Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Wednesday, April 28, 2010

تحریک عزاءداری کے مجاہدوں کی ےاد: تنظیم علی کانگرےس

تحریک عزاءداری کے مجاہدوں کی ےاد: تنظیم علی کانگرےس


لکھنو ¾ ۵۲ا پرےل2010 , سماجی ، دینی اور ملّی امور و حالات پر تباد لئہ خےال اور تجزےہ کے لئے تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار میٹنگ منعقد ہوئی، جسکا آغازتلاوت کلام پاک سے کےا گےا۔پھر عزاداری کے جلوسوں پر لگائی گئی پابندی کے خلاف کاروانِ حےات کے زےر اہتمام ۰۱ ،اپرےل ۷۹۹۱کو بھوک ہڑتا ل کا سلسلہ شروع کرنے والے نوجوانوں کی قربانیوںکو ےاد کےا گےا۔اس تحریک مےں سرگرم حصہ لےنے والے محمد حسےن عرف ببو،ےوسف حسےن عرف بھوپالی اورعشرت الطاف عرف گڈوکی عزاداری کی بحالی کے لئے خودسوزی کے واقعات اسی ماہ اپرےل مےں ہوئے تھے اور ان کو غریب الوطنی کے حالات مےں دفن کےا گےا تھا۔انکی اس قربانی نے قوم کے ضمیر کو جھنجوڑ دےا اور بحالئی جلوس عزاءکی تحریک سے جمود کے جو بادل چھنٹے تھے اور بےداری کااےک ماحول پےدا ہوا تھا وہ صرف ان نوجوانوں کی عظیم قربانیوں کا ثمر تھا۔تنظیم علی کانگرےس ان نوجوانوں کو خراج عقیدت پےش کرتی ہے اورپروردگارسے اُن کے درجات کو بلند کرنے کی دعا کرتی ہے۔ میٹنگ مےں مسلمانوں کے درمےان بڑھتے اختلافات پر اظہارافسوس کےاگےا۔جس طرح اخبارات مےںمضامین،مراسلوںوغیرہ کے ذریعہ شیعہ،سنی،وہابی، دےوبندی،برےلوی،خانقاہی جےسے اصطلاحات کا استعمال کرکے مسلمانوں کے درمےان اخوت و اتحادکو کمزور کرنے کی مزموم کوشش کی جارہی ہے، وہ افسوس ناک ہے۔اگر ےہ سرگرمےاں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے جذبے سے کی جا ری ہوتیں تو بات قابل تحسین ہو تی۔لےکن قوم مےں اصلاح تو دور کی بات ہے ، صرف انتشار ہی نظر آ رہا ہے۔دراصل اےک سازش کے تحت عوام کو غےر اہمTrivialتنازعہ اور بحث مےں الجھائے رکھا جارہا ہے تاکہ مفاد پرست لوگوں کو کھیل کھےلنے کا موقع فراہم ہو تا رہے۔لےکن علی کانگرےس کا ہمےشہ سے ےہ موقف رہا ہے کہ عوام خود بےدار ہو کر حقائق کی طرف متوجہ ہوںاور اسلامی احکامات کی مکمل پابندی کرتے ہو ہے اسلام کے پےغام توحید کی تبلیغ کے لئے جدوجہد کرتے رہےںاور ان مسائل اور امور پر اپنی توجہ مزکور رکھےں جسکا سوال و جواب ہم سے روز آخرت ہو گا۔دنےا مےں بڑھتا الحاد،شرک و بت پرستی،مادہ پرستی،بےن العقیدہ منافرت،قبائلی علاقائی اور خاندانی عصبیت،افلاس کی وجہ سے اموات،حقوق نسواں کی پامالی،توہم پرستی کا ماحول،تانترک اور جعلی مولویوں کا بڑھتا جال اور نٹورک، تاغوطی رحجانات، ملوکیت و استعماری وصہےونی طاقتوں کا دینی اداروں مےں بڑھتا اثر، ڈےوڑھی پرستی: ےہ وہ مسائل ہےں جن کے بارے مےں اپنی صلاحیت، استعدادوتوفیق کے مطابق ہمےں عمل کرنا ہے۔ےہ وہ اصل مسا ئل ہےں جن کی طرف توجہ مبذول کرانا ضروری ہے اور ان کے تعلق سے ہماری آخرت مےں جواب دہی بنتی ہے۔ دوسری طرف کچھ نام نہاد مولوی اپنی ذاتی مفاد پرستی میں آلِ سعود کے مظالم کے خلاف نہ صرف شرمناک خاموشی اختیار کر کے ان مظالم کو مسلمانوں کے اذہان سے مہو کر دینا چاہتے ہیں بلکہ کھلے عام اس جرگے میں شامل ہیں جو آل سعود کی وکالت کرتا ہے اور ان کے سرکاری مسلک کے علاوہ سارے مسلمانوں کو واجبب لقتل کہتا ہے۔ قوم کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسے لوگوںسے اپنے موقف کی وضاحت کرنے کو کہیں کہ یا تو یہ لوگ اس گروہ سے استعفیٰ دیں یا پھر خود کو مومن اور مسلم کہنا بند کریں۔

یہ خبر آئی ہے کہ سرکار کی طرف سے تمام وقف انسپکٹروں کو اوقاف کی پوری فہرست جلد از جلد مکمل کرنے اورناجائیز قبضوں کی نشاندہی کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ اس پر واقعی عمل ہونا چاہئیے ۔ان اوقاف پر خصوصی توجہ دی جانی چاہئیے جن کے متولی ایسے افراد ہیں جو ایک سے زیادہ وقف کے متولی بنے بیٹھے ہیں اسکے علاوہ عام اصول کے مطابق متولی حضرات کے ذاتی اثاثے یا اخراجات انکی آمد کے معلوم ذرائعہ کے مطابق ہے یا نہیں اسکی تحقیق ضروری ہے۔ ایسے متولیوں پر خاص نظر ہونی چاہئیے جو وقف بورڈ کے چئیرمین کے رشتہ دار ہیں۔ جن عبادتگاہوں کی آراضی یا عمارت کسی کاروباری مقصد کے لئے استعمال کی جا رہی ہے انکے بارے میں یہ یقینی بنائیں کہ اسکا کرایہ اسکے Market Rental Value سے کم تو نہیں ہے؟ اور یہ کرایہ واقعی اس عبادت گاہ کے بینک کھاتے میں جمع ہوتا ہے یا نہیں؟۔ پچھلے وقف بورڈ کی دھاندھلیوں کے خلاف مناسب اقدام کرنے اور ایک شخص کو صرف ایک وقف کا متولی بنانے کے اصول پر کام کرنے اور منشائے واقف کی بنیاد پر اوقاف کا انتظام کروانے کا مطالبہ کےا گےا۔پوری قوم امید رکھتی ہے کہ سابقہ بد عنوانیون کی جانچ کروا کر بالکل غیر جانب داری سے مناسب کاروائی کی جائے گی۔

اخیر میں جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ ¿ فاتحہ کی تلاوت کی گی ¿ی اوریہ کہا گیا کہ ان دونوں حضرات کی اچانک مشتبہ حالات مےں ہو ئی موت سے قوم کو زبردست نقصان ہوا ہے ۔ ان دونوں حضرات کا وجود اےک خاص مولوی کے حاشےہ برداروں کے مفاد کو نقصان پہنچا رہا تھا، لےکن ان دونوں حضرات نے قوم کی فکری بیداری مےں نماےاں خدمات انجام دےتے ہو ئے نصرت حق مےں شہادت حاصل کی ہے اور اﷲتعٰلی سے ان کے درجات بلند کر نے کی دعا کی گئی۔ جناب ناز نقوی نصیرابادی کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا گیا اور انکے ورثہ کو تعزیت پیش کی گئی اور انکے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ پڑھا گیا۔

جاری کردہ

لائق علی

Monday, April 19, 2010

آلِ سعود کے مظالم پر خاموشی گناہِ کبیرہ: تنظیم علی کانگریس

آلِ سعود کے مظالم پر خاموشی گناہِ کبیرہ: تنظیم علی کانگریس


18.04.2010, 04:02pm , اتوار (GMT)
لائق علی
تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار میٹنگ عارف آشےانہ چوک لکھنؤ مٰیں منعقد ہوئی۔اولاًمیٹنگ تلاوت کلام پاک کی گئی پھر سعودی حکومت کے ذریعہ اُس ملک مےں شیعہ مسلمانوں پر جاری مظالم کی شدید مزمت کی گئی۔ سعودی حکومت جس طرح شیعہ مسلمانوں ، عورتوں،انسانی حقوق کے محافظ اداروں، لسانی اور قبائلی اقلےتوں کے بنےادی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے ان پر ظلم و جبرکا بازار گرم کئے ہوئے ہے اس سے ےہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اُن کے سرکاری مذہب کا اسلام اور دور جدید کی بنےادی قدروں سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
یہ حکومت در اصل صےہونےت، فسطائےت اور نازےت کے اصولوں اور منشور پر عمل پےرا ہے، اور اس کا جاہلانہ اور وحشیانا چہرہ تمام عالم پرعیاںہوچکا ہے۔میٹنگ مےں HUMAN RIGHT WATCHکی ۳ ستمبر ۹۰۰۲ کی ۲۳ صفح کی رپورٹ:DENIED DIGNITY:SYSTEMATIC DISCRIMINATION AND HOSTILITY TOWARDS SAUDI SHIA CITIZENکا ذکر کرتے ہو ئے مقررین نے کہا کہ تیل کی پےداوار کے تعلق سے شیعہ اکثرےت والے اہم صوبہ الشر قیہءمےں SAUDI REGIME نے جس طرح سے تمام شیعوں پر مذہبی، اقتصادی اور تعلیمی پابندےاں عائد کر رکھی ہیں اور ان کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے اس کی مثال شاید صرف اسرائیل میں ہی مل سکتی ہے۔
شیعوں کو عوامی اور نجی دونوں مقامات پر نمازجماعت ادا کرنامنع ہے اور اس سلسلہءمیں انہےں قےدو بند کی صورت سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔سرکاری کارندے MORALING POLICE کی زےادتےاں عام ہےں۔شہر خوبر میں شیعوں کی کوئی بھی مسجد نہیں ہے جبکہ سرکاری فند سے قائم شدہ مساجد میں صرف سرکاری مسلک سے وابستہ لوگ نماز ادا کرسکتے ہےں۔شیعہ تفاسیرپر اور، سرکاری طرز سے مختلف خواتین کے لباس و حجاب پر مکمل پابندی ہے اسکی خلاف ورزی کرنے والوں کو مہینوں جےلوں مےں ڈال دےا جاتا ہے اور جو وکلا پیروی کی کوشش کرتے ہےں انکو بھی سرکاری اداروں کے غصہ کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔شیعہ اپنے مدرسے قائم نہیں کر سکتے اور مجبورً انہیںاپنے بچوں کو سرکاری مدارس میں داغلہ کرانا پڑتا ہے، جہاں انہےں ےہ پڑھاےا جاتا ہے کہ SAUDI REGIME کے مسلک سے مختلف سب کافر اور واجب قتل ہےں۔عدالتوں مےں شیعہ افراد کی گواہی ناقابل قبول اور لائق مسترد تصور کی جاتی ہے۔شیعوں کو ہر سطح پر تفریق اور امتےاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔SAUDI REGIME مےں کوئی وزیر، سینےر ڈپلومیٹ، اعلا ملےٹری افسر، جج جےسے اہم عہدوں پر کسی شیعہ کی تقرری نہیں کی جاتی۔ شیعہ طلاب کا MILITARY ACADEMIES مےں داخلہ ممنوع ہے۔مقررین نے SAUDI REGIME کے ظالمانہ اور غےر انسانی طرز عمل کو عالمیبرادری سے نوٹس لےتے ہوئے SAUDI REGIME کو سرزنش کرنے اور اسکے خلاف مناسب پابندےوں کو عائد کرنے کا مطالبہ کےا اور SAUDI REGIME کی MORALING POLICE کو فوری طور بند کرنے، تمام شیعوں کو رہا کرنے، ان کومدینہ سمیت تمام مقامات پر مساجد کی تعمیر کی اجازت دےنے کا مطالبہ کےا گےا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے وطن مین بھی کچھ مسلم افراد اپنی ذاتی منفعت کے لیے سعودی حکومت کی وکالت کرنے میں اس حد تک جھوٹ بول جاتے ہیں کہ اُس حکومت نے جنت البقیع کی مسماری نہیں کی۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک یہ ہے کہ خود شیعوں کی نمایندگی کا دعوہ کرنے والے مولوی انہیں لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیںاور یا تولب کشائی کی ہمت نہیں رکھتے یا پھر خود بھی سعودی حکومت کے وظیفہ خوار ہیں۔ان سے اچھے تو مولانا ظفر مسعود ہیں جنہوں نے اخلاقی جرائت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جمیعت سے استعفا دے دیا۔
شیعوں کی نمائنگی کے دعوےدار دھرم گرو جی اپنی بے عزتی ٹی وی انٹرویو میں ہونے پر وہاں سے واک آؤٹ کرتے ہیں مگر اہلیبیت کے مزارات کی بے حرمتی کرنے والی حکومت کی بے شرمی سے طرفداری کئے جانے پر اس بورڈ سے واک آوئٹ کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور اخبارات میں خبریں آ جانے کے بعد تک اس سلسہ میں لب کشائی نہیں کرتے۔ حالانکہ یہی حضرت منبر پر زور بیان دکھاتے ہوئے ۴ اپریل کوامامباڑہ جنت ماب کی مجلس میں اس حد تک اخلاقیات سے گر جاتے ہیں کہ الیسع رضوی صاحب مرحوم ، جنکی تحریکِ عزاداری اور تحفظِ اوقاف کے سلسلہ میںبے لوث خدمات سے پوری قوم واقف ہے، لیکن انکے انتقال کے بعد بھی ان پربہتان تراشی کرتے ہیں وہ بھی عین مرحوم کے چالیسویں کے دن جب کہ شریعت کا کھلا حکم ہے کہ اپنے ُمردوں کا ذکر خیر کے ساتھ کرواور مرنے والوںکے پسماندگان کو تعزیت پیش کرو مگر بجائے تعزیت پیش کرنے کے سیرت یذید پر عمل کرتے ہوئے مرحوم کے پسماندگان کا دل دکھایا ۔ ان مولوی سے اچھے تو وہ غیر مسلم سیاسی لیڈر ہیں جو اپنے سخت ترین مخالف کا بھی مر جانے کے بعد صرف اچھا ہی ذکر کرتے ہیں۔ انکی وہ زبان جو ہر کسی کی برائی کرنے پر آمادہ رہتی ہے آخر سعودی مظالم مثالًا جنت البقیع کا انہدام،کتاب تقوتالایمان ، ابنِ تیمیہ کے فتویے ،شیعوں پر مظالم اور انکے حقوق کی پامالی پر کیوں خاموش ہے؟ اگر قوم بھی منبر کی اس بے حرمتی اور غلط استعمال پر خاموش رہی تو روزِ اآخر نہ تو رحمت خدا کی امید رکھ سکتی ہے نہ ہی شفاعت رسول کی۔ اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ اب اکثر ذاکرین مجالس میں کھل کر حق بولنے لگے ہیں۔
نئے وقف بورڈ کے سلسہ میں یہ رائے ظاہر کی گئی کہ ابھی اس پر کوئی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ مگر یہ ضرور ہے کہ نئے چئیرمین صاحب سے شیعہ قوم کو کافی امیدیں ہیںاس لئے انکوصرف اپنے رشتہ دار مولوی سے ملنے کے بجائے تمام شیعہ علما ئ، تنظیموں اور دانشوروں سے ملاقاتیں کر کے اپنی ایمانداری اورغیر جانب داری کا ثبوت دینا چاہئے تھا۔ بہر حال اگر وہ پچھلے وقف بورڈ کی دھاندھلیوں کے خلاف مناسب اقدام کرتے ہیں اور ایک شخص کو صرف ایک وقف کا متولی بنانے کے اصول پر کام کرتے ہیں اور منشائے واقف کی بنیاد پر اوقاف کا انتظام کرواتے ہیں تو بہت بہتر ہے ۔چونکہ وہ ایک مولوی بھی ہیں اور شریعت سے باخوبی واقف ہیں اس لئے پوری قوم انسے امید رکھتی ہے کہ وہ سابقہ بد عنوانیون کی جانچ کروا کر بغیر اپنے رشتہ داروں کا لحاظ کئے جیسا کہ انکے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ماضی میں انہوں نے رشتہ داری کی پرواہ نہ کرکے شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنے ایک لکھنو کے رشتہ دار کی مجلس پڑھنے سے اس لئے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ شخص بے نمازی تھا اس لئے اپنی اسی روش پر عمل کرتے ہوئے غیر جانب داری سے مناسب کاروائی کرتے ہوئے اہلبیت کی جائداد کے لٹیروں کو بے نقاب کرکے اپنی شرعی ذمہ داری پوری کریں گے۔
اخیر میںتحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ سازالحاج جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی اوریہ کہا گیا کہ ان دونوں حضرات نے قوم کی فکری بیداری مےں نماےاں خدمات انجام دی ہےں اوردونوںنے نصرت حق مےں شہادت حاصل کی ہے اور اﷲتعٰلی سے ان کے درجات بلند کر نے کی دعا کی گئی۔

Thursday, April 15, 2010

خیر کی شروعات اپنے وطن سے کریں ۔ تنظیم علی کانگریس

خیر کی شروعات اپنے وطن سے کریں ۔ تنظیم علی کانگریس

13.04.2010, 12:02am , منگل (GMT)

تنظیم علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جایزہ لینے کے بعد خصوصیت سے درجِ ذیل تین نکات پر اپنی رائے ظاہر کی۔ اول مرکزی حکومت کے ذریعہ تعلیمی حق کے بل کی منظوری کے قومی مضمرات دوئیم وقف بورڈ سے متعلق حالات اور سوئیم جنتالبقیع کے حوالہ سے ہم سب کی زمہ داری۔ یہ کہا گیا کہ مرکزی حکومت نے تعلیم کو بنیادی حق کی حیثیت سے مان کر ایک بہت اچھا قدم اٹھایا ہے مگر اسکا عملی نفاذ تب ہی ہوسکتا ہے جب لوگ خود اپنے اس حق کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں بیدار اور با عمل رہیں۔ مثالاً ووٹ کا حق ہمیشہ سے بنیادی حق ہے مگر اسکے با جود مسلمانوں کی کثیر تعدادکے نام ووٹر لسٹ سے غائیب ہیں اور اس سلسہ میں قیادت کے دعوے دار کوئی عملی قدم بھی نہیں اٹھاتے۔ اسی طرح ضروری ہوگا کے تمام محلوں مین کچھ با فہم افراد جمع ہوںاور اس بات کی کوشش کرین کے ہر مسلم بچے ور بچی کو اسکا تعلیم کا بنیادی حق دستیاب ہو۔

اسکے لئیے مسلم بستیوں کے قریب اسکولوں کا کھولا جانا ضروری ہے پھر یہ اسکول مساوات کی بنیاد پر ہونے چاہئیے ایسا نہین کہ قوم اور سرکار کو غریب مسلمانون کے نام پر دوہا جائے اور بالائی تو امیروں کے بچوں کے حق مین آئے اورتلچھٹ غریبوں کے۔ جیسا کے کچھ قومی ادارے بھی بالکل بے شرمی کے ساتھ کر رہے ہیں۔

یورپ میں کسی بری سے بری حکومت نے بھی تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظر انداز نہیں کیا جب کہ ہماے یہاں یہی شعبے پچھڑتے رہے۔ تعلیم انسانوں کو فکری بیداری عطا کرتی ہے اور ان میں دوست اور دشمن کو سمجھنے کی صلاحیت پیدہ کرتی ہے اسلئے تعلیم کے سلسلے میں ہر بستی میں پورے زور و شور سے عمل کیا جانا ضروری ہے۔

شیعہ وقف بورد کے سلسلے میں اﷲ کا شکر ہے کہ تنظیم علی کانگریس نے اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کر دی ہے اور تمام حالات سے عوام بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف کسی صاحب نے جِس طرح اپنا سارا زور وقف بورڈ پر اپنے قبضے کو باقی رکھنے میں صرف کیا ہے اس سے انکا علمی، فکری، اور اخلاقی افلاس صاف واضح ہو جاتا ہے کیوں کہ انکے پاس اپنے حلقہ بگوشوں کو اپنے پاس جمع رکھنے کے لئے سوائے وقف بورڈ کے مقامات کے کچھ اور نہیں ہے۔ کاش کہ یہی کوششیں بجائے اپنے رشتہ داروںوحلقہ بگوشوں کی محبت میں اللہ اور اہلیبیت کی محبت میںان عبادت گاہوں کو وا گذار کرانے کے لئے کی گئی ہوتیں جو سرکار کے پاس قرق ہیں۔عزاداری جلوسوں کے لئے ہوتی توجو پچھلے کئی برس سے جولوسوں میں جو دشواریاں ہوتی ہیں وہ نہ ہوتیںاور جولوسوں میں اضافہ بھی ہو جاتا۔وقف سبطین آباد کی آراضی جو اب تک ایل ڈی اے کے قبضہ میں ہے اسکی واگزاری کے لئے کی ہوتی لیکن افسوس ائسا کچھ نہیں ہوا جس سے قوم و ملت کو فائدہ ہوتا۔

جنت ا لبقیع کے سلسلے میں جس بے شرمی کے ساتھ خاموشی اختیار کر رکھی گئی ہے وہ سخت تردد کی بات تھی مگر اﷲ کاشکر ہے کہ اب علماءکے کچھ طبقے اور عوام اس سلسلے میں بیدار ہو رہے ہیں۔تنظیم علی کانگریس اس سلسلے میں اپیل کرتی ہے کہ مشہور مقالے کے مطابق خیر سب سے پہلے اپنے گھر سے شروع کرتے ہوئے تمام علمائِ مذہب، حق، اور مومنین و مومنات سب سے پہلے اپنے شہر مےں محراب و منبر کو صیہونیت اور سعودیت کے چہیتے دوستوںکے چنگل سے آزاد کرائیں تاکہ انکا استعمال مسلمانوں کے پتلے جلوانے کے بجائے مسجد اقصیٰ اور جنت البقیع کی آزادی کے پیام کو عام کرنے کے لئے کیا جا سکے۔

آخر میں جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی ایک بار پھر یہ کہا گیا کہ ان دونوںحق گو اور حقیقی محب اہلیبیت حضرات نے حق کی حمایت کرتے ہوئے شہادت حاصل کر لی اور ہم میں سے ہر ایک یہ تمنا کرتا ہے کے اس مبارک راہ میں اب کی اسی کی باری ہو۔ہمیں اﷲ کے وعدے پر پورا پورا یقین ہے اور ہم آخرت کی کامیابی کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں او ر بس اسی کی تمنا کرتے ہیں۔

Monday, April 12, 2010

MAULAN MEESAM ZAIDI ADDRESSING MAJLIS OF late YASA RIZVI

صرف امام حسینؑ نے فاسق و فاجر یزید کی بیعت کیوں نہیں کی؟مولانا میثم زیدی

لکھنو ¾۹اپریل۰۱۰۲ برائے ایصال ثواب تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ سازوحق گو الیسع رضوی طاب ثراہ ایک مجلس عزا اندرون روضہ حضرت مسلم واقع رئیس منزل میں اہلہ محلہ کی جانب سے منعقد ہوئی جسکو آفتاب خطابت مولانا میثم زیدی صاحب نے خطاب کیا۔مولانا نے اپنی جامع تقریر میں لوگوں کو اس جانب متوجہ کیا کہ آخریزید اتنا طاقتور کیسے ہوا؟ کیا وجہ تھی کہ صرف اور صرف امام حسین ؑ نے ہی کیوں یزید کی مخالفت کی؟جبکہ سارے مسلمان دیکھ رہے تھے کہ یزید کھلم کھلا شرعی احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شراب پی رہا تھا،کتّوںاور بندروں سے کھیلتا تھا،ریشم و سونا پہن رہا تھا اور نشے کی حالت میں نماز پڑھا رہا تھا اور مسلمان اسکے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ۔اسلام کو مٹانے پر تلا تھالیکن کسی مسلمان میں اسکی مخالفت کرنے کی ہمت نہیں تھی کیونکہ اسکے پاس دولت،اقتدار اور طاقت تھی اور ہر شخص کو دولت ،منصب،عہدے چاہئے تھے یہی وجہ یزید کو طاقتور بنا رہی تھی لیکن مولا امام حسینؑ کو اپنے نانا کے دین سے محبت تھی اس لئے انہوں نے یزید کی بیعت نہیں کی اور اتنے مصائب برداشت کئے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیشہ شکست خوردہ گروہ کو لوگ چھوڑ دیتے ہیں جس طرح جناب حر اپنے ساتھیوں کے ساتھ یزیدی لشکر چھوڑ کر روز عاشور ہ لشکر حسینی میں شامل ہو گئے تھے لہٰذا مولا کی فتح کا اعلان تو صبح عاشور کو ہی ہو گیا تھا۔ ہالانکہ مولانانے کھل کر نہیں کہا لیکن انکی اس تقریر کو سن کر ائسا لگتا تھا جیسے وہ قوم کے موجودہ حالات کی جانب اشارہ کر رہے تھے کیونکہ آج بھی پوری قوم دیکھ رہی ہے کہ کس طرح ایک دھرم گورو اور انکے ساتھیوں کے ذریعہ مولا کی املاک برباد ہو رہی ہے،محراب و منبر اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال ہو رہے ہیں لیکن سوائے چند لوگوں کے کوئی کھل کر مخالفت نہیں کر رہا ہے سب نے اقتدار اور طاقت کے ہاتھوں پر بیعت کر تے ہوئے مولا کی املاک کو لوٹنے والوں کی حوصلہ افضائی کرنے کے گناہ گار بن رہے ہیں ۔

یہ اطلاع ایس ۔ایچ۔رضوی نے دی۔

خیر کی شروعات اپنے وطن سے کریں: تنظیم علی کانگریس


ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............                                                          Date............

برائے اشاعت

خیر کی شروعات اپنے وطن سے کریں: تنظیم علی کانگریس

لکھنو ¾ ۱۱اپریل ۰۱۰۲ تنظیم علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جای ¿زہ لےنے کے بعد خصوصیت سے درجِ ذیل تین نکات پر اپنی رائے ظاہر کی۔ اول مرکزی حکومت کے ذریعہ تعلیمی حق کے بل کی منظوری کے قومی مضمرات دوئیم وقف بورڈ سے متعلق حالات اور سوئیم جنتالبقیع کے حوالہ سے ہم سب کی زمہ داری۔ یہ کہا گیا کہ مرکزی حکومت نے تعلیم کو بنیادی حق کی حیثیت سے مان کر ایک بہت اچھا قدم اٹھایا ہے مگر اسکا عملی نفاذ تب ہی ہوسکتا ہے جب لوگ خود اپنے اس حق کو حاصل کرنے کے سلسلہ میں بیدار اور با عمل رہیں۔ مثالاً ووٹ کا حق ہمیشہ سے بنیادی حق ہے مگر اسکے با جود مسلمانوں کی کثیر تعدادکے نام ووٹر لسٹ سے غائیب ہیں اور اس سلسہ میں قیادت کے دعوے دار کوئی عملی قدم بھی نہیں اٹھاتے۔ اسی طرح ضروری ہوگا کے تمام محلوں مین کچھ با فہم افراد جمع ہوںاور اس بات کی کوشش کرین کے ہر مسلم بچے ور بچی کو اسکا تعلیم کا بنیادی حق دستیاب ہو۔ اسکے لئیے مسلم بستیوں کے قریب اسکولوں کا کھولا جانا ضروری ہے پھر یہ اسکول مساوات کی بنیاد پر ہونے چاہئیے ایسا نہین کہ قوم اور سرکار کو غریب مسلمانون کے نام پر دوہا جائے اور بالائی تو امیروں کے بچوں کے حق مین آئے اورتلچھٹ غریبوں کے۔ جیسا کے کچھ قومی ادارے بھی بالکل بے شرمی کے ساتھ کر رہے ہیں۔یورپ میں کسی بری سے بری حکومت نے بھی تعلیم اور صحت کے شعبوں کو نظر انداز نہیں کیا جب کہ ہماے یہاں یہی شعبے پچھڑتے رہے۔ تعلیم انسانوں کو فکری بیداری عطا کرتی ہے اور ان میں دوست اور دشمن کو سمجھنے کی صلاحیت پیدہ کرتی ہے اسلئے تعلیم کے سلسلے میں ہر بستی میں پورے زور و شور سے عمل کیا جانا ضروری ہے۔


شیعہ وقف بورد کے سلسلے میں اﷲ کا شکر ہے کہ تنظیم علی کانگریس نے اپنی ذمہ داری پوری طرح ادا کر دی ہے اور تمام حالات سے عوام بخوبی واقف ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف کسی صاحب نے جِس طرح اپنا سارا زور وقف بورڈ پر اپنے قبضے کو باقی رکھنے میں صرف کیا ہے اس سے انکا علمی، فکری، اور اخلاقی افلاس صاف واضح ہو جاتا ہے کیوں کہ انکے پاس اپنے حلقہ بگوشوں کو اپنے پاس جمع رکھنے کے لئے سوائے وقف بورڈ کے مقامات کے کچھ اور نہیں ہے۔ کاش کہ یہی کوششیں بجائے اپنے رشتہ داروںوحلقہ بگوشوں کی محبت میں اللہ اور اہلیبیت کی محبت میںان عبادت گاہوں کو وا گذار کرانے کے لئے کی گئی ہوتیں جو سرکار کے پاس قرق ہیں۔عزاداری جلوسوں کے لئے ہوتی توجو پچھلے کئی برس سے جولوسوں میں جو دشواریاں ہوتی ہیں وہ نہ ہوتیںاور جولوسوں میں اضافہ بھی ہو جاتا۔وقف سبطین آباد کی آراضی جو اب تک ایل ڈی اے کے قبضہ میں ہے اسکی واگزاری کے لئے کی ہوتی لیکن افسوس ائسا کچھ نہیں ہوا جس سے قوم و ملت کو فائدہ ہوتا۔


جنت ا لبقیع کے سلسلے میں جس بے شرمی کے ساتھ خاموشی اختیار کر رکھی گئی ہے وہ سخت تردد کی بات تھی مگر اﷲ کا شکر ہے کہ اب علماءکے کچھ طبقے اور عوام اس سلسلے میں بیدار ہو رہے ہیں۔تنظیم علی کانگریس اس سلسلے میں اپیل کرتی ہے کہ مشہور مقالے کے مطابق خیر سب سے پہلے اپنے گھر سے شروع کرتے ہوئے تمام علمائِ مذہب، حق، اور مومنین و مومنات سب سے پہلے اپنے شہر مےں محراب و منبر کو صیہونیت اور سعودیت کے چہیتے دوستوںکے چنگل سے آزاد کرائیں تاکہ انکا استعمال مسلمانوں کے پتلے جلوانے کے بجائے مسجد اقصیٰ اور جنت البقیع کی آزادی کے پیام کو عام کرنے کے لئے کیا جا سکے۔


ٓآخر میں جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ ¿ فاتحہ کی تلاوت کی گی ¿ی ایک بار پھر یہ کہا گیا کہ ان دونوںحق گو اور حقیقی محب اہلیبیت حضرات نے حق کی حمایت کرتے ہوئے شہادت حاصل کر لی اور ہم میں سے ہر ایک یہ تمنا کرتا ہے کے اس مبارک راہ میں اب کی اسی کی باری ہو۔ہمیں اﷲ کے وعدے پر پورا پورا یقین ہے اور ہم آخرت کی کامیابی کو ہی کامیابی سمجھتے ہیں او ر بس اسی کی تمنا کرتے ہیں۔

Friday, April 09, 2010

SHAMEEL NE ASGHAR MEHDI KO EMAIL BHEJA

From: shamil_lko@yahoo.com


Date: 5 April 2010 06:43:23 PM GMT+05:30

To: asgharmehdi15@gmail.com

Subject: Kalbe jawad zindabad

Reply-To: shamil_lko@yahoo.com





Tum logon ki jalan hasd bugz sab ghus gaya tumhari muqalifat gai teyl leney jald hi tum ko samajh may aajaey ga ki kissay bayana liya hai kalbe jawad kee jeet par hamesha rotey rahna apki tumhara number hai

Tumharey dushmano ka sardar

Shameel shamsi

Sent from BlackBerry® on Airtel
From: shamil_lko@yahoo.com




Date: 7 April 2010 03:52:51 PM GMT+05:30



To: asgharmehdi15@gmail.com

Subject: Kalbe jawad zindabad

Reply-To: shamil_lko@yahoo.com





Tum logon ki jalan hasd bugz sab ghus gaya tumhari muqalifat gai teyl leney jald hi tum ko samajh may aajaey ga ki kissay bayana liya hai kalbe jawad kee jeet par hamesha rotey rahna apki tumhara number hai

Tumharey dushmano ka sardar

Shameel shamsi

Sent from BlackBerry® on Airtel

Tuesday, April 06, 2010

دھرم گرو جی کا آشرواد چاہئے یا عام آدمی کا ووٹ


دھرم گرو جی کا آشرواد چاہئے یا عام آدمی کا ووٹ


06.04.2010, 09:29am , منگل (GMT)

تنظیم علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جایزہ لیتے ہوئے اتفاق رائے سے یہ خیال ظاہر کیا کہ ایک مولوی صاحب اور ان کے جگر بندوں نے وقف بورڈ کو ہتھیانے کے لئے جِس حد تک گری ہوئی چال بازیوں کو اپنایا ہے اُس سے صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ اِ ن لوگوں کے دلوں میں اپنا دنیوی مفاد کس قدر عزیز ہے اور اسکے لئے یہ کیا کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔


اسکے ٹھیک بر خلاف قوم کے کچھ حقیقی ہمدردوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس ماحول میں انصاف کرپانا شائد ان کے لئے ممکن نہ رہ جائے اپنے استعفے دے کر جس پر وقار انداز میں قوم کو یہ بتا دیا ہے کہ اصل حالات کتنے خراب ہیں اُس سے خود ہی روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ لٹیرے کون ہیں اور ہمدرد کون۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ ان حالات میں ان حضرات کا میدان میں ڈٹے رہ کر وقف بورڈ کی روز مرہ کاروایوں میں حفاظتِ حق کی کوشش کرتے رہنا زیادہ سود مند ہوتا کہ اُ ن کا استعفی دے دینا بہتر ہے اوراس بات کا فیصلہ آنے والے وقت میں ہی ہو سکے گا۔


کسی قوم کے حالات اﷲ تعالیٰ اسی وقت سدھارتاہے جب وہ خود اپنے حالات بدلنے کی کوشش کرتی ہے ورنہ بلندی سے نیچے گرتے جانے کے لئے کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی یہ کام خود بہ خود ہو جاتا ہے۔ یہ ٹھنڈے دِل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ جِس قوم نے اس ملک پر سات سو سال تک حکومت کی وہ ستر سے بھی کم برسوں پایمال ہو کر پیروں کی دھول سے بھی بدتر ہو گئی جیسا کہ جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ سے ظاہر ہے۔ اگر ہم سونچیں تو بالکل صاف ہو جائے گا کہ ہم ایسے لوگوں کو اپنا نمائندہ مانتے رہے اور ایسے لوگوں کی آنکھ بند کر کے پیروی کرتے رہے جن کا پیشہ ہمارے جذبات کا استحصال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔

یہ لوگ قوم کے جذبات کو مشتعل کر نے کے بعد اُسے ایسے جھنجھنے تھماتے رہے جِس سے اُ سکا کوئی بھلا نہیں ہونے والاتھا جب کہ دوسری قومیں اسی دوران اپنے عروج کی کوششیں کرتی رہیں اپنے حقوق کے بارے میں جاگتی رہیں اور اپنے مذہب کے کسی پاکھنڈی پجاری کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بنیں۔ ہم نے یہ مان لیا کہ ہمارا کام صرف ”جناب“ کی اندھی پیروی کرنا ہے اور یہ بھی نہ دیکھا کہ ”جناب“ میں دنیا اور دین کو سمجھنے کی صلاحیت اور اﷲ ، رسول،اہلیبیت اور عوام سے وفاداری ہے بھی یا انکا مقصد صرف اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا شکم پُر کرنا ہے۔ اور ہم بلندی سے پستی میں گرتے چلے گئے۔۔۔جس کے لئے کسے کوشش یا محنت کے ضرورت تھی ہی نہیں۔بس ہماری بے عملی کافی تھی۔


اب یہ عوام کا کام ہے کے ان کے سامنے جو دوطرح کے کردار وقف بورڈ کے تعلق سے آئے ہیں ان میں سے چنے کہ وہ کسے اپنا نمائندہ ماننا چاہتی ہے۔ اسکے آئندہ حالات اسکے اسی فیصلہ پر منحصر ہیں۔ یہ بات یقیناً بہت عمدہ ہے کہ پچھلے تقریباً ایک سال میں قوم نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ ”دھرم گرو جی“ کی غلام نہیں ہے بلکہ اپنی عقل اور فہم رکھتی ہے اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے


موجودہ حکومت کی بنیاد بہوجن سماج یعنی عام آدمی کی فلاح اور پُجاری ورگ کا داس اور غلام نہ بننے کے نظریہ پر ہونے کی وجہ سے اس سے بہت ساری امیدیں وابسطہ تھیں اور جب تک ا س سرکار کی میعاد پوری نہیں ہو جاتی اور نئے الیکشن کا وقت نہیں آ جاتا تب تک رہیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عمومی طور پر حکومت نے کچھ بہت اچھے اقدامات کئے بھی جیسے سڑکوں کا بنوایا جانا، عربی فارسی ینیورسٹی کا قیام وغیرہ۔ مگر بد قسمتی سے کسی غلط فہمی کی وجہ سے حکومت نے شیعہ قو م کو ایک” دھرم گرو جی“ کا غلام سمجھ لیا اور بجائے شیعہ معاملات میں عام آدمی کے جذبات کو سمجھے ہوئے صرف انہی ”جناب“کے کہنے پر فیصلہ کرنے شروع کر کے انکی ہمتیں اور بڑھا دیں اور وہ اپنے کو شاید تیرہواں امام سمجھنے لگے۔ اس طرح خود شیعہ قوم پر منو واد لادا جانے لگا اور اسکی قیمت سرکار کو پچھلے انتخابات میں چکانی پڑی۔صاف ظاہر ہو چکا ہے کہ پیسے خرچ کر کے، اور جھوٹ افواہ اڑا کے کچھ نا سمجھ لوگوں کو سڑک پر نکال کر پتلے جلوا لینا اور بات ہے اور الیکشن میںا پنا ووٹ استعمال کرنے کی ایسی رائے دینا جس پر لوگ عمل بھی کریں اور۔اب اس مرحلہ پر یہ طے کرنا حکومت کا کام ہے کہ اُسے” دھرم گرو جی جناب“ کا آشِرواد چاہئے یا مسلم بہوجن سماج کا ووٹ۔ اگر مسلم عام آدمی کے ووٹ قیمتی ہیں تو سرکار کوعام آدمی کے جذبات کو اُسکی واقعی ضرورتوں کو اور اسکی تکلیفوں کو سمجھنا پڑے گا اور اسکے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے نہ کہ کسی ایک مولوی صاحب کے کہے پر۔یہ کل یُگ نہیں ہے بلکہ کر یُگ ہے لہٰذا سرکار بھی جو بوئے گی وہی کاٹے گی۔

آج تنظیم کے ایک خاموش رہنما ، علم بردار اور مشعلِ راہ الیسع رضوی صاحب مرحوم کا چہلم ہے۔ تنظیم نے انکے تمام اہلِ خانہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے آج کے اخبارات میں چھپے اپنے سکیٹری جناب اصغر مہدی صاحب کے مضمون کو تنظیم علی کانگریس کے آفیشیل بیان کی صورت میںاڈاپٹ(Adopt )کر لیا۔ اسکے بعد جناب الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ اور جناب جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی۔

Monday, April 05, 2010

KHATEEB-E-AHLEBAIT MAULANA MIRZA MOHD. ATHER Sb.(PRESIDENT ALL INDIA SHIA PERSONAL LAW BOARD} ADDRESSING THE MAJLIS-E-CHEHLUM OF LATE YASA RIZVI

تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الیسع رضوی کی مجلس چہلم چھوٹے امام باڑے میں منعقد



مولانا مرزا محمد اطہر نے جذباتی خراج عقیدت پیش کیا

لکھنو ¾ ۴اپریل حسینیہ محمد علی شاہ بہادر (چھوٹا امامباڑہ) میں تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الیسع رضوی طاب ثراہ (بیورو چیف تہران ریڈیو)کی مجلس چہلم کا انعقاد ہوا جس میں جسٹس امتیاز مرتضیٰ اور بمبئی سے آئے جناب ڈاکٹر اختر حسین رضوی سابق ایم پی کے علاوہ علماء،صحافیوں ،وکلا،مختلف اداروں و انجمن ہائے ماتمی کے عہدہ داران وکثیر تعداد میں معزز مومنین نے شرکت کی۔

مجلس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا اسکے بعد جناب ہادی رضا صاحب اور انکے ہمنواو ¾ں نے سوز خوانی کی اور پھر خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر صاحب (صدر آل انڈیا شیعہ پرسنل لا بورڈ) نے فضائل و مصائب اہلبیتؑ بیان کئے۔ مولانا نے اپنا سرنامہ کلام مشہور و معروف آئت کریمہ کو بنایا جسکا ترجمہ یہ ہے کہ ہم ضرور تم سب کو خوف،مال کے نقصان ،جانوںکے نقصان اور ثمرات کے نقصان سے آزمائیں گے، تو جنت کی بشارت ہے ان صبر کرنے والوں کو جو جب ان پر مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ شکر ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہمیں لوٹ کر اسی کی طرف جانا ہے۔مولانا نے فرمایا اگر ہم آیت کے جملوں پر غور کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ آزمائیش ضرور ثابت ہوگی۔اور جیسے جیسے مرتبے بلند ہوتے جاتے ہیںویسے ویسے آزمائش بھی سخت ہوتی جاتی ہے۔اکثر لوگ کسی کو مصائب میں دیکھ کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ مصیبت پتہ نہیں کس غلطی کی سزا ہے اور یہ بالکل جہالت کی بات ہے۔سزا اور جزا کی جگہ آخرت ہے دنیا نہیں۔دنیا میں مصائب امتحان کے لئے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ مصائب کا سامنا معصومین کو کرنا پڑا،جنکے بارے میں کسی خطا کا تصور بھی نہیں یا جاسکتا۔یہاں تک کے جب حضرت ابراہیم کو ان تمام آزمائیشوں سے گزار لیا گیا تب ہی انہیں انسانوں کا امام بنایا گیا۔ مولانا نے خصوصی طور پر بھوک کے امتحان کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ دو روٹیوں کی بھوک تو سب سے معصوم بھوک ہے مگر خوفناک بھوک تو لوگوں کی دولت۔شہرت۔قوت کی بھوک ہے۔جس کی آگ میں انکا ایمان رشتہ داریاں،دوستیاں و وطن کی محبت سب کچھ جل کر خاک ہوجاتا ہے۔انہوں نے عزا داری کے سلسلے میں الیسع رضوی مرحوم کی عظیم خدمات اور انکی عزا سے وابستگی کو یاد کیا اور کہا کہ اس کا اجر عظیم انہیں ضرور ملے گا۔

یہ اطلاع ایس رضوی نے دی۔

A TRIBUTE TO late YASA RIZVI by ASGHAR MEHDI

یہ حکومت طے کرے کہ اُسے دھرم گرو جی کا آشرواد چاہئے یا عام آدمی کا ووٹ : علی کانگریس

ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                    Date............

برائے اشاعت

یہ حکومت طے کرے کہ اُسے دھرم گرو جی کا آشرواد چاہئے یا عام آدمی کا ووٹ : علی کانگریس

لکھنو ¾ ۴اپریل تنظیم علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جای ¿زہ لیتے ہوئے اتفاق رائے سے یہ خیال ظاہر کیا کہ ایک مولوی صاحب اور ان کے جگر بندوں نے وقف بورڈ کو ہتھیانے کے لئے جِس حد تک گری ہوئی چال بازیوں کو اپنایا ہے اُس سے صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ اِ ن لوگوں کے دلوں میں اپنا دنیوی مفاد کس قدر عزیز ہے اور اسکے لئے یہ کیا کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ اسکے ٹھیک بر خلاف قوم کے کچھ حقیقی ہمدردوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس ماحول میں انصاف کرپانا شائد ان کے لئے ممکن نہ رہ جائے اپنے استعفے دے کر جس پر وقار انداز میں قوم کو یہ بتا دیا ہے کہ اصل حالات کتنے خراب ہیں اُس سے خود ہی روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ لٹیرے کون ہیں اور ہمدرد کون۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ ان حالات میں ان حضرات کا میدان میں ڈٹے رہ کر وقف بورڈ کی روز مرہ کاروایوں میں حفاظتِ حق کی کوشش کرتے رہنا زیادہ سود مند ہوتا کہ اُ ن کا استعفی دے دینا بہتر ہے اوراس بات کا فیصلہ آنے والے وقت میں ہی ہو سکے گا۔

کسی قوم کے حالات اﷲ تعالیٰ اسی وقت سدھارتاہے جب وہ خود اپنے حالات بدلنے کی کوشش کرتی ہے ورنہ بلندی سے نیچے گرتے جانے کے لئے کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی یہ کام خود بہ خود ہو جاتا ہے۔ یہ ٹھنڈے دِل و دماغ سے سونچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ جِس قوم نے اس ملک پر سات سو سال تک حکومت کی وہ ستر سے بھی کم برسوں پایمال ہو کر پیروں کی دھول سے بھی بدتر ہو گئی جیسا کہ جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ سے ظاہر ہے۔ اگر ہم سونچیں تو بالکل صاف ہو جائے گا کہ ہم ایسے لوگوں کو اپنا نمائندہ مانتے رہے اور ایسے لوگوں کی آنکھ بند کر کے پیروی کرتے رہے جن کا پیشہ ہمارے جذبات کا استحصال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔ یہ لوگ قوم کے جذبات کو مشتعل کر نے کے بعد اُسے ایسے جھنجھنے تھماتے رہے جِس سے اُ سکا کوئی بھلا نہیں ہونے والاتھا جب کہ دوسری قومیں اسی دوران اپنے عروج کی کوششیں کرتی رہیں اپنے حقوق کے بارے میں جاگتی رہیں اور اپنے مذہب کے کسی پاکھنڈی پجاری کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بنیں۔ ہم نے یہ مان لیا کہ ہمارا کام صرف ”جناب“ کی اندھی پیروی کرنا ہے اور یہ بھی نہ دیکھا کہ ”جناب“ میں دنیا اور دین کو سمجھنے کی صلاحیت اور اﷲ ، رسول،اہلیبیتؑ اور عوام سے وفاداری ہے بھی یا انکا مقصد صرف اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا شکم پُر کرنا ہے۔ اور ہم بلندی سے پستی میں گرتے چلے گئے۔۔۔جس کے لئے کسے کوشش یا محنت کے ضرورت تھی ہی نہیں۔بس ہماری بے عملی کافی تھی۔اب یہ عوام کا کام ہے کے ان کے سامنے جو دوطرح کے کردار وقف بورڈ کے تعلق سے آئے ہیں ان میں سے چنے کہ وہ کسے اپنا نمائندہ ماننا چاہتی ہے۔ اسکے آئندہ حالات اسکے اسی فیصلہ پر منحصر ہیں۔ یہ بات یقیناً بہت عمدہ ہے کہ پچھلے تقریباً ایک سال میں قوم نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ ”دھرم گرو جی“ کی غلام نہیں ہے بلکہ اپنی عقل اور فہم رکھتی ہے اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے۔

موجودہ حکومت کی بنیاد بہوجن سماج یعنی عام آدمی کی فلاح اور پُجاری ورگ کا داس اور غلام نہ بننے کے نظریہ پر ہونے کی وجہ سے اس سے بہت ساری امیدیں وابسطہ تھیں اور جب تک ا س سرکار کی میعاد پوری نہیں ہو جاتی اور نئے الیکشن کا وقت نہیں آ جاتا تب تک رہیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عمومی طور پر حکومت نے کچھ بہت اچھے اقدامات کئے بھی جیسے سڑکوں کا بنوایا جانا، عربی فارسی ینیورسٹی کا قیام وغیرہ۔ مگر بد قسمتی سے کسی غلط فہمی کی وجہ سے حکومت نے شیعہ قو م کو ایک” دھرم گرو جی“ کا غلام سمجھ لیا اور بجائے شیعہ معاملات میں عام آدمی کے جذبات کو سمجھے ہوئے صرف انہی ”جناب“کے کہنے پر فیصلہ کرنے شروع کر کے انکی ہمتیں اور بڑھا دیں اور وہ اپنے کو شاید تیرہواں امام سمجھنے لگے۔ اس طرح خود شیعہ قوم پر منو واد لادا جانے لگا اور اسکی قیمت سرکار کو پچھلے انتخابات میں چکانی پڑی۔صاف ظاہر ہو چکا ہے کہ پیسے خرچ کر کے، اور جھوٹ افواہ اڑا کے کچھ نا سمجھ لوگوں کو سڑک پر نکال کر پتلے جلوا لینا اور بات ہے اور الیکشن میںا پنا ووٹ استعمال کرنے کی ایسی رائے دینا جس پر لوگ عمل بھی کریں اور۔

اب اس مرحلہ پر یہ طے کرنا حکومت کا کام ہے کہ اُسے” دھرم گرو جی جناب“ کا آشِرواد چاہئے یا مسلم بہوجن سماج کا ووٹ۔ اگر مسلم عام آدمی کے ووٹ قیمتی ہیں تو سرکار کوعام آدمی کے جذبات کو اُسکی واقعی ضرورتوں کو اور اسکی تکلیفوں کو سمجھنا پڑے گا اور اسکے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے نہ کہ کسی ایک مولوی صاحب کے کہے پر۔یہ کل یُگ نہیں ہے بلکہ کر یُگ ہے لہٰذا سرکار بھی جو بوئے گی وہی کاٹے گی۔

آج تنظیم کے ایک خاموش رہنما ، علم بردار اور مشعلِ راہ الیسع رضوی صاحب مرحوم کا چہلم ہے۔ تنظیم نے انکے تمام اہلِ خانہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے آج کے اخبارات میں چھپے اپنے سکیٹری جناب اصغر مہدی صاحب کے مضمون کو تنظیم علی کانگریس کے آفیشیل بیان کی صورت میںاڈاپٹ(Adopt )کر لیا۔ اسکے بعد جناب الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ اور جناب جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی۔

جاری کردہ

لائق علی