Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Friday, May 21, 2010

MURASALA OF ATHER SALEEM PUBLISHED IN SAHAFAT 5.8.2009

مراسلہ


مکرمی

آجکل شیعہ اوقاف کی زمینوں کے بلڈر ایگریمنٹ دھڑلے سے ہو رہے ہیں۔پورے صوبہ میں اوقاف کی املاک ہے بہت سے ایسے مقامات ہیںکہ جہاں شیعوں کی آبادی نہیں ہے ۔جب جہاںشیعوں کی اچھی آبادی ہے وہاں کی زمینوں کو بلڈروں کے حوالے بے خوف ہو کر کیا جا رہا ہے تو ان مقامات کی زمینوں کا کیا حشر ہوگا کہ جہاں شیعہ آبادی ہے ہی نہیں یا یہ کہ مختصر آبادی ہے ۔یہ تو اللہ ہی جانے۔

کیا مومنین نے اپنی جائدادیں اسی لئے نام حسینؑ پر وقف کی تھیں کہ وقف بورڈکا چیئرمین ایک مولانا کی پشت پناہی میں اس املاک کو جو شیعہ قوم کے غریبوںِ،بیواو ¾ںاور لاچاروںکے لئے وقف کی گئی تھی اس املاک کو بلڈروں کے حوالے کر دے۔جہان تک میں سمجھتا ہوں اوقاف کسی کی ذاتی ملکیت تو ہے نہیں اور اسکو فروخت کرنے کا حق کسی کو بھی نہیں ہے چاہے وہ چیئرمین ہو یا کوئی مذہب کا ٹھیکےدارہی کیوں نا ہو۔اوقاف کے معمولی سے فائدہ کی آڑمیں خوب مال کمایا جا رہا ہے۔بہت ہی معمولی کرایہ کا فائدہ دکھا کر قوم کو بےوقوف بنا یا جا رہا ہے ۔کیونکہ چیئرمین کو مولانا کلب جواد صاحب کی مکمل حمایت حاصل ہے لہٰذاجو لوگ مولانا پر اپنی جہالت کی بنا پر اندھا بھروسہ کرتے ہیں وہ لوگ چیئرمین کے جھانسے میں آکر اسکے ان گھناو ¿نے کاموں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے خود بھی گناہگار ہو رہے ہیں ۔آج تک اوقاف کی بحالی کے نام پر شیعوں کوہی پریشان کرتے ہوئے انکو وقف کے مکانوں اور دوکانوں سے نکالا گیا اور املاک خالی کراکر بلڈروں کو دے دی گئی ۔

لاکھوں کروڑوں کی زمینیں بلڈروں کوبہت ہی معمو لی اورآسان شرائط پر دی جا رہی ہیں اور وہ اس پر مکان و دوکان تعمیر کراکر من موافق قیمت میں جسکو چاہیں فروخت کر رہے ہیں ۔خریدار وقف بورڈ کو بہت ہی معمولی کرایہ دیگا ۔ یہ دکھایا جاتا ہے کہ وقف کی آمدنی بڑھ گئی ۔قوم خوش کتنا اچھا کام ہو گیا بیکار پڑی زمین جس سے کوئی فائدہ نہیں تھا کم سے کم اس سے وقف کو کچھ فائدہ تو ہوا۔ مکان و دوکان بک جانے کے بعد کون پوچھتا ہے کہ وقف کو ان مکانوں اور دوکانوں کا کرایہ مل بھی رہا ہے کہ نہیں؟ ترس آتا ہے ایسی سوچ رکھنے والوں پر جنکو وقف کا معمولی فائدہ تو نظر آتا ہے لیکن اس کام سے کن کن محترم شخصیتوں کو کتنے بڑے بڑے فائدہ ہوئے یہ ان بیچاروں کی سمجھ میں نہیں آتا۔وقف رانی سلطنت کی حضرت گنج میں واقع جای ¿داد کا حشر کسی سے چھپا نہیں ہے۔ پہلے تعمیر کو رکوایا گیا اور پھر وہی تعمیر رکوانے والا تعمیر مکمل کروا کر نذر دینے بھی پہنچ گیا۔

جس طرح جرم کرنے والا تو مجرم ہوتا ہی ہے مجرم کی مدد کرنے والا بھی مجرم ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح جو اوقاف کو لوٹ رہے ہیں وہ تو مولا کے مجرم ہیں ہی ان لٹیروں کی مدد کرنے والے، چاہے ہو براہ راست لوٹ رہے ہوں اور چاہے اس لوٹ پر خاموش رہ کر لٹیروں کا ساتھ دے رہے ہوں، بھی مولا کے مجرم ہیں۔اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم اوقاف کے لٹیروں کی مخالفت کر کے مولا کی خوشنودی حاصل کر یں یا اوقاف کے لٹیروں کی حمایت کرکے مولا کے مجرم بن جائیں۔

اطہر سلیم

غوث گنج، لکھنو ¿

فون نمبر 9696707399

MURASALA OF BAHAR AFSAR 25 JULY 2009 PUBLISHED IN AWADHNAMA

برائے اشاعت
مکرمی!
آپ کے اخبار کے ذریعہ یہ اطلاع ملی کی جناب کے خاندان کے مولانا عقیل شمسی صاحب نے ایک شرعی عدالت قای ¿م کی ہے جس میں مومنین کے بیچ کے تنازعات کا فیصلہ کیا جائے گا۔میں نے سوچا کہ اس انقلابی قدم کے لیئے جناب مولانا عقیل شمسی صاحب کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔
میں نے اس سلسلہ میں درگاہ حضرت عباس جا کر شرعی عدالت کا دفتر اور اجلاس معلوم کرنا چاہا تو مجھے کوئی جانکاری حاصل نہیں ہو سکی۔ مجھے ایک صاحب نے بتایا کہ عقیل شمسی صاحب جوہری محلہ میں جناب کے دفتر کے پاس روز شام کو اجلاس لگاتے ہیں۔ میں جب شام کے وقت گیا تو میری توقعات کے بر خلاف ایک لڑکا ایسا شخص نیکر پہنے بیٹھا تھا۔ مجھے یقین نہیں آیا کہ یہی شخص شرعی عدالت کی باتیں کر رہا ہے۔ پھر بھی میں نے حقیقت جاننے کے لیئے اس سے پوچھا کہ شرعی عدالت کا دفتر کہاں ہے، تو اس نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا کہ شرعی عدالت کا دفتر تو میری جیب میں ہے۔ میں خاندان اجتہاد سے کافی عقیدت رکھتا تھا مگر اب معلوم ہو گیا کہ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ یہ سطریں لوگوں کے عبرت حاصل کرنے کے لیئے ہیں۔
بہار افسر
مشک گنج،لکھنو

Thursday, May 20, 2010

جنت البقیع کی تعمیر نو کے لئے جد و جہد جاری رکھنے کا عزم؛

Youth Ali Congress
Ahata Mirza Ali Khan,Lucknow-3

(برائے اشاعت)

جنت البقیع کی تعمیر نو کے لئے جد و جہد جاری رکھنے کا عزم؛

یوتھ علی کانگریس نے معصومہ عالم کا امام زمانہ کو پرسہ دیا

لکھنو ¾ ۹۱مئی پیغمبر اسلام (ص) کی لخت جگر حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شہادت کی مناسبت سے ماتمی جلوسوں اور عزاداری میں شرکت کرتے ہوئے یوتھ علی کانگریس نے امام زمانہؑ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے مومنین سے اپیل کی ہے کہ وہ اس غم کو ہمیشہ شدت سے منایا کریں کیونکہ پیغمبر اسلام کو اپنی بیٹی سب سے زیادہ عزیز تھیں۔یوتھ علی کانگریس نے مومنین سے اپیل کی کہ وہ آل سعود سے بار بار مطالبہ کریں کہ جنت البقیع کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے اور ان مبینہ قائدین کی مذمت کی گئی جو اتحاد کے نام پر حق بات کہنے سے کترا رہے ہیں۔یوتھ علی کانگریس نے سعودی حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ کسی بھی حالت میں اہلیبیت کے مزارات مقدسہ کو بوسیدہ حالت میں نہیں رہنے دیا جائےگا اور ہم تا حیات اپنے اس مطالبے کو دہراتے رہیں گے ،جنت البقیع کی تعمیر نو کے بعد ہی مسلمانوں کے ان طبقات میں حقیقی معنی میں اتحاد پیدا ہو سکے گا جو رسول اکرم ﷺ کی بیٹی اور اہلیبیت اطہار میں سے چند کے مزارات کی مسماری کے بعد اب تک خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یوتھ علی کانگریس نے شیعہ تنظیموں،اداروں اور خود کو بڑی شخصیت سمجھنے والے افراد سے مطالبہ کیا کہ جنت البقیع کے معاملات میں انکی مجرمانہ خاموشی حد سے زیادہ ہو گئی ہے اور اب عزادار خوب سمجھنے لگے ہیں کہ ذاتی مفادات کے لئے تو جلسے اور جلوس منعقد کرنے میں تاخیر نہیں کی جاتی اور اہلیبیت پراب تک روا مظالم کرنے والوں کی دل جوئی کےلئے اور وہابیوں کی حمایت کرتے ہوئے حق سے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔

یوتھ علی کانگریس کی اس میٹنگ میں ان تمام اداروں بلخصوص مولانا عابد بلگرامی اور مولانا سیدمحمد میاں عابدی صاحب قُمّی کے تئیں شکریہ ادا کیا گیا جنہوں نے ان ایام غم میں معصومہ عالم کے فضائل و مصائب کو عوام کے سامنے پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور جنکی بے لوث کاوشوں سے عوام میں بیداری پیدا ہوئی اور شہزادی ¿ کونین جناب فاطمہ زہرا کی شہادت شایانِ شان طریقے سے مناتے ہوئے سوگوارانہ ماحول میں دن گزارے۔

جاری کردہ:منصور حسن

Monday, May 17, 2010

اسلام مےں عورتوں کا مقام

مراسلہ برائے اشاعت


اسلام مےں عورتوں کا مقام

صدر اسلام مےں مسلمان عورتوں کوکافی حقوق حاصل تھے، جن کا تصو ر آج کامعاشرہ نہےں کر سکتا۔ چاہے وہ ذہنی طور پر بےمار کوئی نامعقول شخض جو خود نمائی کے احساس مےں مبتلاہو ےا پھر تحرےک نسواں کا علمبردار ، ےہ دنوں ہی اپنے عدم مطالعہ اور اپنے ذاتی مفاد کی بنا پر معاشرہ کو گمراہ کرنے مےں مصروف نظر آتے ہےں۔صدر اسلام مےں مسلمان عورتوںکی سب سے بڑی عظمت و بے باکی ےہ تھی کہ وہ تحریک امر بالمعروف اور نہی عن المنکرمےں برابر کی شریک تھےں۔وہ راہ اسلام مےں ہر چےز کو قربان کر دےتی تھےں۔رسول سے بےعت،ترک وطن،حبشہ کی طرف ہجرت، مدےنہ کی طرف ہجرت مےں شرکت ،جنگوں مےں شرکت،اسلام کے سربازوں کے لئے کھانا پانی فراہم کرنے اور مجروح سپاہےوں کی مرہم پٹی کی زمہ داری، اور کبھی رسولسے دفاع کر نے کے لئے اسلحہ اٹھانے کا کام انجام دےنا ، ظلم و استبداد کے مقابل ہمےشہ مدافعت کرنا، اےسے ہی لا تعدادکتنے ہی کارنامے ہےں جن سے تارےخ اسلام کے اوراق بھرے ہےں۔تاریخ اسلام کا اگر سر سری نگاہ سے ہی مطالعہ کےا جائے تو ہمارے سامنے مسلمان عورتوں کی اےسی متعدد خدمات اجاگر ہو جاتی ہےںجو ہمارے لئے بلا تفریق جنس قابل پےروی ہےں۔

دستورات اسلامی کی اشاعت کے سلسئہ مےں حضرت خدےجہ ؑکی قربانی واےثار سے کون واقف نہےں ہے،آپ رسول اکرم کا داےاں بازوں تھےں۔ خود رسول اکرم فرماتے ہےں کہ وہ مےرے اوپر اس وقت اےمان لائےں جب سب کافر تھے،اس وقت مےری تصدیق کی جب سب جھٹلاتے تھے۔ اس وقت اپنی دولت و ثروت مےرے اختےار مےں دی جب دوسروں نے مجھے محروم کر دےا تھا۔ حضرت خدےجہ ؑکی عظمت کے لئے یہی دلیل کافی ہے کہ آپ اولین مسلمان او ر پہلی نمازی تھےں۔

جناب فاطمہ زھرا ؑکو ےہ فخر حاصل ہے کہ آپ مےدان مباہلہ مےں شریک تھےں۔آپ کا طرز زندگی مکمل طور پر نمونہ ہے۔آپؑ نے رسول اکرم کی وفات کے بعد اپنے شوہر علی مرتضی ؑکے احقاق حق کے لئے جو کارنامے انجام دئیے ہےںوہ تاریخ کے اوراق مےں درج ہےں اور ےہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ کی زندگی وفا کرتی تو کامےا بی ےقینی تھی ۔ آپ چالیس دن تک انصار و مہاجرین کے گھر جاتی اوران سے تعاون کا تقاضا کر تی تھےں۔آپ نے اپنے ولولہ انگےز خطبہ مےں نہاےت قیمتی حقائق بےان کئے ہےں،جناب فاطمہ زھراؑکا خطبہ استدلال بھی ہے اور محاکمہ بھی اور لوگوں کو ےہ وصیت بھی کہ ظلم و جور کی حکومت اور نظام کی مخالفت کے لئے ثابت قدمی سے کام لےں۔جناب فاطمہ زھراؑکا گرےہ بھی اےک قسم کا حق طلبانا جہاد تھا، ان کا گریہ خواہ مخواہ پابندی کی زدمےں نہےں آےا تھا۔ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر احمد بہشتی تحریر کرتے ہےں کہ اس سرد جنگ کا آغاز مظلوم اس وقت کرتے ہےں جب انھےں مثبت روےہ کے جہاد سے روک دےا جاتا ہے۔

جناب ام سلمہ ؓ اپنی قاتع اور روشن دلائل سے جنگ جمل کے موقع پرحضرت علیؑ کی مخالفت پر آمادہ لوگوں کو ان کے اشتباہ اور غلطی سے آگاہ کراتی تھےں اور ان سے مزاکرات کی ناکامی کے بعدآپ نے مکہ سے حضرت علیؑ کواےک خط بھی لکھا تھاجو تاریخ کے اوراق مےں درج ہے۔آپ نے ہمےشہ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکے فرئیضہ پر عمل کےا اور اس بات کی نشرواشاعت کرتی رہیں کہ طمع پرور اور دنےا پرست علیؑ کے دوست نہیں ہو سکتے۔

جناب زےنبؑ کی فصاحت و بلاغت اور شجاعت بے نظیر ہے، آپ اپنے والد کی امانتدار تھیں، امام حسےنؑ نے اسرارامامت ان کے سپرد کئے تھے۔آپ عقیلہ کے لقب سے مشہور تھیں۔فدک کے بارے مےں ابن عباس نے حضرت فاطمہ زھراؑ کا خطبہ حضرت زےنبؑ سے نقل کےا ہے۔ بنی امےہ کی کوشش ےہ تھی کہ اسلام کو نےست و نابود کر دےں۔لےکن حضرت زےنبؑ نے اپنے خطبوں سے انھےں رسوا کر کے دینِ اسلام کو خطرہ سے بچا لےا۔ابن زےاد اور ےزید کے سامنے حضرت زےنبؑ کے ولولہ انگےز خطبے ان کے لئے سرنش اور امر بالمعروف ونہی عن المنکرہےں۔

تاریخ اسلام مےںنسیبہؓ بنت کعب بن عمروکا کردار قابل ذکر ہے۔آپ بےعت عقبہ و رضوان مےں شریک تھےں۔ اپنے بےٹے اور شو ہر کے ساتھ جنگ احد مےں شریک رہیں اور شمشیر اور تیر کمان سے رسولاکرم سے دفاع کےا اور ۳۱ زخم کھا ئے۔ےمامہ مےں جب مسیلمہ نے نبوت کا دعوا کےا تو آپ نے اسلامی فوج کے شانہ بشانہ اس سے جنگ کی۔ ا’س جنگ مےں ان کے بےٹے شہید ہوئے اور خود نے بھی ۲۱ زخم کھائے۔

اسی طرح کی قرآن، حدیث، اور تاریخ کی متعدد مثالی خواتین ہےں جو اپنے وقت کے ظالم حکمراں اور بے عمل وگمراہ معاشرہ کے خلاف ثابت قدمی سے امر بالمعروف ونہی عن المنکرکے دینی فرائض کو انجام دےتی رہیں اور سےاست کو متاثر کرتی رہیں ہےں۔ےہ کہنا درست ہے کہ موجودہ سےاست خواتین کے لئے مناسب نہیں ہے تو کےا اسلامی نقطہ نظر سے ےہ مردوں کے لیے جائز قرار دی جا سکتی ہے؟

