Meeting of Ali congress

Meeting of Ali congress

LATE YASA RIZVI

LATE YASA RIZVI
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA

LATE ALHAJ MIRZA JAVED MURTUZA
MASTER MIND OF TAHREEK-E-AZADARI AND TAHREEK-E-TAHAFUZ-E-AUQAAF

Wednesday, December 01, 2010

PRESS NOTE 28.11.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                 Date............

برائے اشاعت



رسول اور مولا کی سیرت کھل کر اعلان اور حمایت حق تھی:تنظیم علی کانگریس

لکھنو 28 نومبر تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں عالمِ انسانیت کو عیدِ غدیر کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہاگیا کہ یہ وہ اہم ترین موقعہ ہے جب کے اللہ کے رسول نے قران کے ساتھ نمونئہ عمل کے طور پر اپنی طرح اپنی جگہ پر مولا علی ؑ کو جانشین مقرّرکر کے دین کا تکمیلہ کر دیا۔ یہ آخری حج ہی وہ مبارک موقعہ ہے جس میں دس تاریخ کو رسول نے عالم انسانیت کے لئے منشور پیش کیا اور اٹھارہ تاریخ کو نمونہءعمل پیش کردیا۔افسوس کی بات یہ ہے کہ قوم نے اس منشور کو پسِ پشت ڈال دیا اور مولا ؑ کی شخصیت کو نمونئہ عمل بنانا چھوڑ دیا۔ اگر آخری حج کے پیغام کو اُمت مضبوطی سے تھام لے تو ہم آج بھی اُمت وسطہ اور خیرالامم کی شکل میں جانے جا سکتے ہیں۔ رسول اور مولا ؑ کی سیرت کھل کر اعلان اور حمایت حق تھی۔ آج ہماری قوم میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور علماءاور دانشوروں کا ایک بڑا طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ خاموش رہ کر اپنی ذمّہ داری سے ادا ہو جائے گا جو کہ کسی حال میں مولاؑ کی پیروی نہیں ہے۔موجودہ حالات میں خاموش بیٹھنے والے خود بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔ پچھلے دنوں اخبارات میں شیعہ وقف بورڈ کے چئر مین صاحب کے استعفیٰ کی خبروں سے ظاہر ہے کہ انہوں نے اوقاف کے لٹیروں کے خلاف کاروائی کرنے کی ہمت نہ کی اور استعفیٰ دے کر خود کو بری رکھنے کی کوشش کی اور اسطرح مولا کا حقِ نمک ادا کرنے کے بجائے رشتہ داری کی پاسداری کو اہمیت دی۔ دوسری طرف یہ قابلِ تحسین ہے کہ کچھ لوگوں نے وقف امامبارہ غفرانماب کی بدعنوانیوں کے خلاف ہا ئی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور مولا کے مال کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر خرد برد کرنے والوں کو جواب دہ ہونا پڑےگا۔

اس ہفتہ حسین آباد ٹرسٹ کے سکریٹری جناب اوپی پاٹھک صاحب کے ذریعہ شیعہ طلبہ کے لئے وظائف جاری کئے جانے حسین آباد کی مجالس کے لئے بہتر ذاکری کے انتظام اورشاہی ضریحِ مبارک کے یومِ عاشورہ کو دفن کئے جانے کے انتظامات اور وثیقہ کی رقم بڑھانے کی تحسین کی گئی۔ ساتھ ہی یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ بہو بیگم صاحبہ اورنواب سالار جنگ بہادر کی اولاد کے وثیقہ میں بھی اضافہ کیا جائے۔ اسکے علاوہ پاٹھک صاحب کو یہ بھی یاد دلایا گیا کہ2009 میں علی کانگریس نے انکو امامِ جمعہ کی تبدیلی کے لئے میمورنڈم پیش کیا گیا تھا۔ موجودہ امام جمعہ کا بار بار منبر سے جھوٹ بولنا اور نماز جمعہ کاوذاتیات کا اکھاڑہ بنانا بار بار ثابت ہوچکا ہے لہٰذا سیکریٹری صاحب تنظیم کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے کسی عادل امام جمعہ کا انتظام بھی بہت جلد کردیں تو بہت بہتر ہوگا۔

آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ لائق علی

Friday, November 26, 2010

PRESS NOTE OF 21.11.2010

ALI CONGRESS  
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............                                                                                                                                                           Date............ 
            
برائے اشاعت          
اللہ کے انصاف میں دیر ہے اندھیر نہیں ہے : تنظیم علی کانگریس

لکھنو 21 نومبرتنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میںحالات حاضرہ کا جائزہ لےا گیا۔ کہپچھلے اتوار کو جو شیعہ قوم کی رسوائی اپنے ذاتی مفاد کی خاطر کی گئی اسکی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ خود ساختہ قائد نے اپنے اقتدار کی ہوس اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے اپنے بھائی کے ذریعہ جو کم عمر لڑکوں کا استعمال کرتے ہوئے شہر میں ہنگامہ آرائی کرائی اس سے پوری دنیامیں شیعوں کی بڑی ذلت ہوئی اور جب ان نا سمجھ ،بھولے بھالے جذباتی کم عمرلڑکوں پر قانونی کار روائی ہو رہی ہے تو یہ لوگ اپناپلہ جھاڑتے ہوئے انکو پریشانیوںمیں پھنسا کر غریب شیعوں کو یک و تنہا چھوڑ گئے ہیں۔ خود ساختہ قائد کا بھائی کہیں دبک گیا ہے اور نام نہاد حسینی ٹائگرس کے مٹھی بھر کارکنان اپنے لیڈر کی تلاش کر ہے ہیں مگر وہ کسی خفیہ جگہ بیٹھ کر اپنی کارستانیوں کو انجام دے رہا ہے۔نام نہاد حسینی ٹائگرس کے بعض اراکین کو یہ ڈر ہے کہ خود ساختہ قائد کے گھر والے تو سیاسی چالوں سے اپنے کو بچا لیں گے مگر قوم کے چند کم عمر لڑکے قربانی کا بکرا بنائے جا سکتے ہیں۔ سرکاری و غیر سرکاری املاک کی تباہی و بربادی کے جو منظر ۴۱ نومبر کو پیش کئے گئے ان پر ابھی تک کوئی موثر کارروائی کیوں نہیں کی جا رہی ہے عام شہریوں کو ڈر ہے کہ فساد برپا کرنے والے کہیں دوبارہ شہر کا امن برباد نہ کردیں۔
مقررین نے نماز جمعہ کے خطبوں کو ذاتی لڑائی کے لئے استعمال کئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ جو باتیں علی کانگریس نے بہت پہلے کہی تھیںوہ آج لوگوں کی سمجھ میں آنے لگی ہیں کہ جمعہ کے خطبے میں مسلسل جھوٹ اور دروغ گوئی کی جا رہی ہے ۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب وقف مسجد شاہدرا کی آراضی کے بارے میں،امامباڑہ غفرانماب میں ہو رہی خرد برد و اسپتال کو زمین دئے جانے کے بارے میں،قرق ہوئی مسجدوں کی واگزاری کے سلسلہ میں،وقف رانی سلطنت کے سودے بازی کے بارے میں ِ، وقف امام باڑہ سجادیہ کی زمین کو فروخت کر کے لاکھوں روپیہ کے بارے میں اور شیعہ وقف بورڈ کی بد عنوانیوں پرسوالات کئے جاتے ہیں تو خود ساختہ قیادت مکمل خاموشی اختیار کر لیتی ہے اور سراج مہدی کی بیٹی کے نکاح پڑھائے جانے پر اتنی صفائیاں اور جھوٹی باتیں محراب سے کرکے قوم کو ایک بار پھر فریب دینے کی ناکام کوشش کر رہی ہیں۔مقررین نے کہا کہ اللہ کے انصاف میںدیر ہے اندھیر نہیں ہے ہر ظالم کو سزا ضرور ملتی ہے۔ دوسروں پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر رسواکرنے کی ناکام کوشش کرنے والوں کو اللہ ایک نہ ایک دن ذلیل و رسوا ضرور کرتا ہے۔جو بھی دوسروں کے لئے گڈھا کھود تا ہے وہ ایک دن خود ہی اس گڈھے میں گرتا ہے۔حق کی بالا دستی ہوتی ہے۔مقررین نے عوام سے اپیل کی کہ وہ آپس میں اتحاد اور بھائی چارہ بنائے رکھیں اور کسی مولوی کے بہکاوے میں نہ آئیں۔آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔
جاری کردہ لائق علی

Tuesday, November 02, 2010

BOOK RELEASE "HAYAT-E-JAVED" BY JUSTICE MURTUZA WRITTEN BY RUBINA MURTUZA

ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............                                        Date............
برائے اشاعت

مرزا جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کی سوانح حیات کا رسم اجرا
جسٹس مرتضیٰ حسین نے روبینہ مرتضیٰ کی کتاب جاری کی


لکھنو30 اکتوبر تنظیم علی کانگریس اور تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے رہبر مرزا جاوید مرتضیٰ ایڈوکیٹ کی پہلی برسی کے موقع پر امام باڑہ محمد علی شاہ المعروف چھوٹا امامباڑہ میں مرحوم کی حیات اور دینی و ملی کارناموں پر مبنی کتاب کا رسم اجرا انکے والد جسٹس مرتضیٰ حسین نے کیا۔
تقریب کی شروعات تلاوت کلام پاک سے ہوئی اور جناب راجیش ورما ایڈوکیٹ نے افتتاحی تقریر میں مرحوم کو جذباتی خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جاوید صاحب ایک مثالی کردار کے مالک تھے جو بھی ان سے ایک بار مل لیتا تھا انسے متاثر ہو جاتا تھا ۔
جاوید مرتضیٰ مرحوم کی بیٹی روبینہ مرتضیٰ کی تحریر کردہ کتاب " حیات جاوید" کے رسم اجرا کے موقع پر تنظیم کے جنرل سیکریٹری حسین عباس ایڈوکیٹ نے کہا کہ عزاداری کی تحریک کے دوران جاوید مرتضیٰ متعدد با ر جیل گئے مگر کبھی قید و بند کی پریشابیوں کے شکوے شکایت کرتے نہیں دیکھے گئے جبکہ نامور علماءنے قید سے رہائی کے بعد جیل کی پریشانیوں کا ذکر تے نہیں تھکتے تھے۔انہوں نے کہا کہ جاوید مرتضیٰ کی زندگی پیغمبرانہ تھی ۔
تنظیم کے سیکریٹری اصغر مہدی نے کہا کہ جاوید صاحب عزاداری کی تحریکوں کے دوران جب جیل سے انکو کچہری پیشی پر ہتھکڑی لگا کرلائے جانے سے قوم میں شدید غم و غصہ کو دیکھ کر غفرانماب کی مجلس میں مولانا کلب عابد صاحب نے کہا تھا کہ امام زین العابدین کو ہتھکڑی اور بیڑی پہنائی گئی تھی شکر ہے خدا کا کہ جاویدکو بھی مولا کی تاسی کرنے کا موقع ضلع انتظامیہ نے دے دیا۔انہوں نے کہا کہ مرحوم کو انکے انتقال سے قبل بہت ذہنی ازیتیں دی گئیں لیکن انہوں نے ہمیشہ حق بات کہی کبھی دھمکیوں سے نہیں گھبرائے ۔
مشہورشاعر اہلبیتؑ اور خطیب پیام اعظمی صاحب نے کہا کہ آج لوگوں کو دینی شعور عطا جائے ۔جاوید صاحب منبرپر اداکاری کے مخالفت کی کیونکہ منبر کے غلط استعمال سے قوم اور معاشرہ کو ہورہے نقصان کا بہت گہرائی سے مشاہدہ کیا تھا۔جاوید مرتضیٰ عالم دین تھے صرف نام کے نہیں۔انکی بیش قیمتی قومی و ملی خدمات وقت کے گزرنے کے ساتھ محسوس کی جائیں گی۔
جسٹس مرتضیٰ نے اپنی مختصر صدارتی تقریر میں کہا کہ جاوید کا کام تھا ذہنو کا صاف رکھنا ۔انکے کاموں کو جاری رکھنا چاہئے۔ روبینہ مرتضیٰ قابل مبارک باد ہیں جنہوں نے اپنے والد کے حالات زندگی قلم بند کئے۔مجھے احساس ہے کہ جاوید کے ساتھیوں کو ان سے کتنی محبت ہے۔
پروگرام میں جناب منصور مرتضیٰ،جناب عباس نگار،جناب صابر علی عمرانی،دہلی سے آئے طاہر نقوی و دیگر معزز شحصیتوں نے خطاب کیا اور نظامت کے فرائض مسعود اظہر نے انجام دئے۔آخر میں مرحوم کے ایصال ثواب کے لئے صورہ فاتحہ کی تلاوت کی گئی اور تنظیم کے منبرران نے راہ حق پر چلتے رہنے کا عہد کیا۔اختتام دعاءوحدت پر ہوا۔
جاری کردہ لائق علی

STATEMENT OF JAFAR RAZA ADVOCATE AT THE TIME OF FIRST DEATH ANNIVERSARY OF LATE JAVED MURTUZA

ALI LAWYERS ASSOCIATION
501,Arif Ashiyana,Chowk,Lucknow.
President: S.JAFAR RAZA (Advocate)       General Sec.; S.M.HUSAIN RIZVI(advocate)
Ref.No.............                     Date...........
برائے اشاعت

حیات ِجاوید

(جاوید مرتضیٰ صاحب طاب ثراہ کی سوانحِ حیات ”حیات جاوید“ کی رسم اجراءپر )
جعفر رضا ایڈوکیٹ
صدر علی لایرس ایسوی ایشن

توحید کے علمبردار، عزاءحسینؑ کے محافظ، پابندِ احترامِ منبر، علمائِ حق کے پاسدار، قوم کے محسن ، غریبوں کے مددگار، علمائِ سو، جھوٹے ذاکروں،بے عمل مولویوں، اوقاف کے لٹیروں اور شیعت کے نام پر سیاست کرنے والوں کی مخالفت کرنے والے قابل و با عمل قاعد جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ جنہوں نے 10-11-2009 کو معبودِ حقیقی کی رحمت کی طرف انتقال کیا اپنی زندگی کے 27 برسوں کا سفر کچھ اس طرح سے راہِ حق میں طے کیا جسے یاد کر کے اس شجاع، سچ کی تفسیر، قلم کے مالک، شریعت کے محافظ ، حافظ حدیث، تاریخ اسلام پر عبور رکھنے والے، قرانی آیات کے فلسفی، با عمل زندگی کے پیکر کی منظم تحریک و تنظیم کی کہانی سے تسکین و تسلّی ملتی ہے۔
دسمبر 1982میں میں جاوید مرتضیٰ صاحب نے تنظیم علی کانگریس کے جنرل سکریٹری کا عہدہ سنبھالتے ہی عزا داری پر پابندی کا ذمہ دار اُس وقت کی ضلع انتظامیہ کو ٹہھرایااور کہا کہ ہماری اصل لڑائی انتظامیہ سے ہے اہل سنّت سے نہیں کیونکہ یہ نا اہل انتظامیہ والے ارام طلب ہیں اور یہ اپنے مُخبروں کے ذریعہ شیعہ سنّی دنگے کراتے ہیں تا کہ law and order کا بہانہ بنا رہے اور محرّم میں دفعہ 144 CRPC لگا کر شیعوں کے آئینی حق(constitutional right) کی پامالی کی جاتی رہے۔ انتظامیہ پر دباو ¿بنانے کے لئے جاوید صاحب نے ایک نئی حکمت عملی کے تحت پیشگی اطلاع کے بغیر مختلف جگہوںاورمحلّوں سے ایک ساتھ احتجاج کرنا شروع کر دیا اور اُن کی ایک آواز پر قوم کے جوان اور بزرگ لبّیک کہتے ہوئے جیل جانے لگے۔ انتظامیہ کے ہاتھ پاو ¿ں پھول گئے ، قوم میں انتظامیہ کے مخبروں کی ساکھ انکے آقاو ¿ں کی نظروں میں گرنے لگ گئی۔ انتظامیہ نے جاوید صاحب کو مختلف لالچ دئے لیکن ہمارے جاوید بھائی صارطِ مستقیم پر مضبوتی سے ڈٹے رہے اور اپنی لائن آف ایکشن سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اُس دواران کئی سرکاری وظیفہ خوار مولوی بھی جاویڈ بھائی کو احتجاج بند کر دینے کا مشورہ دیتے رہے لیکن مرحوم جلوسہائے عزاءاٹھوا کر ہی دم لینے کا عزم مستحکم کر چکے تھے۔
اُس وقت شیعہ قوم کا کوئی اخبار لکھنو ¿ میں شایع نہیں ہوتا تھا۔آپ نے شیعت کی آوازائیمہئِ طاہرینؑ کی تعلیم کے مطابق عوام تک پہونچانے کے لئے پیامِ نو نکالنا شروع کر دیا۔مرحوم مولانا کلبِ عابد صاحب اخبار پیامِ نو پڑھتے تھے اور جاوید صاحب کی ستائش میں رطب اللسان رہتے تھے۔ کئی بار مولانا موصوف مرحم نے علی کانگریس کو اپنی قوتِ بازو سے تشبیہ دیا۔جاوید مرتضیٰ مرحوم نے عزاداری کی بحالی کی تحریک کے لئے سڑکوں پر جم کے مظاہرے کئے اور جیل جاتے رہے۔ وقت کی انتظامیہ کے وفادار مولویوں، مخبروںاور وقف خوروں نے جا وید مرتضیٰ صاحب کے خلاف مورچے کھول دئے کیونکہ مرحوم ایک طرف عزائِ حسین ؑ کی بحالی کے لئے مظاہرے کر رہے تھے دوسری ہر اتوا ر کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ بے ایمان متولّیوں کے خلاف ہلہ بول رہے تھے۔بے عمل ، جھوٹے مولوی ،حضرت امام حسینؑ کے نام پر قوم کے ساتھ ٹھگی کر رہے تھے، نماز پڑھانے اور مجلس پڑھنے کی اجرت لے کر اپنے بے دین ہونے کا ثبوت دے رہے تھے۔مرحوم نے نماز و ذکرِ حسینؑ کی اجرت لینے کو ائیمہ ؑ کی تعلیم کے خلاف بتا کر حرام قرار دیا۔انکی تحریروں سے متاثّر ہو کر با شعور، پڑھے لکھے، سنجیدہ افراد اُنسے جڑنے لگے تھے۔
مقصدِ عزاداری کو سمجھانے اور مقصدِ اما م حسینؑ کی تبلیغ کے لئے جاوید بھائی نے 09.10.1986 سے پیامِ نو اخبار میں دین فہمی کے نام سے ایک کالم کی شروعات کی، جس سے پیشہ ور مولویوں اور ذاکروں کے ہوش اُڑ گئے۔ ذکرِ حسین سے پیسہ کما کر عیش کرنے والے مولوی جاوید مرتضیٰ صاحب کے خلاف لام بند ہو گئے اور قوم کو مجلسوں میں جاوید مرتضیٰ صاحب کے خلاف ورغلانے لگے۔ نتیجے میں 1987 میں 20 رمضان کی رات ایک وقف خور غنڈے نے جاوید صاحب پرقاتلانہ حملہ کر دیا۔ مگر جاوید صاحب نے اتقامت کے ساتھ وقف خور بدمعاشوںاور پیشہ ور مولویوںسے مورچہ لیااور کبھی اصلاحی میدان سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس حملے سے جاوید مرتضیٰ کا دینی جذبہی اور عقیدہ اور مستحکم ہو گیا۔ آپ کا کہنا تھا کہ ”دین کی تبلیغ کرنے اور تعلیماتِ اَیمہ پہونچانے والوں پر ہمیشہ ظلم ہو ¿ے ہیں ہمیں ان مظالم پر صبر کرکے وحدہ ¾ لاشریک کی قربت اور خوشنودی کے لئے حسینیؑ مذہب کی سیرت پر عمل کرنا چاہئے۔“
جب 6-12-1992کو بابری مسجد شہید کر دی گئی امت مسلمہ پُر آشوب دور میں گرفتار تھی، لوگ غمگین اور خوفزدہ تھے، اور پیشہ ور مولوی ڈر کے مارے شتر مرغ کی مانند ریت میں گردنیں چھپائے تھے ایسے ماحول،میں جب دو گھنٹوں کے لئے کرفیو میں ڈھیل دی گئی تو توحید کے علمبردارمردِ آہن جاوید مرتضیٰ صاحب نے 27-12-1992 تمام فرزندانِ توحید کو کلمہ لا لٰہ الّااللہ پر امامباڑہ میر زین العابدین خاں میں اکٹّھا کر لیااور اُسوقت کی حکومت کی پروردہ دہشت گردی کے خلاف ملک میں پہلا پُر امن جمہوری احتجاج وجود میں آیا۔اسکے بعد جاوید صاحب نے ہندوستانی آئن کے معمار بابا صاحب ڈاکٹر بھیم راو ¿ امبیڈکر جی کی کتاب کے ایک باب کا ہندی ترجمہ اور اسی کے ساتھ اسلام کے متعلق اپنا ایک مظمون ”رام اور اسلام“ کے نام سے شایع کیا۔ انکا کہنا تھا کہ مسلمانوں نے ایک ہزار سال تک اس ملک پر حکومت کی مگر اصل دین کی تبلیغ سے غفلت برتی اور یہاں کے طبقاتی نظام میں دلتوں کو جنہیں اسلامی اصطلاح مین” مستضعف“ کہتے ہیں روایتی ظلم اور نابرابری سے چھٹکارا دلانے کے اپنے فریضہ سے غافل رہے۔ اگرمسلمان حکمرانوں نے توحید کی تبلیغ اورتمام بندگان خدا کو برابری کا درجہ دینے کے اپنے فریضہ کو ادا کیا ہوتا تو ایسا نہ ہوتا۔ اُس وقت کی حکومت نے جاوید بھائی پر کافی دباو ¿ بنایا کہ یہ کتاب مارکیٹ میں نہ آنے پا ئے اور انتظامیہ کے حوالے کر دی جائے لیکن جاوید صاحب نے صاف انکار کر دیا۔ حکومت وقت نے جاوید صاحب کو میسا (MISA) میں گرفتار کر لینے اور جیل میں سڑا دینے کی دھمکی د ی مگر انکے میثمی کردار میں کوئی فرق نہ آیا۔ پھرانہوں نے چوبیس جنوری 1993 کو ایک جلسہ بڑے امامباڑہ میں فسادات کے مقتولین کے ایصالِ ثواب کے عنوان سے کیا جس میں قران کریم کے سورہ ¿ رعد کی سترہویں آیت کے مطابق عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کو اپنے آپ کو تمام انسانیت کے لئے مفید ثابت کرنے کی تعلیم دی اور ساتھ ہی ایک سہ نکاتی فارمولا پیش کیا جسکا پہلا نکتہ اتحاد بین المسلمین، دوسرا ہندو مسلم منافرت نہ پھلنے دینا، اور تیسرا توحید کی تبلیغ اور شرک و بت پرستی کی مخالفت تھا۔انکا کہنا تھا کہ نظریہ توحید صرف مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام مذاہب میں توحید کے پرستار موجود ہیں ہمیں چاہئے کہ ہم توحید کا پیغام عام کرنے کے لئے ان سب سے اشتراک کریں۔بعد میں اسی دعوتِ فکر پر مبنی ایک مضمون انہوں نے اس وقت کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان مسٹر مرلی منوہر جوشی جی کو بھی لکھا اور دلت وائس بنگلور کے ایڈیٹر مسٹر راج شیکر کو لکھنو ¿ مدعو کرکے چھوٹے امامباڑہ کے ٹرسٹی ہال میں ایک سیمینار کیا جسکا عنوان تھا ” اسلام اور مستضعفین“۔
1993 کے محرم میں جو کہ جون مہینہ میں پڑنے کی وجہ سے سمر وکیشن میں پڑا تھا انہوں نے ہائی کورٹ میں جسٹس تلہری کی عدالت ایک رِٹ پٹیشن داخل کی ۔ جسٹس تلہری کی بنچ ہی دسمبر 1992 میں ایودھیا میں رام للا وراجمان کے درشن کی اجازت دے چکی تھی۔ جاوید صاحب نے عدالت میں اپنی دلیل دیتے ہوئے کہا کہ جب ایودھیا میں کرفیو کے دوران درشن کے لئے آرڈر پاس ہو سکتے ہیں تو لکھنو ¿ میں شیعوں کے تاریخی مذہبی جلوسوں کے انکے آئینی حق کے لئے آرڈر پاس ہونے چاہئے۔ ہائی کورٹ نے اس دلیل کی بنیاد پر رِٹ الاو ¿(allow)کر دی اور کلیکٹر کو ڈائرکشن دیا کہ شیعہ سنّی فریقوں کو بلا کر معاملات طے کرا دئے جائں۔ سنّی لیڈروں نے جلوسِ مدح صحابہ کی معاملہ اُٹھایا جس پر جاوید صاحب نے ڈی ایم سے کہا کہ آپ ہائی کورٹ کے احکام کی توہین کر رہے ہیں اور انتظامیہ کے خلاف contempt writ فائل کر دی۔ اسکے خلاف جاوید صاحب مستقل ہائی کورٹ اور ڈی ایم کے کورٹ مین دفعہ 144CRPC کے خلاف لڑتے رہے جسِ سے سرکار پریشان ہو گئی اور مجبوراً جلوس نکلوانے پڑے۔
تاریخ بشر اس بات کی گواہ ہے کہ جب کوئی ریفارمر اپنے دور کی برائیوں کو روکنے اور دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس دور کے حکمراں اور فرضی مذہبی ٹھیکےدار، با اقتدار لوگ اور نا واقف ہجوم اسے چین سے جینے نہیں دیتا۔ لوگ اس سے جڑنے نہ پائں اس غرض سے اس ریفارمر پر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں۔ ا ی ¿مہ طاہرینؑ اہلیبت اطہارؑ کو بھی انہی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ اسی شہر میں میر انیس کو بھی یہی شکوہ تھاکہ
برگشتہ زمانہ ہے مد د کیجئے مولا
نا قدروں کے احساں سے بچا لیجئے مولا
علّامہ اقبال کو ایسی ہی ذہنیت والوں نے کافر و مشرک کہااور سر سید کو بھی۔ جسٹس سید کرامت حسین صاحب کو بھی کافر و مشرک کہا اور امامباڑہ میں دفن نہیں ہونے دیا۔
شیعہ قوم کو رحیم و کریم خالقِ کائنات نے بطور جاوید مرتضیٰ ایک نعمت عطا کی تھی،جسے قوم کے جاہل بے دین بے عمل پیشہ ور ٹھیکہ داروں نے فراموش کر کے اسکی نا قدری کی۔ اور انہیں ذہنی اور جسمانی اذیتیں پہونچائں۔ اللہ نے اس نعمت انکی ناقدری کی وجہ سے واپس اپنی آغوشِ رحمت میں بلا لیا۔اللہ کا فلسفہ یہی ہے کہ جب اسکی دی ہوئی نعمت کا لوگ کفران کرتے ہیں تب وہ نعمت واپس لے لیتا ہے۔
جاری کردہ ذاکر حسین

MAJLIS-E-DESA OF LATE JAVED MUTUZA

زمین میں باقی رہنے کے لئے انسانوں کے لئے سود مند ہونا ضروری:
جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کی مجلس دیسہ کا پیغام


آج بعد مغربیں تحریک عزاداری و تحریک تحفظ اوقاف کے علم بردارجاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کی پہلی برسی کی مجلس کو خطاب کرتے ہوئے علی کانگریس کے نائب صدر مسعود اظہر رضوی نے کہا کہ اگر زمین میں باقی رہنا ہے تو قوم کو انسانوں کے لئے مفید ہونا پڑے گا کیونکہ قران نے سورہ رعد کی سترہویں آیت میں حق و باطل کا فرق بتاتے ہوئے یہی اصول مرتب کیا ہے۔ حق کی مثال مفید پانی کی ہے اور باطل کی مثال اس جھاگ کی جو اس پر بظاہر وقتی طور پر غالب دکھائی دیتا ہے مگر بالآخر خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور حق باقی رہ جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ قران کے مطابق انسانوں کے لئے فائدہ مند کیا ہے اور ایسا کرنے پرسورہ اعلیٰ کی نویں آیت تابارہویں آیت اور سورہ ذاریات کی پچپنویں آیت سے ہدایت ملے گی جس میں واضح کر دیا گیا کہ فائدہ پہونچانے کا ذریعہ تذکیر اور نصیحت ہے لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قوم کے زمین میں باقی رہ جانے کے لئے ضروری ہے اگر یہ نہ ہوا تو قوم جھاگ کے ساتھ فنا ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ تذکیر کے لئے اللہ تعالیٰ نے قران کو آسان کر دیا ہے اور اس بات کو سورہ قمر میں چار بار دہرائا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ آپ مصور سے تو محبت جتائیں مگر اسکی تصویر کو بگاڑیں لہٰذا مسلمان پر واجب ہو جاتا ہے کہ وہ خلق خدا سے محبت کرے اور اسکی حفاظت کی خاطر کوئی بھی قربانی دےنے سے گریز نہ کرے جیسا کربلا کے شہیدوںؑنے کر دکھایا۔ یہی اصول بتاتا ہے کہ اسلام میں جہد لالبقاstruggle for existenceکے نتیجے میں survival of the fittestکے بجائے survival of the beneficial کا اصول مانا جاتا ہے اور اسی بات کی تبلیغ جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ اپنی حیات میں کرتے رہے۔مصائب اہلبیتؑ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ سے راہ حق پر چلتے رہنے کی دعا کی۔
مجلس چھوٹے امامباڑے میں جاوید صاحب کے والد عزت مآب جسٹس مرتضیٰ حسین صاحب نے منعقد کی تھی اور اس میں بہت سارے معززین شہر کے علاوہ تنظیم علی کانگریس، دخترانِ زینبی، یوتھ علی کانگریس، اور علی لائرس اسوسی ایشن کے ممبران کے علاوہ کثیر تعداد میں مومنین نے شرکت کی۔
کل ۱۳ اکتوبر کو اسی وقت اسی جگہ جاوید صاحب کی صاحبزادی روبینہ جاوید مرتضیٰ کی کتاب حیات جاوید کی رسم اجراء انشاللہ جسٹس مرتضیٰ حسین صاحب کے ہاتھوں انجام پائے گی۔ اور علی کانگریس اور اُسکی ہمنوا تنظیمیں حمایت حق اور مخالفت باطل کے اپنے عہد کی تجدید کریں گی۔
جاری کردہ روبینہ جاوید مرتضیٰ

Wednesday, October 27, 2010

PRESS NOTE 23.10.2010


ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.

Ref.No............                  Date............ 
برائے اشاعت
جاوید مرتضی کی برسی کی تیاریاں شروع
 تجدید عہد کا دو روزہ پروگرام چھوٹے امام باڑہ میں: تنظیم علی کانگریس

لکھنو 23 اکتوبر:تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست زیر صدارت مرزا ارشاد حسین شاہ منعقد ہوئی، جس میںمیں پچھلے ہفتے کے حالات کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ تنظیم کے مرحوم قاعد،تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز و رہبر الحاج جاوید مرتضیٰ طاب ثراہ کی پہلی برسی کے سلسلے سے یومِ تجدیدِعہد کی تیاریوں کا جائزہ لیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ انشااللہ 30 اکتوبر کو بعد نماز مغربین امامباڑہ محمد علی شاہ المعروف بہ چھوٹا امامباڑ ہ میں مجلس دیسہ ہوگی۔ اور 31 اکتوبر کو انشاللہ اسی جگہ اور اسی وقت روبینہ جاوید مرتضیٰ کی کتاب حیات جاوید کا اجراءجاوید صاحب مرحوم کے والد ماجد عزت مآب جسٹس مرتضیٰ حسین کریں گے۔ 
اپنی کتاب حیاتِ جاوید کے سلسلہ میں علی کانگریس کی نائب صدر اور دخترانِ زینبی کی صدر روبینہ جاوید مرتضیٰ نے بتایا کہ انکے والد ایک تاریخ ساز شخصیت (legend) تھے جنکا بچپن سے لے کر انتقال تک کا وقفہ صدق مقال اوررزق حلال پر مبنی تھا اور جنہوں نے اپنی ساری زندگی پیامِ امام حسین علیہ السلام کو عوام تک پہونچانے میںنچھاور کر دی۔ انہوں نے بتایا کہ اپنے واالدِ مرحوم کی روح سے انہوں نے اللہ کے سامنے یہ عہد کیا ہے کہ وہ اپنی زندگی انکی تاسی میں اہلیبیت علیہم السلام کے اصل پیغام کی نشر و اشاعت پر صرف کرنے کے لئے وقف کر رہی ہیں ۔ تنظیم کے سکریٹری اصغر مہدی صاحب نے بتاےا کہ مجلس انشااللہ تنظیم کے نائب صدر مسعود اظہر رضوی پڑھیں گے اور مجلس اور رسمِ اجراءکے دعوت نامے شہر میں تمام علمائ، دانشوروں اور دیگر افرادکو دئے جا چکے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ تمام محبانِ اہلیبت علیہم السلام وہ لوگ جو قومی حالات میں بہتری کی فکر رکھتے ہیں ان جلسوں میں شامل ہوں گے۔جعفر رضا صاحب ایڈوکیٹ نے اطلاع دی کہ وکلاء اور ماہرین قانون کے دعوت نامے تقسیم کئے جا چکے ہیں ۔ حسن اعجاز صاحب نے اخبارات اور میڈیا سے رابطے کی ذمہ داری قبول کی۔ اس سلسلہ میں تفصیلی نشریہ حسب ضرورت پھر جاری کیا جائے گا۔
 آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔
جاری کردہ
لائق علی

Tuesday, October 12, 2010

PRESSNOTE OF 10.10.2010

 
ALI CONGRESS
KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.
Mob. No.9415544115.
Ref.No............                                                                    Date............
برائے اشاعت
 ایمان فروش” پوتر پاپی دھرم مافیاو ¿ں“ کو روٹیاں سےنکنے نہ دی جائےں: تنظیم علی کانگریس

لکھنو ¿10اکتوبر تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں کہا گیا کہ بابری مسجد کے مقدمہ میں ہائی کورٹ کا فیصلہ بدقسمتی سے کسی ایک بھی فریق کو مطمئن نہ کر سکا اور تینوں فریق بالآخرسپریم کورٹ سے رجوع کرنا ضروری سمجھ رہے ہیں۔ یہ ہندوستان کی عدلیہ کی تاریخ میں شائد ایسا پہلا واقعہ ہو جس میں تمام فریقوں کوخوش کرنے میں کوئی بھی مطمئن نہ ہوا۔ اور یہ دکھاتا ہے کہ عدلیہ کے لئے ضروری ہے کہ بالکال صاف اور واضح طور پر انصاف کے قیام کی اپنی ذمہ داری نبھائے۔ اسی طرح حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہر قیمت پر کمزوروں کے حقوق کی طاقتوروں سے حفاظت کرے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بابری مسجد پر ناجائزقبضہ کی پوری تاریخ میں حکومتیں اپنے فوری مصالح کی بنیاد پر بار بار طاقت کی بالا دستی کے ننگے ناچ کو پروان چڑھاتی رہیں یہاں تک کہ ہندوستانی تاریخ میں دہشت گردی کی بدترین واردات۶ دسمبر 1992 میں بھگوا بریگیڈ کے ہاتھوں انجام پا گئی۔ اس صورت میں جب کہ ملک کے تمام انصاف پسند افراد عدالتی فیصلے پر انگشت بدنداں تھے اور بڑے بڑے قانون داں تبصرے کے لئے فیصلے کے پورے متن کا انتظار کر رہے تھے کچھ” مکرو فریب میں ڈوبے ہوئے لوگ “اور ©”دھرما فیاو ¿ں ©“ کے ”سگے © ©“ جنہیں دنیا و مافیہا کی خبر نہیں حسب عادت تمام قوم اور تمام انصاف پسند برادران وطن کے دلوں میں لگی آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے پھاند پڑے۔ اور جب ساری دنیا سے ان پر نفرین کی بارش ہونے لگی تو” تھالی کے بیگنوں“ کی طرح پلٹ پڑے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ قوم ایسے ایمان فروشوں اور کسی ”پوتر پاپی “کے سگوں کو اپنی روٹیاں سینکنے نہ دے اور اسی کے ساتھ نوٹوں ووٹوں کی لین دین کرنے والے سیاسی سوداگروںکو بھی ہوشیار رہنا چاہئے کہ ایسے لوگوں سے قربت خود انکے سیاسی کردار پر سوالیہ نشان ہے۔ یہ جن سیاسی پارٹیوں سے وابستہ سمجھے جاتے ہیںانہیں چاہئے کہ یا تو ان سے دست برداری کا اعلان کریں یا انکے غیر منصفانہ ایمان فروش بیان پر اپنا موقف ظاہر کریں۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ سے ایک واضح فیصلہ ہو جانا ضروری ہے کیوں کہ اسی پر ہندوستانی عدلیہ پر عوام کے اعتبار کا انحصار ہے۔ تنظیم برادرِ مومن کوثر حسین عابدی صاحب کے انتقال پر انکے پسماندگان کو تعزیت پیش کرتی ہے اور انکے اعلیٰ مدارج کی دعا کرتی ہے۔ آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔جاری کردہلائق علی

Monday, October 04, 2010

PRESSNOTE AFTER THE AYODHYA VERDICT


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                           Date............

برائے اشاعت

ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آستھا نہیں بلکہ ملکی قانون کی بنیاد پر ہوگا:تنظیم علی کانگریس



لکھنو 03اکتوبرتنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میںحالات حاضرہ کا جائزہ لےتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بہت عمدہ بات ہے کہ فرقہ پرست فسطائی قوتوں کے حوصلے عوامی بیداری کے بڑھنے کی وجہ سے 1992 کیے مقابلہ اب تک کافی پست ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ بابری مسجد معاملہ مین کورٹ کے فیصلے کے پس منظر میں فرقہ واریت نہیں بھڑکی۔یہ الگ بات ہے کہ موجودہ فیصلہ ایسا نہ ہو سکا جس سے سبھی فریق مطمئن ہو جاتے اور ایسے میںسپریم کورٹ میں اپیل کیا جانا آینی حق بھی ہے اور ایک جمہوری فریضہ بھی۔ وہ لوگ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ میں اپیل نہیں کی جانی چاہئے در اصل اس عدالتی فیصلے کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیںجس میں خود یہ پراویژن ہے کہ اسے وقت معینہ کے اندر سپریم کورٹ میں چیلینج کیا جا سکتا ہے۔اسکے علاوہ اُنکا بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ ملک کے عدالتی نظام سے مایوس ہو چکے ہیں جو کہ بے انتہا بری بات ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ کسی طرح بھی 6 دسمبر 1992 کی فسطائی دہشت گردی کا جواز نہیں بن سکتا جو کہ الگ معاملہ ہے اور جسکے مجرم ہر حال میں مجرم ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ ثابت کر دیا جانا ضروری ہے کہ قوت کا مظاہرہ کر کے کسی کمزور کی عبادت گاہ یا کسی عام ملکیت پر بھی قبضہ کر لیا جانا درست اور جائز نہیں قرار دیا جا سکتا اور ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ سے یہ انصاف ضرور ملے گا اور عدل اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی۔ ملک کے تمام انصاف پسندوں کو چاہئے کہ بلا تفریق مذہب و ملت وہ بہترین وکلا کی مدد سے ملکی قانون کے مطابق ملک کی اعلی ترین عدالت میں اس فیصلہ پر نظر ثانی کئے جانے کو یقینی بنانے میں ہر ممکن تعاون کریں۔ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آستھا نہیں بلکہ ملکی قانون کی بنیاد پر ہوگا اور ہمارے ملک میں قانون انصاف عدل کی بنیادوں پر بنایا گیا ہے۔

تنظیم علی کانگریس ان افراد اور خود ساختہ لیڈروں کی سخت مذمت کرتی جو یہ رائے دے رہے ہیں کہ ہائی کورٹ کے ذریعے ایودھیا فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل نہ کریں۔حقیقت یہ ہے کہ ان ا فراد کا جمہوریت پر سے یقین اٹھ چکا ہے۔علی کانگریس نے ان عناصر کی بھی مذمت کرتی ہے جو اجودھیا میں بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کےلئے پندرہ لاکھ روپئے چندے کا اعلان کرکے واہ واہی لوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔در اصل ان عناصر کو یہ شاید نہیں معلوم کہ آقائے شریعت جناب مولانا سید کلب عابد صاحب مرحوم و مغفور کی زندگی کا آخری دور بابری مسجد کی بازیابی کے لئے جد وجہد سے پُر تھا اور مرحوم نے ایک ایسا ماحول تشکیل کیا تھا جس نے اتحاد بین المسلمین کو اولیت دی تھی۔مرحوم نے نہ صرف بڑے بڑے احتجاجی جلسوں کی قیادت کی تھی بلکہ حقیقی معنی میں مسجد کی واگزاری کےلئے جو حکمت عملی اختیار کی تھی اس نے مسلمانوں کے مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا عمل شروع ہوا تھا۔افسوس ہے کہ آج اسی شریت کدے سے مندر کی تعمیر کے لئے پندرہ لاکھ روپئے چندہ دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ تضاد اور دہرے رویہ سے مسلمانوںمیں بے چینی کس کے اشارے پر بڑھائی جا رہی ہے تحقیقات کی ضرورت ہے۔یہ بھی مزحکہ خیز ہے کہ قبل اول کی بازیابی کےلئے امریکہ اور اسرائیل کا جھنڈا جلانے والوں نے اپنی ہی مسجد میں مندر بنانے کے ئے چندے کی پیشکش کی ہے۔جبکہ مولانا کلب جواد نے بھی ہائی کورٹ میں بابری مسجد کے حق میں گواہی دی تھی جو کہ رکارڈ پر موجود ہے ۔علی کانگریس اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ یہ عناصر اپنے سیاسی ،کاروباری اورذاتی مفادات کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں اس لئے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ان مفاد پرست اور چاپلوسوں سے قوم ہوشیار رہے ۔شہدرہ کی مسجد کی آراضی اور دیگر قرق مسجدوں کی واگزاری کے سلسلے میں مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والوں کاتنظیم علی کانگریس بھنڈا پھوڑ کرے گی اور قوم کو بتا دیا جائےگا کہ جن پر وہ تکیہ کیا جا رہا ہے وہی پتے ہوا دینے لگے۔

جہاں تک مسلمان قوم کے لئے لائحہ عمل کا سوال ہے اس سلسلہ میں علی کانگریس آج بھی 24 جنوری 1993 کے جلسہ میں بتائے گئے اپنے مرحوم قائد جاوید مرتضیٰ صاحب کے موقف پر قائم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ ہم سورہ رعد کی آئت 11-17 سے ہدائت لیں:

”وہی خدا ہے جو تمہیں ڈرانے اور لالچ دینے کے لئے بجلیاں دکھاتا ہے اور پانی سے لدے ہوئے بادل ایجاد کرتا ہے(۱۱)۔۔۔۔۔۔اُس نے آسمان سے پانی برسایا تو وادیوں میں بقدرِ ظرف بہنے لگا اور سیلاب میں جوش کھا کرجھاگ آ گیا اور اُس دھات سے بھی جھاگ پیدا ہو گیا جسے آگ پر زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کے لئے پگھلاتے ہیں۔ اسی طرح پرودگار حق و باطل کی مثال بیان کرتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہونچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے(۷۱)

ان آیاتِ کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ باقی وہی رہتا جو تمام انسانوں کے لئے مفید ہو اس لئے مسلمانوں کو اپنے کو تمام لوگوںکے لئے مفید ثابت کرنا ہوگا۔جس کی پہلی صورت یہ ہے کہ ہمیں اپنے ملک میں تمام مستضعفیں دلتوں اور دبے کچلے لوگوں کی نجات اور فلاح کے لئے کام کرتے رہنا چاہئے۔ اسی کی بنیاد پر جاوید صاحب مرحوم نے سہ نکاتی پروگرام طے کیا تھا جو حسب ذیل ہے:

1۔ اتحاد بینالمسلمین کو فروغ دینا ،2 ۔ ہندو مسلم منافرت نہ پھیلنے دینیا اور3۔توحید کی تبلیغ اور شرک و بت پرستی کو پھیلنے سے روکنا۔

بہ نظر غائر دیکھا جائے تو مسجد کی بازیابی کی جنگ symbolic ہے اور اصل کامیابی ملک میں بلکہ دنیا میں اپنی افادیت ثابت کر کے ایک مثالی قوم بننا ہے جس کی پیروی دوسرے کرنے میں فخر محسوس کریں۔

جاری کردہ لائق علی

Monday, September 27, 2010

PRESSNOTE 26.9.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                   Date............



برائے اشاعت



غیروں کو پھول باٹیںاور اپنوں کو کانٹے:تنظیم علی کانگریس



لکھنو 26 ستمبرتنظیم علی کانگرےس کی ہفتہ وار میٹنگ مےں قوم سے متعلق دینی سےاسی اور سماجی امو ر اور مسائل پر تبادالائے خےال کےا گےا۔ مقررین نے حضرت سےد دلدار علی نصیراّبادی غفران مابؒ (1166/1752-1235/1820)کی دینی، سےاسی اور سماجی خدمات کا اعتراف کےا گےا۔آپ 1200ہجری مےں جلیل القدر عالم دین اور مشہور اصولی قائد آغا محمد باقر واحد بہبہانی(متوفی1208 ہجری) کی شاگردی مےں اجتہاد مکمل کر نے پہلے ہندوستانی تھے۔آپ کی اس خصوصےت کی وجہ سے آپ کے خانوادہ کو خاندان اجتہاد کہا جاتا ہے۔آ پ کی سر گرمےوں اور متعدد تحریکوں کی وجہ سے لکھنﺅکی پہچان شےعت کے مرکز کے طور پر ہو تی ہے۔ لےکن ےہ افسوس کا مقام ہے کہ خاندان اجتہاد کے حقیقی دارث سماج مےں اپنے اس جائز مقام سے محروم ہےں جس کے وہ حقدار ہےں۔آج نقلی اجتہادےوں کا اےک طبقہ ، جس مےں جہلائ، بدماشوں، اوقاف خوروں، شر پسندوں ، مسخروں کی کشرت ہے، قوم پر مسلٰ ہو گےا ہے ۔ےہ حر طریقہ سے قوم کو بےوقوف بنا کر قومی املاک اور اثاثہ پر قابض ہو گےا ہے۔ممبران نے اس بات پر تشویش کا اظہار کےا کہ تحریک عزاداری کے لئے اپنی بالوث خدمات دینے والے مشہور عالم دین آےت اللہ علی شبر ؒ اور جلیل القدر عالم دین قائم مہدی ؒ کی قبور کو نطر انداز کر کے کتبات کندہ کےاجا رہے ہےں،ممبران نے اس بات کا بھی مطالبہ کےا کہ امام باڑہ مےں اسپتال کے تعلق سے کسی بھی طرح کی تعمیر نہ ی جائے۔ اسی طرح ےہ بھی بہت افسوسناک ہے کہ امامباڑہ زےن العابدین خاںکی جدید تعمیر کے بعد خاص افراد کے نام پر امام باڑہ کے حال وغےرہ کے نام رکھے لئے گئے ہےں اور ا س طرح مرحوم زےن العابدین خاں کی خدمات کو نظر انداز کےا جا رہا ہے ۔ اس کے علاوہ امام باڑہ کے’ ذاتی‘ استعمال ‘ سے ہو نی والی آمدنی کا کو ئی حساب کتاب بھی بار بار مطالبہ کر نے کے بعد بھی پےش نہ کر نا قوم کے ساتھ دھوکہ بازی ہے۔

ممبران نے ’مسخرے‘ کے نام سے مشہور شخص اور اس کی ٹولی کے ذریعہ پھولوں کی تقسیم کے تعلق سے اظہار بےان کےا کہ قوم کے صالح اور ذی فہم افراد کے خلاف کانٹے بانٹے والے لوگوں کی چالوں سے اپنے اور غےر سب واقف ہو چکے ہےں ۔

ممبران نے امام باڑہ سبطےن آباد کے ناجائز قبصہ اور رجسٹرےوںکا معاملہ اٹھاتے ہوئے افراد قوم کی توجہ مبذول کراتے ہو ئے کہا کے اس تاریخی امام اباڑہ کے حالات بھی تشویش ناک ہےں اور بعد مےںخود ساختہ قائداور ان کی ٹولی ، کبھی شیعہ کالج، کبھی سلطان مدارس کے نام پر عوام کو گمراہ کر نے کی کوششوں مےں مصروف ہے۔اس بات مطالبہ کےا گےا کہ عوام کے سامنے امام باڑہ غفرانماب، امام باڑہ سجادےہ اورامام باڑہ زےن العابدین خاں کا حساب کتاب پیش کےا جائے ا ور اِن تماممقامات کے تمام بےنک کھاتوں کی جانج کا مطابہ بھی کےا گےا ۔ علی کانگرےس نے پھر اپنے اس مطالبہ کو سامنے رکھا ہے کہ لکھنﺅ کا خطبئہ جمعہ اےک خاص خصوصےت کا حامل ہوتا ہے اور اس کے غلط اورذاتی مفاد کے لئے استعمال کر نے سے شعےان لکھنﺅ کا وقار مجروح ہو تا ہے ، لہٰذا اس کے متن کی تشکیل کے لئے علماءاور دانشور حضرات کی اےک کمےٹی تشکیل کی جائے۔ جمعہ میں محراب و منبر کا استعمال اپنی ذاتی اغراض کے لئے کیا جان ثابت ہو چکا ہے تو علمائِ حق کو چاہئے کہ و ہ اپنے شرعی فریضہ کو پہچانیں اور فقہ کے مطابق صحیح نمازِ جمعہ کے قیام کی فوری سبیل کریں تاکہ شہر میں نمازِ جمعہ صحیح طور پر اد اہو سکے اور وہاں سے واقعی اخوتِ ملّت کا پیام دیا جا سکے۔

جاری کردہ

لائق علی



Thursday, September 23, 2010

ALI CONGRESS: PRESSNOTE OF 19.9.2010

ALI CONGRESS: PRESSNOTE OF 19.9.2010

PRESSNOTE OF 19.9.2010

ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                              Date............

برائے اشاعت



مجمع مولا کا ہے مولانا کا نہیں : تنظیم علی کانگریس



لکھنو 19 ستمبرتنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں اللہ کا شکر ادا کیا گیا کہ آخر کار جنّت البقیع کے انہدام کا ظلم چھپایا اور دبایا نہ جا سکا اور شہر میں حق پسندوں نے یہ دکھا دیا کہ رسول کی لخت جگر ایمہ طاہرین اور بزرگانِ دین اور قریب سات ہزار صحابہ کرام کی قبروں کی بے حرمتی اور پھر اس سے بھی بڑھ کر اس ظلم کا انکار کسی طور قابل برداشت نہیں ہے۔ سعودی حکومت نے ان مزارات مقدسہ کا انہدام گو کہ ۵۸ برس قبل یعنی ۸ شوال 1345 ہجری مطابق 21 اپریل 1925 عیسوی کوکیا تھا اور اس سے قبل مقامات مقدسہ پر حملے ہوتے رہے تھے مگر آج بھی یہ زخم ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔ اللہ ان سب لوگوں کو جزاءخیر عطا کرے جنہوں نے ظلم کی مخالفت میں آواز اٹھائی۔ کاش کہ خود ساختہ قائدین نے اسے سیاسی مفاد کی خاطر ذاتی قو ت کی نمایش کا ذریعہ بنانے کی کوشش نہ کی ہوتی اور اس سارے مجمع کو کسی ایک جگہ جمع ہونے کا موقعہ دیا ہوتا تاکہ مولا نا کی شوکت سے زیادہ مولا کی شوکت دکھائی دیتی۔ مگر اس سے زیادہ یہ کہ مجمع نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مولا کا چاہنے والا ہے کسی مولانا کا نہیں اور یہ بات تمام سیاسی پارٹیوں اور ووٹوں کی خرید و فروخت کرنے والوں کو بھی اچھی طرح سے جان لےنی چاہئے۔ سعودی حکومت شعائر اللہ کے سلسہ میں اپنے مسلک کے مطابق عمل نہ کرے کیونکہ یہ ساری امت مسلمہ کی میراثHeritage ہیں لہٰذا امت کو چاہئے کہ ایک بین الاقوامی کاونسل کی تشکیل کرے جو ان مقامات کے تحفظ وغیرہ کی ذمہ دار ہو اور انہیں World Heritage میں جگہ دی جائے۔اسی کے ساتھ یہ بہر حال ضروری ہے کہ مولا کی مقامی یادگاروں اور جایدادوںکی بازیابی کے لئے فوری توجہ دی جائے۔ خود سبطین آباد میں صحنچیوں وغیرہ پر ناجائز قبضے برقرا ر ہیں۔ مسجدیں قرق ہیں اور ہماری خود ساختہ قیادت چپی سادھے بےٹھی ہے۔ اس سلسہ میں علی کانگریس ان دیگر برادرانِ اسلام کی ستائش کرتی ہے جنہوں نے محبت اہلیبت کا ثبوت دیا اور اس سلسہ میں بیان دے کر ایسے ملّاوں کی مذمت کی جو ان سعودی ایجنٹوں کے ساتھی ہیں جو سرے سے انہدام جنت البقیع کے واقعہ کے ہی منکر یں۔

۴۲ تاریخ کو عدالت کا فیصلہ بابری مسجد مقدمہ کے سلسلہ میں آ ±نے والا ہے اور اس معاملے میں انتظامیہ پولیس اور نیم فوجی دستوں کا مظاہرہ کر کر کے خواہ مخواہ تناو کا ما حول پیدا کر رہی ہے جب کہ عوام میں مکمل امن اور شانتی پائی جا رہی ہے۔ تنظیم علی کانگریس اس سلسلہ میں عوام سے مکمل امن اور سکون اور بردباری کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کرتی ہے ۔ ساتھ ہی سرکار کو یاد دلانا چاہتی ہے کہ عدالتی فیصلہ پر مکمل عمل درامد کرانا اسکی ذمہ داری ہے ۔ تنظیم علی کانگریس مولانا شہنشاہ حسین صاحب کے انتقال پر انکے پسماندگان کو تعزیت پیش کرتی ہے اور اللہ سے دعا کرتی ہے کے انہیں اعلیٰ علین میں جگہ ملے۔

آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے طفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ

لائق علی

Monday, September 13, 2010

ALI CONGRESS: PRESSNOTE OF 12.9.2010

ALI CONGRESS: PRESSNOTE OF 12.9.2010

PRESSNOTE OF 12.9.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                                 Date............

برائے اشاعت

جنت البقیع کے سلسلہ میں ہونے والے احتجاج میں اختلاف پیدا کرنے والے سعودی ایجنٹ:۔تنظیم علی کانگریس

لکھنو 12 ستمبر تنظیم علی کانگریس کی ہفت روزہ نشست میں مسلمانانِ عالم کو عید کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے امیر المومنین حضرت علیؑ کے اس فرمان کو دہرایا گیا کہ عید تو اسکی ہے جسکے روزوں اور نماز کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمایا ہو اور جس دن انسان اللہ کی معصیت سے دور رہے وہی روز روزِ عید ہے۔ ساتھ ہی یہ دعا کی گئی کہ اللہ مسلمانوں کے روزوں اور نمازوں اور اعمال کو قبول فرمائے اور انہیں علم و حکمت اور راہ راست و ثبات قدم اور سب سے بڑھ کر خلقِ خدا کے لئے مفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

جنت البقیع کے سلسلہ میں سعودی حکومت کے خلاف احتجاج کیا جانا ہر انصاف پسند کا فریضہ ہے اور یہ قابل تحسین ہے کہ اس سلسلہ میں قوم میں بیداری آئی ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جب احتجاجی مظاہرے کا اعلان ہو چکا تھا تو بجائے اسکے سب یکجا ہو کر اسے کامیاب بناتے کچھ سعودی ایجنٹوں نے اسی وقت سے کچھ قبل ایک اور احتجاجی پروگرام کا اعلان کر کے قوم میں اختلال اور اختلاف پیداکرنا شروع کر دیا۔ قوم کو چاہئے کہ ان لوگوں کے بلانے پر عمل نہ کریں جو ابھی تک جنت البقیع کے معاملے میں کوئی اقدام کرنے سے منہ چراتے پھر رہے تھے۔ مگر اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ اپنے شہر میں ان مذہبی مقامات کی بازیابی کی کوشش پہلے کریں جن پر سرکاروں، سرکاری اہلکاروں اور دبنگوں کے ناجائز قبضوں میں ہیں۔ خصوصی طور پر مسجدشہدرہ،سبطین آباد کی صحنچیوںاو ر پھاٹک کی بازیابی نرہئی واقع آغا میر کی کربلا جو ساتویں امام سے منسوب ہے ’جادو گھر ‘ بن چکی ہے اور متعدد قرق مساجدکی واگزاری کی اولین کوشش کی ضرورت ہے۔ان مقامات مقدسہ کی بحالی اور بازیابی کو جان بوجھ کر پس پشت ڈال دیا گیا ہے ۔ایسے سوالات قوم کو پریشان کر رہے ہیں اور ان پر گہری خاموشی مزید شکوک پیدا کرنے کا کام کر رہی ہے۔علی کانگریس کا خیال ہے کہ خود ساختہ قیادت غیر ملکی مسائل میں جان بوجھ کرقوم و ملت کو الجھانے کا جو کام کر رہی ہے،اسکی وجہ مقامی مسائل سے رو گردانی ہے،جبکہ مقامی مسائل کو ترجیح دینے کی اشد ضرورت ہے۔ورنہ روزِ قیامت یہ جواب دینا مشکل ہو گا کہ آخر کیوں ہم نے اِن شعائر اللہ کی بازیابی کی کوششیں کیوں نہیں کیں۔آخر میں علی کانگریس نے شیعہ وقف بورڈ سے مطالبہ کیا کہ اسکے’فرض شناس‘ اراکین اپنی ذمہ داریوں کو بہ خوبی نبھائیں ورنہ قوم انکو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اوقاف کا حساب کتاب اور اسکی املاک کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔خصوصی طور سے ان امام باڑوں کے حساب کتاب کو یقینی بنایا جائے جنکا تعلق نام نہاد علما اور انکے خانوادوں سے ہے۔علی کانگریس نے ان مولوی نماءافراد کی مذمت کی جو امام جمعہ ہونے کے باوجود ماہ رمضان میں اعتکاف سے پرہیز کرتے رہے اور انہوں نے اس عمل کی ترغیب بھی نہیں دی۔ یہ قابلِ تحسین ہے کہ عام مسلمانوں میں بھی یہ تحریک چل پڑی ہے کہ کسی دروغ گو کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اسکے علاوہ اس بار رویت حلال اور جمعتہ الوداع کے مسئلہ نے علم دشمن عالم نما جاہلوں کی بھی پول کھول دی ہے جو اس سامنے کی بات کو ماننے تیار نہیں تھے، کہ جس طرح گھڑی دیکھ کر افطار کرنا اور ترکِ سحر کرنادرست ہے اسی طرح علم فلکیات(astronomy) کی بنیاد پر رویت حلال کا پیشگی اعلان کیا جانا درست ہے۔

آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے طفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ

لائق علی

Thursday, September 09, 2010

PRESSNOTE 5.9.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                Date............

برائے اشاعت



تشدد اور دہشت پسندی سے لڑتے رہنا ہی جناب امیر کا اسوہ تھا:تنظیم علی کانگریس

ای میل و ایس ایم ایس کے ذریعہ دھمکیاں دیکر ماحول بگاڑنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا ضلع انتظامیہ سے مطالبہ



لکھنو5 ستمبر تنظیم علی کانگریس کی ہفت روزہ نشست میںپاکستان مین مولیٰ علی کے ماتمداروں کے جلوس اور یومِ قدس کے جلوس پر کئے گئے دہشت گردانہ حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ تشدد اور دہشت پسندی سے لڑتے رہنا ہی جناب امیر کا اسوہ تھا۔ انکے دور خلافت میں اکثر دشمنوں نے انکے علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیاں کیںاور اس سلسہ میں اکثر جناب امیر  کو انکے بعض مشیروں نے جوابی کارروایاں کرنے کے مشورے بھی دئے مگر اسکا ایک بے مثال حکیمانہ جواب دے کر انہوں نے دہشت گردی اور اسلام کے فرق کو واضح فرما دیاکہ دہشت گردی کسی بھی حال میں اسلام کو قبول نہیں ہے ، دشمن کی دہشت گردی کے جواب میں بھی نہیں کیونکہ دو باطل مل کر حق نہیں بنتے۔ تمام مسلمانانِ عالم اور خصوصاً تمام شیعانِ علی کا مذہبی فریضہ ہے کہ دنیا میں کسی قسم کی بھی دہشت گردی کو جنابِ امیر کی سیاست الٰہی سے پسپا کرنے کے لئے ہر وقت مصروفِ عمل رہیں۔ در اصل دہشت گردی ایک بگڑی سونچ کے سو ا کچھ نہیں اور ایسی سونچ رکھنے والے لوگ خوف ،دہشت اور ڈرانے دھمکانے کے بل بوتے پردنیا سے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں کیونکہ انکے پاس اپنی کوی فکر ہوتی ہی نہیں ہے جسے دلیل کے ذریعہ انسانون تک پیش کر سکیں۔ ۔ یہی دہشت گردی تھی جو اپنی انتہائی بھیانک شکل میں یزیدابن معاویہ بن کر امام حسین سے مطالبہءبیعت کرنے اٹھی تھی اور یہ دہشت گردی ہی ہے جو آج خود ہماری قوم میں حق کا گلا گھونٹنے کے لئے ہر کسی کو ڈرانے دھمکانے کی ناکام کوششیں کیا کرتی ہے۔ اور اسکے لئے ای میل ایس ایم ایس اور ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ضلع انتظامیہ کا فریضہ ہے کہ وہ فوری طور پر ای میل اور ایس ایم ایس وغیرہ کے ذریعہ دھمکیاں دینے اور دہشت پھیلانے والوں کے خلاف امن عامہ کو خراب کرنے کی کوشش کے علاوہ سائیبر ایکٹ کے تحت سخت کارروائی کرے۔مثل مشہور ہے ’پہلے گھر چراغ‘ اس لئے ضروری ہے کہ دوسرے ممالک میں ہونے والے مظالم پر احتتاج کے ساتھ ساتھ اپنے شہر کے حالات کو درست کرنے پربھی توجہ دی جائے۔ خود اپنے شہر میں مساجد قرق ہیں مسجدشہدرہ کی آراضی اور امام باڑہ سبطین اباد کی صحنچیوں پر دبنگوں کے ناجائز قبضے ہیں اور ایسے میں کچھ لوگ ان حالات میں بیرونی مثائل کے نام پر اپنی سیاست چمکانے اور مقامی مثائل سے چشم پوشی کرکے دبنگوں میں اپنی پیٹھ بنانے میں مصروف ہیں۔اسکے علاوہ رمضان المبارک میں نام نہاد شیعہ علما کی ایسے لوگوں کے ساتھ دعوتیں اڑانے، جنکے یہاں عام انسانوں کا گذر ناممکن ہے، کی برھتی روش کے پیش نظر ضروری سمجھا گیا کہ اس سلسلہ میں جناب امیر کی پالیسی سے قوم کو مطلع کر دیا جائے اور اسکے لئے نہجالبلاغہ سے جناب امیرکے اس مکتوب کے ابتدائی جملے پیش کئے جا رہے ہیں جو انہوںنے بصرہ کے گورنر ابنِ حنیف کے نام لکھا تھا جو کہ حسبِ ذیل ہے:” اما بعد! ابنِ حنیف مجھے معلوم ہوا ہے کہ بصرہ کے ایک بے فکرے نے تمہیں دعوت دی اور تم دوڑپڑے قسمِ قسمِ کے کھانے تھے۔ تُم مزا لے لے کر کھا تے تھے۔اور تمہارے آگے قابوں پر قابیں بڑھائی جاتی تھیں۔ میں نہیں سمجھتا تھا کہ تُم ایسے لوگوں کی دعوت قبول کروگے جن کے دروازے پر محتاج دھتکارے جاتے ہیں اور جن کے دسترخوان پر صرف مالدار بلائے جاتے ہیں“۔قوم کو چاہئے کہ وہ جناب امیر کی اس پالیسی سے انحراف کرنے والوں سے ضرور پوچھے کہ وہ کس منہ سے اپنے کو حضرتِ علی کا پیرو کہتے ہیں۔آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے طفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیت کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ لائق علی



Thursday, September 02, 2010

PRESSNOTE OF 29.8.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                     Date............

برائے اشاعت

حضرت علی کی سیاست الہیہ اور خو دساختہ قائدین کی چاپلوسانہ روش کا تضاد اہلبیت کی توہین ہے:علی کانگریس

لکھنو29 اگست:تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں آنے والے ایام اور جناب امیر کی شہادت کی نسبت سے ان جناب کی قیادت کو یاد کیا گیا جن کی حکومت غربہ اور عام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے تھی۔ جن کی حکومت کی priority عدالت اور مساوات کا قیام تھی ۔ وہ کسی طور میں کسی مصلحت کے تحت اس مقصد کو پس پشت کرنے کوتیار نہ ہوئے اور بقول مورخ اپنی ’شدتِ عدالت‘ کی وجہ سے شہید کئے گئے۔آج ضرورت ہے کہ تمام شیعانِ علی ہر لمحہ مولا کی اس پالیسی کو یاد رکھیں اور اسی پر عمل پیرا رہیں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج وہ لوگ جو خود کو مولا کے مذہب کا ٹھیکہ دار ہونے کا دکھاواکرتے ہیںانکے کردار میں عدالت ہے ہی نہیںاور وہ حکومتوں وزراءاور عہدہ داروں کے ساتھ ایسی دعوتیں اڑایا کرتے ہیں جس میں عام انسانوں، بھوکوں اور غریبوں کا گذر بھی نہیں ہے۔نہ صرف یہ بلکہ اس پر اتراتے بھی ہیں اور ایسی خبروں کی تشہیر میں اپنی بڑی عزت افزائی سمجھتے ہیں۔ ’دنیا اور سیاست ‘سے انکی دلچسپی انکے کردار کے اسی گراوٹ کا نتیجہ ہے اور اسی وجہ سے انکی ساری محبتیں اور مخالفتیں صرف اور صرف اپنے اور اپنے کنبے والوں کے ذاتی فائدے کے لئے ہوا کرتی ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ ایسے لوگ جناب امیر کی پالیسیوں اور طرز فکر سے قطعی نا بلد ہیں اور مغرب کی مادہ پرستی پر ایمان رکھتے ہیں۔یہی مادی فکرجناب امیرکے مخالفین کی تمام تر سیاست کی بنیاد اور امیر المومنین اور انکے دشمنوں کے بیچ اختلاف کی بنیاد یہی فکری کشمکش تھی۔اسلئے آج بھی جو لوگ وہ طرز زندگی اختیار کرتے ہیں جو دولتمندوں اور حکومتی عہدےداروں کے ارد گرد گھوما کرتے ہیںوہ جناب امیر کے موجودہ نمائندے نہیں بلکہ انکے دشمنوں کے ماننے والے ہیں۔ ایسے لوگوں کا نمازوں کی امامت کرنا مولا کے پاک منصب پر ایک غاصبانہ قبضہ ہے اورجناب امیر کی سیاست عدل اور سادہ زندگی کی توہین اور تضحیک کا سبب ہے۔ایسے عناصر کی پناہ گاہ” دل دل پر بنا جھوٹ کا قلعہ“ ہے جو یقینا حق کے ظہور کے ساتھ فنا ہوجائےگا۔

جلسہ میں قومی حالات کا مشاہدہ کرتے ہوئے واقعات پر تشویش اور اظہار افسوس کیا۔علی کانگریس نے قوم کے ان حالات کا ذکر کیا جسمیں دوسری تنظیموں اور افراد کی جانب سے اٹھائے گئے مسائل کو مبینہ قائد لے اڑتے ہیں اور آگے جاکر سودے بازی کر لیتے ہیں۔ علی کانگریس نے اوقاف کی زبوں حالی اور املاک کی لوٹمار پرمسلسل خاموشی اور خود پر سے ذمہ د اری کو نظر انداز کرنے والے افراد قومی کی شدید مذمت کی جو سرکار،انتظامیہ اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کو دوسرے افراد و تنظیمیں پہلے ہی اٹھا چکی ہوتی ہیں۔علی کانگریس نے ان مبینہ اور خود ساختہ قائدین کی مذمت کی جو قوم کو گمراہ کرنے والے مسائل اٹھا کر اصل موضوعات سے چشم پوشی کر رہے ہیں۔اوقاف کی تباہی و بربادی،مسجد شہدرہ کی املاک پر قبضہ اور سبطین آباد کے امام باڑے کی صحنچیوں پر سرکاری قبضوںکے علاوہ مکان نمبر 12 کا بار بار فروخت ہونا ایسے متعدد راز ہیں جن پر سے پردہ اٹھانے کااب وقت آگیا ہے۔

آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے طفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ

لائق علی



Sunday, August 22, 2010

ALI CONGRESS: Ali Congress wants Kalbe Jawwad out of Asfi Masjid Pulpit

ALI CONGRESS: Ali Congress wants Kalbe Jawwad out of Asfi Masjid Pulpit

Ali Congress wants Kalbe Jawwad out of Asfi Masjid Pulpit

Ali Congress wants Kalbe Jawwad out of Asfi Masjid pulpit, threatens to hold Juma prayer separately


Submitted by admin4 on 4 July 2009 - 12:51pm.
Indian Muslim
By Mumtaz Alam Falahi, TwoCircles.net,

New Delhi: The Lucknow-based Ali Congress has sought removal of Shia cleric Kalbe Jawwad from the pulpit of the historic Asfi Masjid in the city as he, the group alleged, is speaking lies from the pulpit, and thus has lost eligibility to lead prayers.

During Juma sermon in Asfi Masjid on May 22, Ali Congress alleged in a statement, Kalbe Jawwad made baseless allegations against the organization regarding its alleged anti-Shia activities in connivance with Nadwatul Ulema and Saudi Arab Embassy in Delhi. The group said the cleric did not provide any proof to substantiate his claim.

On the other hand Ali Congress has alleged that wakf properties are being looted and encroached upon under the patronship of Kalbe Jawwad. The group also alleged that some people of Jawwad tried to disturb its program on June 13.

“Because Kalbe Jawwad has gone astray by doing wrong activities and helping looters of wakf properties, to offer prayers behind him will not be right. Ali Congress declares that either Kalbe Jawwad comes up with proofs to support his allegation against Ali Congress or stop leading Juma prayer in Asfi Masjid,” the statement reads. Otherwise, the group threatened, separate Juma Prayer will be held near Asfi Masjid.

Why Kalbe Jawwad made allegation against Ali Cong?

Jawed Murtaza, advisor to Ali Congress, told TwoCircles.net: “Our organization works for social welfare, we bring out a magazine Payame Nau wherein we criticize wrong customs and traditions crept into the Muslim society. We distribute the magazine after Juma Prayer. We are doing it since 1986. We have also been exposing lies delivered from the pulpit. This has angered some people and Shia leaders. Recently we also raised the issue of some Ulema taking money from a politician in Lok Sabha elections for endorsing support. This has further angered them. So they have come out to malign us.”

How long is the enmity between Ali Congress and Kalbe Jawwad? Jawed Murtaza said: “Earlier they kept quite but when they saw their ground is shrinking, they have come out in open. We have never named individuals in our campaigns but when allegations were made directly against us we had to answer in the same coin.”


The web site of the organization says: “Ali congress is an Islamic Organization set up to fight social inequalities and discrimination.


It endeavors:
1. To promote unity among Muslims (ittehad-bain-al-muslimeen).
2. To eradicate communalism particularly Hindu-Muslim enmity.
3. To propagate monotheism and to oppose polytheism and idolatory


This organization was initially set up in 1977 for making concerted efforts for removal of illegal ban on Azadari Processions in Lucknow imposed by the Government.
Ali Congress organized various protests in this respect and ultimately succeeded in getting the ban on Azadari Processions lifted.
Link: http://www.alicongress.in/

Friday, August 20, 2010

PRESSNOTE 16.8.2010



ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............ Date............

برائے اشاعت

قرآن کریم ایک انقلابی کتاب ہے۔تنظیم علی کانگریس

لکھنو 15 اگست تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں مسلمانوں کو ماہ رمضان کی مبارک باد پیش کی اورقرآن کریم کی فضیلتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے مقررین نے کہا کہ قرآن کریم ایک انقلابی کتاب ہے جو ہر طرح کی تحریف سے پاک ہے اور قابل اعتماد کتاب ہے جس نے اپنے نزول سے لے کر آج تک ہر خطہ اور وقت میںلوگوں کی ہدائت اور رہبری کی ہے اور انشا ¿ اللہ کرتی رہے گی۔ یہ ایک پریکٹل ہدائت نامہ ہونے کی وجہ سے ان لوگوں کے خوف اور پریشانیوں میں اضافہ کا ذریعہ بنتا رہا ہے اور بنتا رہے گا جو عوام کو بیوقوف بنا کر ان کا استحصال کرتے رہنا چاہتے ہیں۔امریکہ یوروپ و دیگر مغربی ممالک میں اسلام کا بڑھتا ہوا اثر و نفوز قرآن کریم کے زندگی بخش ہونے کی علامت ہے ۔اسلام تمام بنی نوع انسانی کو ایک خدائے واحد کی پرستش اور یوم آخرت پر ایمان کی بنیاد پر ایک دوسرے سے تعاون اور پُر امن بقائے باہم کی دعوت دیتا ہے۔ بعض مغربی لوگوں کی قرآن کے بارے میںغلط فہمیوں کی بڑی وجہ خود مسلمانوں میں ایسے افراد کی غیر ذمہ دارانہ بیان بازیاں ہیں کہ جو دین کی متعصبانہ توجیہات کرتے ہیں اور خلقِ خدا کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔اس کی افسوسناک مثال شیعوں کو کافر قرار دیاجانا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے سبھی فرقے بشمول شیعہ مسلمانوں کے، اللہ، روز آخرت اور رسالت حضرت محمّد پر ایمان رکھتے ہیں اور ان میںکسی کو بھی از روئے قرآن کافر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ قرآن کریم آغاز کلام میں ہی لوگوں کونام سے نہیں بلکہ صفات کے لحاظ سے مومن، کافر ، اور منافق تین گروہوں میں تقسیم کرتا ہے اور ان کی الگ الگ خصوصیات بیان کر دیتا ہے۔اب یہ ہر شخص کے انفرادی نظریات اور اعمال ہیں کہ جو طے کریں گے کہ وہ واقعی کس گروہ سے تعلق رکھتاہے۔انہوں نے کہا کہ یہ مسلمانوں کا یہ المیہ ہے کہ عالم دین کے لباس میں ایسے لوگ ان کے امور پر مسلط ہو گئے ہیں کہ جو اصل دین کے عالم نہ ہو کر ان اختلافات اور تفرقوں کے ماہر ہوتے ہیں کہ جو رسول اکرم کی آنکھ بند ہونے کے بعد رُو نما ہوئے اور کیونکہ یہ لوگ تفرقوں میں مہارت حاصل کرتے ہیں لہٰذا یہ لوگ آپسی تفرقہ بڑھانے میں اپنی تمام مہارت ثابت کر کے ملّت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کے ہر فرقہ اور جماعت میں ایسے سمجھداار افراد آگے آئیں جو دین کو قرآن کریم اور عقل و فکر کی بنیاد پر اخذ کریں اور اپنے سماج میں پھیلی برائیوں اور تفرقوںکو دور کرنے میں مصروف جہاد ہوںاور اپنے پیش نظر اس حقیقت کوہمیشہ رکھیں کہ جن لوگوں نے دین میں تفرقہ کیا ہے اور گروہوں میں منتشر ہو گئے ہیں ان سے رسول اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مسجد نور محل کے سلسلہ میں ضلع انتظامیہ کے رویہ کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ بڑے شرم کی بات ہے کہ اللہ کے گھر سے ایک ناجائز قبضہ ہٹانے میں ضلع انتظامیہ اور خود ساختہ قیادت نا اہل ثابت ہو رہی ہے تو پھر ضلع انتظامیہ بابری مسجد کے سلسلہ میں عدالت کے فیصلے کو نافض کیسے کر پائےگا؟ضلع انتظامیہ کی اسی روش اور قوم کی خود ساختہ قیادت کی ٹال مٹول اور ذاتی مفاد کی خاطر آج تک قرق ہوئی مسجدیں واگذار نہیں ہو سکیںاور مسجد شہدرا کی آراضی بھی خطرہ میں ہے۔آخر میں اللہ سے تحریک عزاداری و تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز الحاج مرزا جاوید مرتضیٰ اور الیسع رضوی مرحوم کی اس ماہ مبارک کے تفیل میں مغفرت کی دعائیں کرتے ہوئے اہلبیتؑ کی تعلیمات اور کردار کی پیروی کرتے رہنے کا عہد کیا گیا۔

جاری کردہ

لائق علی



Monday, August 09, 2010

PRESSNOTE OF 8.8.2010



ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                           Date8.8.2010....

راجہ محمودآباد کی املاک کو قرق کرنے کی جلدی اور مسجد کے مقدہ میں جیت کے باوجود قبضہ دلانے میں تساہلی؟

مسجد شہدرہ اور امامباڑہ سبطین آباد کے مسائل کیوں حل نہیں کئے جا رہے ہیں:تنظیم علی کانگریس

لکھنو8 اگست تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار نشست میں حالات حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے کہاگیا کہ محمودآباد کی جائداد سے متعلق آرڈینینس میں مسٹر چدمبرم کے رول پر سوالیہ نشان اٹھتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ مان لیا جانا محال ہے کہ وزیر اعظم اس سلسلے میں پہلے سے نہ جانتے ہوں۔ مرکزی حکومت اگر اس سلسلہ میں اپنا کردار صاف کرنا چاہتی ہو تو فوری طور پر اس آرڈینینس کو واپس لے۔ آردینینس کے لیپَس (Lapse)ہونے کا انتظار کرنا حکومت کی بد نیتی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس سے قبل کانگریس حکومت مختلف مواقعہ پر اقلیتی معاملات میںدھوکے دے چکی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس سارے معاملے کی تحقیق کر کے قرطاسِ ابیض(White Paper) جاری کرے۔

اس سنجیدہ موقعہ پر بھی قوم کے ساتھ ایک پرانی مصیبت لگی رہی اور وہ ہے جاہل انسانوں کا عالم کی شکل میں قوم کی وکالت کرنا جس سے قوم کی مزید تضحیک ہوتی ہے۔ حد ہے کہ بیان میں ایسا جاہلانہ تبصرہ کیا گیا کہ علامہ اقبال پاکستان چلے گئے تھے۔ جن لوگوں کو یہ نہیں معلوم کہ علامہ اقبال کی رحلت ۸۳۹۱ میں ہوئی تھی جب کہ پاکستان ۴۱ اگست ۷۴۹۱ کو بنا تھااور جس شخص کوخود اپنے ملک کی ۳۶ سالہ پُرانی تاریخ صحیح نہ معلوم ہو اسے عرب میں ہونے والے واقعات کے بارے میں جو چودہ سو سال پہلے واقعہ ہوئے تھے کیا معلوم ہو گا۔ سچ پوچھا جائے تو یہ بیماری بے تکان منبر سے جھوٹ بولنے کی عادت کی وجہ سے پیدہ ہوئی اور اگر قوم نے اس چیز پر لگام نہ لگائی تو ایسی ہی رسوائیاں برابر ہوتی رہیں گی۔ساتھ ہی آخر قوم کو یہ کیوں نہیں بتایا جا رہا ہے کہ سبطین آباد کی صحنچیوںکا کیا معاملہ چل رہا ہے اور خصوصاً مکان نمبر بارہ کی پئے در پئے سودے بازی کے سلسلہ میں کیا ہو رہا ہے۔ شہدرہ کی مسجد پر مقدمہ جیتنے کے باوجود آج تک صوبائی حکومت قبضہ نہیں دلواپائی لیکن محمودآباد کی پراپرٹی پر قبضہ کرنے میں اتنی عجلت دکھانا یہ ثابت کرتا ہے کہ اسکے پیچھے کوئی بہت گہری سازش ہے۔قوم کے قائد بننے اور زیادہ سے زیادہ اداروں و تنظیموں پر قبضہ کرنے کے شوقین حضرات مسجد شہدرہ اورامام باڑہ سبطین آباد کی صحنچیوںکے بارے میں اپنی پوزیشن کیوں نہیں صاف کر رہے ہیں۔تنظیم علی کانگریس کا واضح موقف ہے کہ غیر ملکی مسائل اور دیگر معاملات سے زیادہ دلچسپی مقامی مسائل کو حل کرنے میں لینا چاہیئے۔شہر اور ریاست کی متعدد مسجدوں پر ناجائز قبضے ہیں مگر شیعہ وقف بورڈ کے ممبران باہمی اختلافات کا محوربن چکا ہے۔ چیرمین اور ممبروں کے بیچ کی سرد اور گرم جنگ اوقاف کی تباہی کا سبب بن رہی ہے۔نئے نئے ادارے بنا کر سرکار اور ضلع انتظامیہ کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے استعمال کیا جا رہاہے ۔قوم ان تمام اوقاف کے حساب و کتاب کا مطالبہ کرتی ہے جو قائدین کے زیر تسلط ہیں اور بد عنوانیوں کا مرکز بن چکے ہیں۔قبروں کی کالا بازاری اور اوقاف کی مسلسل بربادی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے اس پر ارباب قوم کو دباو ¿ بنانے کی اشد ضرورت ہے۔اگر اتنا سب کچھ دیکھنے اورسمجھنے کے باوجود ہم خاموش تماشائی بنے رہے تو پھر روز محشر شہزادی کو کیا منھ دکھائیں گے لہٰذا ہمکو سیرت و تعلیمات امام مظلوم کی پیروی کرتے ہوئے ظلم کے خلاف ہمیشہ صدائے احتجاج بلند کرتے اور اوقاف کی املاک کی حفاظت کی جدوجہد مسلسل کرتے رہنا چاہئے۔

اگر خود ساختہ قیادت کا اتنا ہی اثر ہے تو پھر وہ مسجد شہدرا کی آراضی ،امامباڑہ سبطین آباد کی سہنچیاں،مسجد کشور جہاں،مسجدنورمحل اور نرحئی والی کربلا اب تک واگذار کیوں نہیں ہو سکیں؟

آخر میں تحریک عزاداری و تحریک تحفظ اوقاف کے منصوبہ ساز مرزا جاوید مرتضیٰ و الیسع رضوی طاب ثراہ کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہوئے احد کیا گیا کہ انشااللہ تنظیم علی کانگریس ہمیشہ حق کی آواز بلند کرتی رہےگی اور دعا کی گئی کہ اللہ ہم سبکو تعلیمات اہلبیتؑ کی پیروی کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

جاری کردہ : لائق علی

Monday, August 02, 2010

PRESSNOTE OF 1.8.2010


ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                    Date25-72010....

قومی و وقفی مسائل پر گہری خاموشی کسی گہری سازش کی طرف اشارہ ہے

امریکہ و اسرائیل قابل مذمت مگر وقف خوروں کی سرپرستی بھی ناقابل برداشت:علی کانگریس

لکھنو1 اگست تنظیم علی کانگریس کی ہفتہ وار تجزیاتی میٹنگ میں قوم کے تازہ حالات کا جائزہ لیا گیا۔ علی کانگریس نے ان عناصر کی مذمت کی جو مقامی معالات بالخصوص مساجد،کربلاو ¿ں،امامباڑوں اور قبرستانوں کے مسائل سے چشم پوشی کرتے ہوئے خود کو دور رکھے ہوئے ہیں۔تنظیم علی کانگریس کا واضح موقف ہے کہ امریکہ،اسرائیل وغیرہ کی مذمت اسی صورت میں ہونا چاہئے جب ہمارے مقامی و ملکی مسائل کو ھل کرنے میں مبینہ قائدین دلچسپی کا مظاہرہ کریں۔میٹنگ میں مطالبہ کیا گیا کہ اسرائیل کے خلاف احتجاج اخباری بیان سے بھی کیا جاسکتا ہے مگر قوم کے بیش قیمت اثاثوں کی بربادی سے جان بوجھ کر منھ پھیر لینے کی حرکت کو معاف نہیں کیا جائےگا۔ علی کانگریس نے قوم کو یادد لایا کہ امام باڑہ سبطین آباد، مسجد شہدرہ ،مسجد کشور جہاں، مسجد جعفر حسین و مسجد نور محل کے علاوہ سیکڑوں عبادتگاہوں پر قبضوں کے معاملے میں مبینہ قائدین کی خاموشی اور شیعہ وقف بورڈ کی نا اہلی شخصیات کو مشکوک بناتی ہے۔علی کانگریس نے مولویوںکے اس غول کی مذمت کی جو گمراہ کر تے ہوئے مقامی معاملات کے بجائے امریکہ اور اسرائیل کی باتیں کر رہا ہے۔ علی کانگریس کا قدیمی موقف ہے کہ عالم اسلام اور مسلمانوں کی تباہی و بربادی کی وجہ مغربی طاقتیں ہیں اور دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی توہین و تضحیک کی بھی ذمہ دار ہیں۔تنظیم نے غیرملکی معاملات میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ اور مقامی مسائل سے جان بوجھ کر چشم پوشی اشارہ کرتی ہے کہ سیاسی لیڈروں سے ساز باز ہو چکی ہے۔علی کانگریس نے سخت الفاط میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پورے اتر پردیش میں اوقاف کی جائداد برباد ہو رہی ہے اور شیعہ وقف بورڈ اور اسکے سرپرست کو مقامی معاملات کے بجائے بیرونی معالات میں دلچسپی ہے۔امریکہ اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کی دہلی میں جنتر منتر پر ناکامی اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ قوم دوہری سیاست کو سمجھنے لگی ہے۔علی کانگریس کا موقف ہے کہ ایک طرف اسرائیل کی مزمت اور احتجاج اور دوسری طرف قائدین کے رشتہ داروںکی اسرائیل یاتراقول و فعل کے تضاد کو واضح کرتی ہے۔علی کانگریس نے مبینہ قائد کے بھائی کی اسرائیل یاترا کے لئے معافی مانگنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس گناہ عظیم پر دین و قوم سے معافی مانگی جائے مگر ہوا یہ کہ اس یاترا کے لئے جمعہ کے خطبوں میں صفائی دی گئی۔تنظیم علی کانگریس نے حسین آباد ٹرسٹ کے سیکریٹری اور ضلع انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ مسجد آصفی کی پشت میں حسین آباد ٹرسٹ کی زمین پرتعمیر ہو رہے نئے مندر کو فورََ روکے کیونکہ یہ سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

تنطیم علی کانگریس قوم کو بار بار متنبہ کرتی ہے کہ مولویوں اور سیاسی پارٹیوں میں شیعہ لیڈروں پر دباو ¿ قائم کریں کہ وہ سیاست کے بجائے قومی مسائل کو سلجھانے میں سرگرم ہوں۔ بر سر اقتدار اور دوسری سیاسی پارٹیوں سے ساز باز کے بجائے اللہ، رسول ﷺ و اہلیبیت سے وفاداری کا ثبوت دیں۔دینی و مذہبی مسائل بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور مولویوں کے غول شیعہ کالج اور اسرائیل و امریکہ کے معاملات میں الجھانے کی سازش رچ رہے ہیں۔بے اصولی مولویوں کے گروہ جد و جہد کرنے سے گریز کر رہا ہے اور بربادی کا سبب بن چکا ہے۔قوم اس گہری سازش و ساز باز کو سمجھے اور غور کرے کہ آخر ان خاموشیوں اور نا اہلی کے پس پشت کیا کیا لالچ کار فرما ہے؟

۔ علی کانگریس نے امریکہ کے اس پادری کی سخت الفاظ میں مذمت کی جس نے آئندہ ۱۱ ستمبر کو قران مجید کو نذر آتش کرنے کا فیصلہ کیا ہے اسکو برداشت نہیںکیا جائےگا۔علی کانگریس نے تحریک عزاداری اور تحفظ اوقاف کے دو سپاہیون جناب جاوید مرتضی اور جناب الیسع رضوی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں شخصیتوںنے بہت پہلے سمجھ لیا تھا کہ احتجاجات اور مظاہروں کے تیور اور پہلو تبدیل کئے جا چکے ہیںاور قائدین سیاسی سودے بازیوں کا محور بنتے جا رہے ہیں۔

جاری کردہ لائق علی

Monday, July 26, 2010

PRESSNOTE OF 25.7.2010

ALI CONGRESS

KALBE ABID PLAZA,CHOWK,LUCKNOW.

Mob. No.9415544115.

Ref.No............                                   Date25-72010....

مسجد نور محل سے ناجائز قبضہ کو جلد ازجلد ختم کراےا جائے۔تنظیم علی کانگریس۔

لکھنو۵۲جولائی،تنظیم علی کانگرےس کی ہفتہ وار میٹنگ چوک،لکھنﺅ مےں منعقد ہوئی۔میٹنگ مےں ماہ شعبان کی فضیلت اور اہمےت کا ذکر کرتے ہو ئے کہا گےا کہ ماہ شعبان کورسول کا مہینہ کہا جا تا ہے۔ ےہ مبارک ماہ ام حسےنؑ۔ حضرت عباسؑ، جناب زےنب، شہزادہ قاسم ابن حسنؑ، علی اکبر ابن حسےنؑ اور امام زمانہؑ کی ولادت با سعادت سے منصوب ہے، لہٰذا ہماری زندگی ان عظیم شخصیات کی تعلیمات اور حالاتِ زندگی کی روشنی سے متاثر نظر آنا چاہئے۔علی کانگریس اس ےقین دہانی کے ساتھ کہ بغےر کسی ملامت اور مخالفت کی پرواہ کئے دینی بےداری اوراصلاح معاشرہ کے فرائض انجام دیتی رہے گی،مومنین کو ان مبارک ہستےوں کی ولادت باسعادت کی مبارک باد پیش کرتی ہے۔ممبران نے قوم کے حالات کا تجزےہ کر نے کے بعدجہاں قومی املاک کی بربادی ،چےرمےن اور دیگر ممبران شیعہ وقف بورڈ کی کارگردرگی پر تشویش کا اظہار کےا وہیں اس تعلق سے قوم کے نوجوانوںمےںپےدا ہو نے والی عملی بےداری کو قابل تحسین قرار دےا گےا۔اخبارات مےں جو خبرےں شائع ہو رہی ہےںاس سے ےہ ثابت ہے کہ تنظیم علی کانگرےس کے روح رواں جاوےد مرتضیٰ اور ےسع رضوی مرحو م کی ابتدا کردہ تحفظ اوقاف کی تحریک اس دور مےں پہنچ گئی ہے ، جہاں اوقاف کے اصلی لٹےروںکی نشاندہی کرنا کوئی مشکل کام نہےں رہ گےا ہے۔عوام کی بڑھتی حصہ داری نے خود ساختہ قائد اوران کے چند مفاد پرست افرادکو اس بات پر مجبور کر دےا ہے کہ وہ بھی ناجائز تعمیر اور ماضی کی خرد بردکے تعلق سے لب کشائی کرےں، لےکن ان کی ماضی کی روش اور تمام طرح کی خرد برد مےںشامل حال رہناعوام سے پوشیدہ نہیں ہے لہٰذا قوم ان کی چال بازےوںسے اچھی طرح واقف ہو جانے کے بعدان کے جھانسے مےں آ سکے اس کی عمید تو خود ان کوبھی نہیں ہے۔ ممبران نے وقف مسجدشاہدرہ کی آراضی کے تعلق سے نئے موقف کے اظہار پر تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہاکہ سابق چیر مےن اور خود ساختہ قائدکے دنےاوی مفاد کی بنا پر قائم تعلقات سے قوم کا ہر فرد واقف ہے، اور ہر ذی فہم انسان نے خود ساختہ قائدکوان کی شرعی ذمہ داری کا احساس بھی دلاےا تھا، اس کا ثبوت اخبارات مےں شائع دیگر تنظیموں کے بےانات اورمراسلہ ہےں، لےکن خود ساختہ قائداور انکے چند احباب نے قوم کی رائے کومکمل طور پر نظر انداز کر تے ہو ئے جومجرامانہ رو ش اختےار کی تھی اورجو نقصانات قومی املاک کوپہنچا ےا ہے اس کاحساب دنےا اور آخرت مےںتو دےنا پڑےگا۔علی کانگرےس وقف مسجد نور محل واقع نرہی مےں ناجائز قبضہ کو ختم کرائے جانے کی کاوشوںکی ستائش کر تی ہے، اور خود ساختہ قائد کے رشتہ کے بھائی اور قوم مےں اےک مسخرہ کی طور پر مشہور شخص کے بےان کی سخت مزمت کر تی ہے۔ضلع administration سے مطالبہ کےا گےاکہ مسجد سے ناجائز قبضہ کو جلد ازجلد ختم کراےا جائے۔ممبران نے امام باڑہ سبطےن آباد کے ناجائز قبضہ اور رجسٹرےوںکا معاملہ اٹھاتے ہوئے افراد قوم کی توجہ مبذول کراتے ہو ئے کہا کے اس تاریخی امام اباڑہ کے حالات بھی تشویش ناک ہےں اور بعد مےںخود ساختہ قائداور ان کی ٹولی کوئی نےا شگوفاپےدا کر کے اپنے کوپاک صاف ظاہر کر نے کی مزموم کوشش کرے گی۔اس بات کامطالبہ کےا گےا کہ عوم کے سامنے امام باڑہ غفرانماب، امام باڑہ سجادےہ اورامام باڑہ زےن العابدین خاں کا حساب کتاب پیش کےا جائے ا ور اِن تمام مقامات کے تمام بےنک کھاتوں کی جانج کا مطابہ بھی کےا گےا ۔ علی کانگرےس نے پھر اپنے اس مطالبہ کو سامنے رکھا ہے کہ لکھنﺅ کا خطبئہ جمعہ اےک خاص خصوصےت کا حامل ہوتا ہے اور اس کے غلط اورذاتی مفاد کے لئے استعمال کر نے سے شعےان لکھنﺅ کا وقار مجروح ہو تا ہے ، لہٰذا اس کے متن کی تشکیل کے لئے علماءاور دانشور حضرات کی اےک کمےٹی تشکیل کی جائے۔اس کے علاوہ علی کانگریس درگاہ حضرت عباسؑ کا قوم مےں انتشار بر پہ کرنے اور مخالف شخصےتوں کے خلاف نعرہ بازی کئے جانے کی سخت مزمت کر تی ہے۔ علی کانگرےس نے اردو پریس کے ساتھ تعصب برتنے کی سخت مزمت کی اور کہا گےاکہ اشتہار کے تعلق سے اردو پرےس کے ساتھ سوتےلا برتاﺅ دراصل اقتصادیات کے ذریعہ صرف اردو اخبارات کی اشاعت کو کمزور کر نا نہیں ہے بلکہ مسلمانوںکے خےالات، افکار اور مسائل کی تشہیرکوروکنے کی مزموم کوشش ہے۔

جاری کردہ لائق علی