دھرم گرو جی کا آشرواد چاہئے یا عام آدمی کا ووٹ
06.04.2010, 09:29am , منگل (GMT)
تنظیم علی کانگریس نے اپنی ہفتہ وار نشست میں پچھلے ہفتے کے حالات کا جایزہ لیتے ہوئے اتفاق رائے سے یہ خیال ظاہر کیا کہ ایک مولوی صاحب اور ان کے جگر بندوں نے وقف بورڈ کو ہتھیانے کے لئے جِس حد تک گری ہوئی چال بازیوں کو اپنایا ہے اُس سے صاف ظاہر ہو گیا ہے کہ اِ ن لوگوں کے دلوں میں اپنا دنیوی مفاد کس قدر عزیز ہے اور اسکے لئے یہ کیا کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔
اسکے ٹھیک بر خلاف قوم کے کچھ حقیقی ہمدردوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اس ماحول میں انصاف کرپانا شائد ان کے لئے ممکن نہ رہ جائے اپنے استعفے دے کر جس پر وقار انداز میں قوم کو یہ بتا دیا ہے کہ اصل حالات کتنے خراب ہیں اُس سے خود ہی روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ لٹیرے کون ہیں اور ہمدرد کون۔ یہ بتانا مشکل ہے کہ ان حالات میں ان حضرات کا میدان میں ڈٹے رہ کر وقف بورڈ کی روز مرہ کاروایوں میں حفاظتِ حق کی کوشش کرتے رہنا زیادہ سود مند ہوتا کہ اُ ن کا استعفی دے دینا بہتر ہے اوراس بات کا فیصلہ آنے والے وقت میں ہی ہو سکے گا۔
کسی قوم کے حالات اﷲ تعالیٰ اسی وقت سدھارتاہے جب وہ خود اپنے حالات بدلنے کی کوشش کرتی ہے ورنہ بلندی سے نیچے گرتے جانے کے لئے کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہوتی یہ کام خود بہ خود ہو جاتا ہے۔ یہ ٹھنڈے دِل و دماغ سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ جِس قوم نے اس ملک پر سات سو سال تک حکومت کی وہ ستر سے بھی کم برسوں پایمال ہو کر پیروں کی دھول سے بھی بدتر ہو گئی جیسا کہ جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ سے ظاہر ہے۔ اگر ہم سونچیں تو بالکل صاف ہو جائے گا کہ ہم ایسے لوگوں کو اپنا نمائندہ مانتے رہے اور ایسے لوگوں کی آنکھ بند کر کے پیروی کرتے رہے جن کا پیشہ ہمارے جذبات کا استحصال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔
یہ لوگ قوم کے جذبات کو مشتعل کر نے کے بعد اُسے ایسے جھنجھنے تھماتے رہے جِس سے اُ سکا کوئی بھلا نہیں ہونے والاتھا جب کہ دوسری قومیں اسی دوران اپنے عروج کی کوششیں کرتی رہیں اپنے حقوق کے بارے میں جاگتی رہیں اور اپنے مذہب کے کسی پاکھنڈی پجاری کے ہاتھ میں کھلونا نہیں بنیں۔ ہم نے یہ مان لیا کہ ہمارا کام صرف ”جناب“ کی اندھی پیروی کرنا ہے اور یہ بھی نہ دیکھا کہ ”جناب“ میں دنیا اور دین کو سمجھنے کی صلاحیت اور اﷲ ، رسول،اہلیبیت اور عوام سے وفاداری ہے بھی یا انکا مقصد صرف اپنا اور اپنے اہلِ خانہ کا شکم پُر کرنا ہے۔ اور ہم بلندی سے پستی میں گرتے چلے گئے۔۔۔جس کے لئے کسے کوشش یا محنت کے ضرورت تھی ہی نہیں۔بس ہماری بے عملی کافی تھی۔
اب یہ عوام کا کام ہے کے ان کے سامنے جو دوطرح کے کردار وقف بورڈ کے تعلق سے آئے ہیں ان میں سے چنے کہ وہ کسے اپنا نمائندہ ماننا چاہتی ہے۔ اسکے آئندہ حالات اسکے اسی فیصلہ پر منحصر ہیں۔ یہ بات یقیناً بہت عمدہ ہے کہ پچھلے تقریباً ایک سال میں قوم نے ظاہر کردیا ہے کہ وہ ”دھرم گرو جی“ کی غلام نہیں ہے بلکہ اپنی عقل اور فہم رکھتی ہے اور اس کے مطابق عمل کرتی ہے
موجودہ حکومت کی بنیاد بہوجن سماج یعنی عام آدمی کی فلاح اور پُجاری ورگ کا داس اور غلام نہ بننے کے نظریہ پر ہونے کی وجہ سے اس سے بہت ساری امیدیں وابسطہ تھیں اور جب تک ا س سرکار کی میعاد پوری نہیں ہو جاتی اور نئے الیکشن کا وقت نہیں آ جاتا تب تک رہیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ عمومی طور پر حکومت نے کچھ بہت اچھے اقدامات کئے بھی جیسے سڑکوں کا بنوایا جانا، عربی فارسی ینیورسٹی کا قیام وغیرہ۔ مگر بد قسمتی سے کسی غلط فہمی کی وجہ سے حکومت نے شیعہ قو م کو ایک” دھرم گرو جی“ کا غلام سمجھ لیا اور بجائے شیعہ معاملات میں عام آدمی کے جذبات کو سمجھے ہوئے صرف انہی ”جناب“کے کہنے پر فیصلہ کرنے شروع کر کے انکی ہمتیں اور بڑھا دیں اور وہ اپنے کو شاید تیرہواں امام سمجھنے لگے۔ اس طرح خود شیعہ قوم پر منو واد لادا جانے لگا اور اسکی قیمت سرکار کو پچھلے انتخابات میں چکانی پڑی۔صاف ظاہر ہو چکا ہے کہ پیسے خرچ کر کے، اور جھوٹ افواہ اڑا کے کچھ نا سمجھ لوگوں کو سڑک پر نکال کر پتلے جلوا لینا اور بات ہے اور الیکشن میںا پنا ووٹ استعمال کرنے کی ایسی رائے دینا جس پر لوگ عمل بھی کریں اور۔اب اس مرحلہ پر یہ طے کرنا حکومت کا کام ہے کہ اُسے” دھرم گرو جی جناب“ کا آشِرواد چاہئے یا مسلم بہوجن سماج کا ووٹ۔ اگر مسلم عام آدمی کے ووٹ قیمتی ہیں تو سرکار کوعام آدمی کے جذبات کو اُسکی واقعی ضرورتوں کو اور اسکی تکلیفوں کو سمجھنا پڑے گا اور اسکے مطابق فیصلے کرنے ہوں گے نہ کہ کسی ایک مولوی صاحب کے کہے پر۔یہ کل یُگ نہیں ہے بلکہ کر یُگ ہے لہٰذا سرکار بھی جو بوئے گی وہی کاٹے گی۔
آج تنظیم کے ایک خاموش رہنما ، علم بردار اور مشعلِ راہ الیسع رضوی صاحب مرحوم کا چہلم ہے۔ تنظیم نے انکے تمام اہلِ خانہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے آج کے اخبارات میں چھپے اپنے سکیٹری جناب اصغر مہدی صاحب کے مضمون کو تنظیم علی کانگریس کے آفیشیل بیان کی صورت میںاڈاپٹ(Adopt )کر لیا۔ اسکے بعد جناب الیسع رضوی صاحب طاب ثراہ اور جناب جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کے لئے سورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی۔
No comments:
Post a Comment