اگر کسی کے بےان سے ےہ تائثر جائے کہ خواتین کا کام صرف اور صرف بچوں کو جنم دےنا اور انکی پرورش کرنا ہے تو ےہ بات اسلامی اصولوں کے مطابق تو بالکل نہیں ہے ۔دراصل اس طرح کی ذہنےت کے افراد ہر سماج مےں مل جائےنگے، ےہ لوگ ڈارک اےجز ےعنی دور جاہلی کے کلیسائی دینی ،سماجی اور سےاسی عقائد کے پےروکار ہےں۔

اصغر مہدی

تحسین گنج، لکھنﺅ

یہ سیرتِ ائیمہ کی پیروی ہے یا کردار یزید ابن معاویہ کی؟:تنظیم علی کانگریس

ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.

Ref.No............                          Date............

برائے اشاعت

یہ سیرتِ ائیمہ کی پیروی ہے یا کردار یزید ابن معاویہ کی؟:تنظیم علی کانگریس

لکھنو ¾ ۶۱مئی تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں حالات حاضرہ پر غور کرتے ہوئے یہ بیان جاری کیا گیا کہ پچھلے ہفتے مولوی کلب جواد صاحب کے گھر پر اُنسے ملنے گئے ایک عزادار و نمازی آصف صاحب کے ساتھ جو کہ شیش محل کے رہنے والے ہیں اور جو نماز جمعہ میں نمازیوں کی بے لوث خدمات کرتے ہیں ، مولوی صاحب موصوف کی موجودگی میں ہی انکے رشتے کے بھائی نے جوہاتھا پائی اور مار پیٹ کی وہ انتہائی شرمناک ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انکی موجودگی میں ہی کچھ محترم علماءدین کو گالیاں بھی دی گئیں۔ ایک طرف تو ائیمہ ¾ طاہرین کی سیرتِ پاک ہے جو اپنے دشمنوں کا بھی استقبال کرتے تھے دوسری طرف یہ خود ساختہ قائیدین ہیں جو کہ مہمان مومنین کے ساتھ بھی بیہودہ حرکتیں کرتے ہیں۔ گھر آیے مہمان کے ساتھ مارپیٹ کرنا کیا یزید ابن معاویہ کے کردار کی پیروی نہیں ہے؟ انتظامیہ کو چاہئے کہ اس سلسے میں مناسب کارروائی کرے۔

اجمل قصاب کے جیسے دہشت گرد کو سزائیے موت دے کر اور دو ایسے افراد کو بری کر کے جن کے خلاف فرد جرم ثابت نہ ہو سکی ہندوستان میں وکالت اور عدلیہ کے مقدس پیشے کا وقار بلند ہوا۔ اسلام میں دہشت گردی کا کوئی تصور ممکن نہیں ہے اور کوی ¾ بھی دہشت گرد مسلمان ہو ہی نہیں سکتا خواہ وہ اپنا نام کچھ بھی رکھ لے۔ اسی طرح کوئی بھی مسلمان دہشت گرد نہیں ہو سکتا۔ اس انتہائی سنجیدہ معاملے میں بھی جس میں وکالت کے پیشے کی اہمیت اور اسی پیشے سے آگے پہونچنے والے جج صاحبان کی سچائی اور ایمانداری ثابت ہوئی ہے کچھ لوگ اپنی روٹی سینکنے میں ایسے بیان دے رہے ہیں جو اسلام اور عام اخلاقیات کے بالکل خلاف ہے اور جو انکا فاشسٹ نظریوں کا حامل ہونا اور پسماندہ برادریوں کا دشمن ہونا ثابت کرتا ہے۔ کچھ لوگ جو ایک زمانے میں یہ بیان دے رہے تھے کہ وکیلوں کا پیشہ ہی جھوٹ بولنا ہے اور یہ بھی نہیں سوچاتھا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی اور ہندوستان کے آئین کے خالق بابا صاحب بھیم راوءامبیڈکر بھی ایک وکیل تھے اور ہندوستان کے محترم چیف جسٹس بھی ایک وکیل ہی تھے اور جنہوں نے یہ کہا تھا کہ عورت کا کام ہی بچے پیداکرنا ہے اور یہ بھی نہ سوچا کہ ہندوستان کی محترم صدر ایک خاتون ہیں اور صوبے کی محترم وزیرِ اعلیٰ بھی ایک خاتون ہیں ، وہی مولوی صاحب بے سوچے سمجھے یہ کہہ بیٹھے کہ قصائی کا پیشہ ہی قتل کرنا ہے۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے آر ایس ایس والے ہر مسلمان کو دہشت گرد کہتے ہیں۔ جب کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ قصائی کا کام قتل کرنا ہے۔قصائی کا کام جانوروں کو حلال کرنا ہے جنکو بھوکے انسان کھاتے ہیں۔ نہ تو سارے دہشت گرد قصائی ہیں نہ سارے قصائی دہشت گرد۔ مگر جن مولوی صاحب نے یہ بیان دیا ہے انکی فطرت میں ہی فسطائیت اور پسماندہ ذاتوں کے خلاف نفرت بھری پڑی ہے۔ جو کہ اسلام کے بھی خلاف ہے اور ملکی جمہوری اور مساوات کے ضابطوں کے بھی۔ اور ایساکہہ کر انہوں نے ایک پوری پسماندہ برادری کی توہین کی ہے۔ کیا یہی سیرت ایئمہ ہے؟

پچھلے ہفتے کے ہی ایک اخبار میں انہی مولوی صاحب کی جو کہ ہزاروں بار عوام کو یہ بتا چکے ہیں کہ جناب امیرؑ صرف جو کی سوکھی روٹیاں کھاتے تھے ایک تصویر رائل کیفے میں ایک ایسے مولوی صاحب کے ساتھ لقمہءتر اڑاتے دیکھ کر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہوا جنکا اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فرمانا تھا کہ وہ جب چاہیں فساد کروا سکتے ہیں۔ ان افراد کا اتحاد صرف کھانے میں ہی ہے۔ یہ خود متحد ہیں تاکہ قومی املاک سے اپنے اور اپنے اقربا کے شکم پر کر سکیں انہیں قوم کے واقعئی اتحاد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انکا اتحاد وقف بورڈ، شیعہ کالج، عید گاہ وغیرہ پر قبضے تک ہی محدود ہے۔

اﷲ کا شکر ہے کہ تنظیم علی کانگریس کی کوششیں رنگ لا رہی ہیں اور عوام میں معیاری اصلاحی ذاکری کی پسند بڑھ گئی ہے جیسے جناب عابد صاحب بلگرامی ، جناب موسی رضا صاحب ،جناب محمد میاں عابدی قمی وغیرہ کی مجلسیں خصوصیت سے پسند کی جا رہی ہیں۔ تنظیم علی کانگریس اسکے لئے اپنے شہید قائیدین تحریک عزاداری اور تحفظ اوقاف کے علمبردار اور منصوبہ ساز جاوید مرتضیٰ صاحب مرحوم اور الیسع رضوی صاحب مرحوم کو آفرین کہتی ہے۔ اخیر میںنکے لئے سورہءفاتحہ کی تلاوت کی گئی۔

جاری کردہ

لائق علی

Monday, May 03, 2010

ماضی کو بھولنے کی بات ظالموں کی بےہودہ منطق۔


03.05.2010, 12:03am , سوموار (GMT)
لائق علی

تنطیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں حالات حاضرہ پر غور کرتے ہوئے ی کہا گیا کہ قوم کی بدحالی اور پسماندگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے غور و فکر کرنے کی اپنی روش ترک کر دی حالانکہ آج بھی ساری دنیائے علم ہمارے اسلاف کی فکری خدمات کا اعتراف کرتی ہے کہ آئمہ حق کے شاگردعظیم مفکرین نے یوروپ کو سائنس کی روشنی دی ۔جب تک حالات ایسے رہے تب تک ہماری قوم ساری دنیا پر چمکتے سورج کی طرح سے چھائی رہی ،مگر جیسے ہی ہم نے یہ انداز ترک کیا ویسے ہی ہم پیروں کی دھول بن گئے۔

موجودہ دور میںتحقیق و جستجو کے فقدان کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ انتہائی غلط اور بے تکی باتیں بھی ہم بالکل بءحسی کے ساتھ ہضم کر جاتے ہیں۔اور ان پر بولتے بھی نہیں۔ اسکی ایک مثال یہ ہے کہ شیعہ وقف بورڈ کے ئے چیرمین صاحب نے پچھلے ہفتے اخبارات میں چھپی خبروں کے مطابق ماضی کو بھول کر مستقبل سدھارنے کی بے تکی بات کہہ ڈالی اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہر ظالم کی سب سے پرانی دلیل اور نا قص منطق یہی ہے ۔جبکہ مستقبل کہیں الگ سے پیدا نہیں ہوتا،بلکہ حال سے نکلتا ہے۔اور حال ماضی کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے،اسلئے ماضی کی غلطیوں اور مظالم کو درست کئے بغیر کسی اچھے مستقبل کی بات سوچی ہی نہیں جا سکتی۔

ہر ظالم یہ چاہتا ہے کہ مظلوم عوام ماضی میں کی گئی اسکی یا اسکے ہمناووں کی زیادتیوں،خیانتوں اور مظالم کو بھول جائیں اور ان حقوق کی واپسی کا مطالبہ نہ کریں جو ظالم نے غصب کر رکھے ہیں۔لہذا یہی بات یزید ابن معاویہ نے اہلیبیت اطہار کو رہا کرتے وقت کی تھی۔یہی دلیل آج ڈاکٹر ذاکر نائیک دیتے ہیں کہ چودو سو سال قبل کو بھول کر مستقبل کی بات کی جائے۔اگر ماضٰ کو بھول جانا درست ہے تو گجرات کے فسادات کا رونا کیوں؟بابری مسجد کی بازیابی کی بات کیوں؟مسجد اقصی کیوں نہیں بھول جاتے؟اور کیا ویہی وجہ کہ کچھ لوگ جنت البقیع کے بارے میں اسی لئے’چُپی سادھے‘ ہوئے ہیں تاکہ لوگ اور آنے والی نسلیں دھیرے ۔دھیرے سبھی سعودی مظالم کو بھول جائیں۔ چیر مین وقف بورڈ کی یہ بات واضح کردیتی ہے کہ ان سے بھی کسی انصاف کی امید نہیں کی جاسکتی۔

اگر قوم نے اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھیں تو وقف بورڈ میں اقرباءپروری اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ایسا لگتا ہے کہ نئے چیرمین صاحب کی حٰثیت صرف اور صرف ایک ڈمی کی ہی رہے گی۔ دوسری جانب اللہ کا شکر ہے کہ تنظیم علی کانگریس کی کاوشیں رنگ لا رہی ہیں اور تمام لوگ اوقاف کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف آوازیں بلند کرنے لگے ہیں۔جیسا کہ ایک اردو اخبارمیں شائع خبر سے ظاہر ہے کہ رام پور کی حسینی سرائے کی دو سو کروڑ روپئے میں فروخت کا معاملہ دب نہ سکا۔ساتھ ہی اس معاملہ میں ملت کے خو ساختہ قائد کی مجرمانہ خاموشی کہیں کسی بہت بڑے ریکٹ اور اسکینڈل کی طرف نشاندہی تو نہیں کرتی؟ جبکہ وقف رانی سلطنت کے معاملہ میں غریب قوم کو صرف اپنی ذاتی فائدے کے لئے سڑکوں پر نکالا گیا تھا ،ایسی حالت میں ضروری ہوگیا ہے کہ اب ان تمام حالات کی تحقیق سی بی آئی سے بلا تاخیر کرائی جائے۔

فیض آباد میں واقع بہو بیگم صاحبہ کے مقبرے کے سلسلے میں عدالتی حکم کا خیر مقدم کیا گیا۔

میٹنگ میں واعظ حق اور تحریک عزاداری میںمقبرہ سعادت علی خان سے جی پی او تک احتجاجی خاموش جلوس کی رہبری کرنے والے مولانا رضوان حسین کی رحلت پر اظہار افسوس کیا گیا اور سورہ فاتحہ سے تحریک دین فہمی و تحریک تحفظ اوقاف کے منصوبہ سازالحاج مرزا جاوید مرتضی و الیسع رضوی طاب ثراہ سے روح کو شاد کیا گیا۔

عالمی اخبار - ماضی کو بھولنے کی بات ظالموں کی بےہودہ منطق۔

عالمی اخبار - ماضی کو بھولنے کی بات ظالموں کی بےہودہ منطق۔