام مومنین و مومنات سے گذارش کی گی ¿ کہ تمام نیوز چینل اور معلوماتی چینل زیادہ سے زیادہ دیکھیں سبھی اخبار زیادہ سے زیادہ پڑھیں اور اپنی فہم اور سونچنے کی طاقت کو زیادہ سے زیادہ بڑھای ¿ں تاکہ جہالت اور جاہلانہ پرہوگنڈوں سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اسکے ساتھ ساتھ تمام فحش انٹرٹینمنٹ چینلوں کے پوری طرح ترک کر دیں اور اپن وقت زیادہ سے زیادہ مطالعہ پر صرف کریں۔ جہاں تک خواتین ریزرویشن ب،ل کا تعلق ہے اسکا شریعت یا اسلام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اس لی ¿ے مسلمان اس کے نام پر سیاسی پارٹیون کا کھلونا نہ بنیں۔ وہ اپنی تعلیم، صلاحیتوں اور جرئت مندی کا معیار اتنا بلند کر لیں کہ ان کی لیاقت او قابلیت کی وجہ سے اپنی آبادی کے تناسب سے بھی زیادہ تناسب میں معاشرے کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام تک پہونچ کر بہترین اسلامی معیار کے مطابق وطنِ عزیز، اقوامِ عالم اور عالمِ انسانیت کی بھلای اور نجات کے کام کر سکیں۔

جاری کردہ لائق علی

No comments: