مراسلہ
مکرمی
آجکل شیعہ اوقاف کی زمینوں کے بلڈر ایگریمنٹ دھڑلے سے ہو رہے ہیں۔پورے صوبہ میں اوقاف کی املاک ہے بہت سے ایسے مقامات ہیںکہ جہاں شیعوں کی آبادی نہیں ہے ۔جب جہاںشیعوں کی اچھی آبادی ہے وہاں کی زمینوں کو بلڈروں کے حوالے بے خوف ہو کر کیا جا رہا ہے تو ان مقامات کی زمینوں کا کیا حشر ہوگا کہ جہاں شیعہ آبادی ہے ہی نہیں یا یہ کہ مختصر آبادی ہے ۔یہ تو اللہ ہی جانے۔
کیا مومنین نے اپنی جائدادیں اسی لئے نام حسینؑ پر وقف کی تھیں کہ وقف بورڈکا چیئرمین ایک مولانا کی پشت پناہی میں اس املاک کو جو شیعہ قوم کے غریبوںِ،بیواو ¾ںاور لاچاروںکے لئے وقف کی گئی تھی اس املاک کو بلڈروں کے حوالے کر دے۔جہان تک میں سمجھتا ہوں اوقاف کسی کی ذاتی ملکیت تو ہے نہیں اور اسکو فروخت کرنے کا حق کسی کو بھی نہیں ہے چاہے وہ چیئرمین ہو یا کوئی مذہب کا ٹھیکےدارہی کیوں نا ہو۔اوقاف کے معمولی سے فائدہ کی آڑمیں خوب مال کمایا جا رہا ہے۔بہت ہی معمولی کرایہ کا فائدہ دکھا کر قوم کو بےوقوف بنا یا جا رہا ہے ۔کیونکہ چیئرمین کو مولانا کلب جواد صاحب کی مکمل حمایت حاصل ہے لہٰذاجو لوگ مولانا پر اپنی جہالت کی بنا پر اندھا بھروسہ کرتے ہیں وہ لوگ چیئرمین کے جھانسے میں آکر اسکے ان گھناو ¿نے کاموں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے خود بھی گناہگار ہو رہے ہیں ۔آج تک اوقاف کی بحالی کے نام پر شیعوں کوہی پریشان کرتے ہوئے انکو وقف کے مکانوں اور دوکانوں سے نکالا گیا اور املاک خالی کراکر بلڈروں کو دے دی گئی ۔
لاکھوں کروڑوں کی زمینیں بلڈروں کوبہت ہی معمو لی اورآسان شرائط پر دی جا رہی ہیں اور وہ اس پر مکان و دوکان تعمیر کراکر من موافق قیمت میں جسکو چاہیں فروخت کر رہے ہیں ۔خریدار وقف بورڈ کو بہت ہی معمولی کرایہ دیگا ۔ یہ دکھایا جاتا ہے کہ وقف کی آمدنی بڑھ گئی ۔قوم خوش کتنا اچھا کام ہو گیا بیکار پڑی زمین جس سے کوئی فائدہ نہیں تھا کم سے کم اس سے وقف کو کچھ فائدہ تو ہوا۔ مکان و دوکان بک جانے کے بعد کون پوچھتا ہے کہ وقف کو ان مکانوں اور دوکانوں کا کرایہ مل بھی رہا ہے کہ نہیں؟ ترس آتا ہے ایسی سوچ رکھنے والوں پر جنکو وقف کا معمولی فائدہ تو نظر آتا ہے لیکن اس کام سے کن کن محترم شخصیتوں کو کتنے بڑے بڑے فائدہ ہوئے یہ ان بیچاروں کی سمجھ میں نہیں آتا۔وقف رانی سلطنت کی حضرت گنج میں واقع جای ¿داد کا حشر کسی سے چھپا نہیں ہے۔ پہلے تعمیر کو رکوایا گیا اور پھر وہی تعمیر رکوانے والا تعمیر مکمل کروا کر نذر دینے بھی پہنچ گیا۔
جس طرح جرم کرنے والا تو مجرم ہوتا ہی ہے مجرم کی مدد کرنے والا بھی مجرم ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح جو اوقاف کو لوٹ رہے ہیں وہ تو مولا کے مجرم ہیں ہی ان لٹیروں کی مدد کرنے والے، چاہے ہو براہ راست لوٹ رہے ہوں اور چاہے اس لوٹ پر خاموش رہ کر لٹیروں کا ساتھ دے رہے ہوں، بھی مولا کے مجرم ہیں۔اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہم اوقاف کے لٹیروں کی مخالفت کر کے مولا کی خوشنودی حاصل کر یں یا اوقاف کے لٹیروں کی حمایت کرکے مولا کے مجرم بن جائیں۔
اطہر سلیم
غوث گنج، لکھنو ¿
فون نمبر 9696707399
No comments:
Post a Comment