آلِ سعود کے مظالم پر خاموشی گناہِ کبیرہ: تنظیم علی کانگریس
18.04.2010, 04:02pm , اتوار (GMT)
لائق علی
تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار میٹنگ عارف آشےانہ چوک لکھنؤ مٰیں منعقد ہوئی۔اولاًمیٹنگ تلاوت کلام پاک کی گئی پھر سعودی حکومت کے ذریعہ اُس ملک مےں شیعہ مسلمانوں پر جاری مظالم کی شدید مزمت کی گئی۔ سعودی حکومت جس طرح شیعہ مسلمانوں ، عورتوں،انسانی حقوق کے محافظ اداروں، لسانی اور قبائلی اقلےتوں کے بنےادی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے ان پر ظلم و جبرکا بازار گرم کئے ہوئے ہے اس سے ےہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اُن کے سرکاری مذہب کا اسلام اور دور جدید کی بنےادی قدروں سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
یہ حکومت در اصل صےہونےت، فسطائےت اور نازےت کے اصولوں اور منشور پر عمل پےرا ہے، اور اس کا جاہلانہ اور وحشیانا چہرہ تمام عالم پرعیاںہوچکا ہے۔میٹنگ مےں HUMAN RIGHT WATCHکی ۳ ستمبر ۹۰۰۲ کی ۲۳ صفح کی رپورٹ:DENIED DIGNITY:SYSTEMATIC DISCRIMINATION AND HOSTILITY TOWARDS SAUDI SHIA CITIZENکا ذکر کرتے ہو ئے مقررین نے کہا کہ تیل کی پےداوار کے تعلق سے شیعہ اکثرےت والے اہم صوبہ الشر قیہءمےں SAUDI REGIME نے جس طرح سے تمام شیعوں پر مذہبی، اقتصادی اور تعلیمی پابندےاں عائد کر رکھی ہیں اور ان کو انکے بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے اس کی مثال شاید صرف اسرائیل میں ہی مل سکتی ہے۔
شیعوں کو عوامی اور نجی دونوں مقامات پر نمازجماعت ادا کرنامنع ہے اور اس سلسلہءمیں انہےں قےدو بند کی صورت سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔سرکاری کارندے MORALING POLICE کی زےادتےاں عام ہےں۔شہر خوبر میں شیعوں کی کوئی بھی مسجد نہیں ہے جبکہ سرکاری فند سے قائم شدہ مساجد میں صرف سرکاری مسلک سے وابستہ لوگ نماز ادا کرسکتے ہےں۔شیعہ تفاسیرپر اور، سرکاری طرز سے مختلف خواتین کے لباس و حجاب پر مکمل پابندی ہے اسکی خلاف ورزی کرنے والوں کو مہینوں جےلوں مےں ڈال دےا جاتا ہے اور جو وکلا پیروی کی کوشش کرتے ہےں انکو بھی سرکاری اداروں کے غصہ کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔شیعہ اپنے مدرسے قائم نہیں کر سکتے اور مجبورً انہیںاپنے بچوں کو سرکاری مدارس میں داغلہ کرانا پڑتا ہے، جہاں انہےں ےہ پڑھاےا جاتا ہے کہ SAUDI REGIME کے مسلک سے مختلف سب کافر اور واجب قتل ہےں۔عدالتوں مےں شیعہ افراد کی گواہی ناقابل قبول اور لائق مسترد تصور کی جاتی ہے۔شیعوں کو ہر سطح پر تفریق اور امتےاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔SAUDI REGIME مےں کوئی وزیر، سینےر ڈپلومیٹ، اعلا ملےٹری افسر، جج جےسے اہم عہدوں پر کسی شیعہ کی تقرری نہیں کی جاتی۔ شیعہ طلاب کا MILITARY ACADEMIES مےں داخلہ ممنوع ہے۔مقررین نے SAUDI REGIME کے ظالمانہ اور غےر انسانی طرز عمل کو عالمیبرادری سے نوٹس لےتے ہوئے SAUDI REGIME کو سرزنش کرنے اور اسکے خلاف مناسب پابندےوں کو عائد کرنے کا مطالبہ کےا اور SAUDI REGIME کی MORALING POLICE کو فوری طور بند کرنے، تمام شیعوں کو رہا کرنے، ان کومدینہ سمیت تمام مقامات پر مساجد کی تعمیر کی اجازت دےنے کا مطالبہ کےا گےا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے وطن مین بھی کچھ مسلم افراد اپنی ذاتی منفعت کے لیے سعودی حکومت کی وکالت کرنے میں اس حد تک جھوٹ بول جاتے ہیں کہ اُس حکومت نے جنت البقیع کی مسماری نہیں کی۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک یہ ہے کہ خود شیعوں کی نمایندگی کا دعوہ کرنے والے مولوی انہیں لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیںاور یا تولب کشائی کی ہمت نہیں رکھتے یا پھر خود بھی سعودی حکومت کے وظیفہ خوار ہیں۔ان سے اچھے تو مولانا ظفر مسعود ہیں جنہوں نے اخلاقی جرائت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جمیعت سے استعفا دے دیا۔
شیعوں کی نمائنگی کے دعوےدار دھرم گرو جی اپنی بے عزتی ٹی وی انٹرویو میں ہونے پر وہاں سے واک آؤٹ کرتے ہیں مگر اہلیبیت کے مزارات کی بے حرمتی کرنے والی حکومت کی بے شرمی سے طرفداری کئے جانے پر اس بورڈ سے واک آوئٹ کرنا ضروری نہیں سمجھتے اور اخبارات میں خبریں آ جانے کے بعد تک اس سلسہ میں لب کشائی نہیں کرتے۔ حالانکہ یہی حضرت منبر پر زور بیان دکھاتے ہوئے ۴ اپریل کوامامباڑہ جنت ماب کی مجلس میں اس حد تک اخلاقیات سے گر جاتے ہیں کہ الیسع رضوی صاحب مرحوم ، جنکی تحریکِ عزاداری اور تحفظِ اوقاف کے سلسلہ میںبے لوث خدمات سے پوری قوم واقف ہے، لیکن انکے انتقال کے بعد بھی ان پربہتان تراشی کرتے ہیں وہ بھی عین مرحوم کے چالیسویں کے دن جب کہ شریعت کا کھلا حکم ہے کہ اپنے ُمردوں کا ذکر خیر کے ساتھ کرواور مرنے والوںکے پسماندگان کو تعزیت پیش کرو مگر بجائے تعزیت پیش کرنے کے سیرت یذید پر عمل کرتے ہوئے مرحوم کے پسماندگان کا دل دکھایا ۔ ان مولوی سے اچھے تو وہ غیر مسلم سیاسی لیڈر ہیں جو اپنے سخت ترین مخالف کا بھی مر جانے کے بعد صرف اچھا ہی ذکر کرتے ہیں۔ انکی وہ زبان جو ہر کسی کی برائی کرنے پر آمادہ رہتی ہے آخر سعودی مظالم مثالًا جنت البقیع کا انہدام،کتاب تقوتالایمان ، ابنِ تیمیہ کے فتویے ،شیعوں پر مظالم اور انکے حقوق کی پامالی پر کیوں خاموش ہے؟ اگر قوم بھی منبر کی اس بے حرمتی اور غلط استعمال پر خاموش رہی تو روزِ اآخر نہ تو رحمت خدا کی امید رکھ سکتی ہے نہ ہی شفاعت رسول کی۔ اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ اب اکثر ذاکرین مجالس میں کھل کر حق بولنے لگے ہیں۔
نئے وقف بورڈ کے سلسہ میں یہ رائے ظاہر کی گئی کہ ابھی اس پر کوئی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ مگر یہ ضرور ہے کہ نئے چئیرمین صاحب سے شیعہ قوم کو کافی امیدیں ہیںاس لئے انکوصرف اپنے رشتہ دار مولوی سے ملنے کے بجائے تمام شیعہ علما ئ، تنظیموں اور دانشوروں سے ملاقاتیں کر کے اپنی ایمانداری اورغیر جانب داری کا ثبوت دینا چاہئے تھا۔ بہر حال اگر وہ پچھلے وقف بورڈ کی دھاندھلیوں کے خلاف مناسب اقدام کرتے ہیں اور ایک شخص کو صرف ایک وقف کا متولی بنانے کے اصول پر کام کرتے ہیں اور منشائے واقف کی بنیاد پر اوقاف کا انتظام کرواتے ہیں تو بہت بہتر ہے ۔چونکہ وہ ایک مولوی بھی ہیں اور شریعت سے باخوبی واقف ہیں اس لئے پوری قوم انسے امید رکھتی ہے کہ وہ سابقہ بد عنوانیون کی جانچ کروا کر بغیر اپنے رشتہ داروں کا لحاظ کئے جیسا کہ انکے بارے میں یہ مشہور ہے کہ ماضی میں انہوں نے رشتہ داری کی پرواہ نہ کرکے شریعت پر عمل کرتے ہوئے اپنے ایک لکھنو کے رشتہ دار کی مجلس پڑھنے سے اس لئے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ شخص بے نمازی تھا اس لئے اپنی اسی روش پر عمل کرتے ہوئے غیر جانب داری سے مناسب کاروائی کرتے ہوئے اہلبیت کی جائداد کے لٹیروں کو بے نقاب کرکے اپنی شرعی ذمہ داری پوری کریں گے۔
اخیر میںتحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ سازالحاج جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ اور الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی اوریہ کہا گیا کہ ان دونوں حضرات نے قوم کی فکری بیداری مےں نماےاں خدمات انجام دی ہےں اوردونوںنے نصرت حق مےں شہادت حاصل کی ہے اور اﷲتعٰلی سے ان کے درجات بلند کر نے کی دعا کی گئی۔
No comments:
Post a Comment