Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Monday, May 03, 2010

ماضی کو بھولنے کی بات ظالموں کی بےہودہ منطق۔


03.05.2010, 12:03am , سوموار (GMT)
لائق علی

تنطیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں حالات حاضرہ پر غور کرتے ہوئے ی کہا گیا کہ قوم کی بدحالی اور پسماندگی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے غور و فکر کرنے کی اپنی روش ترک کر دی حالانکہ آج بھی ساری دنیائے علم ہمارے اسلاف کی فکری خدمات کا اعتراف کرتی ہے کہ آئمہ حق کے شاگردعظیم مفکرین نے یوروپ کو سائنس کی روشنی دی ۔جب تک حالات ایسے رہے تب تک ہماری قوم ساری دنیا پر چمکتے سورج کی طرح سے چھائی رہی ،مگر جیسے ہی ہم نے یہ انداز ترک کیا ویسے ہی ہم پیروں کی دھول بن گئے۔

موجودہ دور میںتحقیق و جستجو کے فقدان کا یہ عالم ہوگیا ہے کہ انتہائی غلط اور بے تکی باتیں بھی ہم بالکل بءحسی کے ساتھ ہضم کر جاتے ہیں۔اور ان پر بولتے بھی نہیں۔ اسکی ایک مثال یہ ہے کہ شیعہ وقف بورڈ کے ئے چیرمین صاحب نے پچھلے ہفتے اخبارات میں چھپی خبروں کے مطابق ماضی کو بھول کر مستقبل سدھارنے کی بے تکی بات کہہ ڈالی اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہر ظالم کی سب سے پرانی دلیل اور نا قص منطق یہی ہے ۔جبکہ مستقبل کہیں الگ سے پیدا نہیں ہوتا،بلکہ حال سے نکلتا ہے۔اور حال ماضی کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے،اسلئے ماضی کی غلطیوں اور مظالم کو درست کئے بغیر کسی اچھے مستقبل کی بات سوچی ہی نہیں جا سکتی۔

ہر ظالم یہ چاہتا ہے کہ مظلوم عوام ماضی میں کی گئی اسکی یا اسکے ہمناووں کی زیادتیوں،خیانتوں اور مظالم کو بھول جائیں اور ان حقوق کی واپسی کا مطالبہ نہ کریں جو ظالم نے غصب کر رکھے ہیں۔لہذا یہی بات یزید ابن معاویہ نے اہلیبیت اطہار کو رہا کرتے وقت کی تھی۔یہی دلیل آج ڈاکٹر ذاکر نائیک دیتے ہیں کہ چودو سو سال قبل کو بھول کر مستقبل کی بات کی جائے۔اگر ماضٰ کو بھول جانا درست ہے تو گجرات کے فسادات کا رونا کیوں؟بابری مسجد کی بازیابی کی بات کیوں؟مسجد اقصی کیوں نہیں بھول جاتے؟اور کیا ویہی وجہ کہ کچھ لوگ جنت البقیع کے بارے میں اسی لئے’چُپی سادھے‘ ہوئے ہیں تاکہ لوگ اور آنے والی نسلیں دھیرے ۔دھیرے سبھی سعودی مظالم کو بھول جائیں۔ چیر مین وقف بورڈ کی یہ بات واضح کردیتی ہے کہ ان سے بھی کسی انصاف کی امید نہیں کی جاسکتی۔

اگر قوم نے اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھیں تو وقف بورڈ میں اقرباءپروری اور لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔ایسا لگتا ہے کہ نئے چیرمین صاحب کی حٰثیت صرف اور صرف ایک ڈمی کی ہی رہے گی۔ دوسری جانب اللہ کا شکر ہے کہ تنظیم علی کانگریس کی کاوشیں رنگ لا رہی ہیں اور تمام لوگ اوقاف کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف آوازیں بلند کرنے لگے ہیں۔جیسا کہ ایک اردو اخبارمیں شائع خبر سے ظاہر ہے کہ رام پور کی حسینی سرائے کی دو سو کروڑ روپئے میں فروخت کا معاملہ دب نہ سکا۔ساتھ ہی اس معاملہ میں ملت کے خو ساختہ قائد کی مجرمانہ خاموشی کہیں کسی بہت بڑے ریکٹ اور اسکینڈل کی طرف نشاندہی تو نہیں کرتی؟ جبکہ وقف رانی سلطنت کے معاملہ میں غریب قوم کو صرف اپنی ذاتی فائدے کے لئے سڑکوں پر نکالا گیا تھا ،ایسی حالت میں ضروری ہوگیا ہے کہ اب ان تمام حالات کی تحقیق سی بی آئی سے بلا تاخیر کرائی جائے۔

فیض آباد میں واقع بہو بیگم صاحبہ کے مقبرے کے سلسلے میں عدالتی حکم کا خیر مقدم کیا گیا۔

میٹنگ میں واعظ حق اور تحریک عزاداری میںمقبرہ سعادت علی خان سے جی پی او تک احتجاجی خاموش جلوس کی رہبری کرنے والے مولانا رضوان حسین کی رحلت پر اظہار افسوس کیا گیا اور سورہ فاتحہ سے تحریک دین فہمی و تحریک تحفظ اوقاف کے منصوبہ سازالحاج مرزا جاوید مرتضی و الیسع رضوی طاب ثراہ سے روح کو شاد کیا گیا۔

No comments: